حجاب امتیاز علی تاج کی ناول نگاری

حجاب امتیاز علی تاج کی ناول نگاری | Hijab Imtiaz Ali Taj’s Novels writing

تحریر: پروفیسر برکت علی

اس تحریر کے اہم مقامات

  1. حجاب نے یہ ناول لکھ کر اس امر کا یقین دلا دیا ہے کہ ان کے یہاں فکری سطح پر ایک ایسی تبدیلی آئی ہے جو بذات خود اہم ناولوں کی تخلیق کا باعث بن سکتی ہے….
  2. میری خوشی کا سارا دارو مدار اس بات پر ہے کہ میں اپنے ہتھیاروں سے بنی نوع انسان کو موت کے گھاٹ اتاروں۔۔۔۔
  3. ناول کی فنی سطح خاصی کمزور ہے ناول کے کردار ایکشن Action سے زیادہ گفتگو میں ملوث نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔

آج کے انسان کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ یہ دنیا ایک عجیب پاگل خانہ ہے جہاں انسان نے ایک جدید قسم کی دہشت تخلیق کی ہے۔

اس وقت یہ دہشت صرف تصور کی شکل میں ہے لیکن جب یہ عمل کا حقیقی روپ لے لے گا تو انسان اپنی تہذیب سمیت فنا ہو جائے گا۔

اور انسان کی اپنے اوپر لائی ہوئی یہ تباہی کہیں اس قیامت کا استعارہ نہ بن جائے جس کا ذکر قرآن مجید اور حدیث دونوں میں آیا ہے:

"تو اس دن کا انتظار کر جب آسمان کھلم کھلا دھواں لائے جو لوگوں پر چھا جائے گا۔” (۲۶)

قیامت کی یہ تصویر حجاب امتیاز علی کی سائنسی فنٹاسی Scientific Fantasy پاگل خانہ کو پڑھ کے ابھرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حجاب امتیاز علی اردو فکشن کی پہلی رومانوی نسائی آواز | pdf

آج کا انسان یہ سوچنے لگا ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہے؟۔ کیا دنیا کی مختلف تہذیبوں نے جو عروج حاصل کیا ہے وہ آن کی آن میں ایٹمی جنگ اور تابکاری کے منحوس ہاتھوں ختم ہو کر رہ جائے گا ؟۔

اب خواہ یہ تباہی جس کی نشانیاں قرآن مجید اور حدیثوں میں موجود ہیں انسانی عمل کے ہاتھوں بروے کار آئیں گی یا خدا خود ایک مرحلے پر اس قسم کی تباہی کا حکم دے گا تا کہ قیامت قائم ہو سکے اور یوں قرآن میں دیئے ہوئے ارشاد کی تکمیل ہو سکے۔

اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا تو مشکل ہے تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ نتیجہ مکمل انسانی تباہی کی صورت میں یقیناً نکلے گا۔

جو اگر قیامت نہیں لائے گی تو قیامت سے کم تر بھی نہ ہو گی۔

اس ناول کو پڑھ کر حجاب امتیاز علی کی یہ کرب انگیز سوچ سامنے آتی ہے کہ عام آدمی اس ممکنہ تباہی کے احساس سے نابلد نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امتیاز علی تاج ایک نظر میں

وہ یہ نہیں جانتا کہ تابکاری کے اثرات نے انسان،چرند پرند ، نباتات اور سمندر کے پانی سبھی کو متاثر کیا ہے۔

دنیا اپنا قدرتی حسن کھوتی چلی جارہی ہے۔ ہم نا معلوم طور پر فطرت سے اپنے رشتے منقطع کرتے جارہے ہیں اور ایٹمی دھماکے رکھنے میں نہیں آرہے ہیں !

انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سائنسی تجربے کرے، چاند کی تسخیر کرے، کائنات کی نا قابل حصول قوتوں کو گرفت میں لاکر انسانی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرے

لیکن دنیا کو مستقبل میں تباہ برباد کر دینے کا جواز اس کے پاس نہیں ہے۔ کائنات کی تسخیر انسان کو ان فوائد سے قریب لانے کا جواز بننا چاہئے جو قدرت نے اس میں پوشیدہ رکھے ہیں۔

سرجمیز جنس Sir James Jeans نے اپنے مقالے این ایسٹرونو مرس ویو آف دی یونیورس میں کہا تھا کہ ہم An Astronomer’s View of the Universe” کائنات کو دہشت ناک تصور کرتے ہیں

یا یہ کہ وہ ہم پر دہشت طاری کرتی ہے ۔ اس لیے کہ زماں و مکان کے ناقابل تصور اور نا قابل گرفت زمانی و مکانی فاصلوں نے انسانی تاریخ کو ایک حقیر ذرے میں تبدیل کر دیا ہے

لیکن جب سے انسان نے زمین آسمان اور سمندر پر اپنی برتری قائم کی ہے دہشت کا یہ احساس بدلتا جا رہا ہے۔

اب کا ئنات معصوم نظر آتی ہے۔ لیکن انسان یا یوں کہیئے کہ جوہری سائنسدان کے ساتھ اب دہشت کا تصور وابستہ ہوتا ہوتا جا رہا ہے ۔

آج آکسیجن کی وہ حفاظتی تہہ جو ہمیں سورج کی تابکاری سے محفوظ رکھتی ہے آہستہ آہستہ ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے ۔

ناول کی ہیروئن روحی کی سہیلی شوشوئی کہتی ہے:

” مجھے تو یہ پریشانی مارڈال رہی ہے کہ ہم کسی ایٹمی جنگ سے قبل ہی سورج سے نکلنے والی تابکاری کا لقمہ اجل بن جائیں گے۔”

حجاب امتیاز علی نے اپنی اس فنٹاسی میں نیوٹرون بم کے منصوبے سے متعلق امریکی سائنسدان سیمیول کوہن کے ان جذبات کو بھی نقل کیا ہے

جو انسانی تباہی سے متعلق ہیں ۔ وہ کہتا ہے:

” مجھے لوگوں کے مرنے کا افسوس نہیں ۔ مجھے آدمی کی زندگی کی قطعاً پر واہ نہیں۔

میری خوشی کا سارا دارو مدار اس بات پر ہے کہ میں اپنے ہتھیاروں سے بنی نوع انسان کو موت کے گھاٹ اتاروں جو ہماری فوجی طاقت میں مداخلت کرتے ہیں ۔

وہ مزید کہتا ہے کہ

تباہی سے متعلق لوگ امریکی انتظامیہ سے سوال کریں۔ اس طرح یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی قوت ہے جو جنگجویانہ ذہنیت رکھنے والی قوموں کو عالم انسانیت کی بربادی سے روک سکے؟۔

مذہب یا فلسفه ؟ مذہب پر لوگوں کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ خود فلسفہ بھی اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر گار اگر فلسفے کا پاسدار ہے تو روحی فلسفے کی بحث کو مذہب کے دائرے میں لے آتی ہے۔

اس کے نزدیک مذہب میں فلسفے سے زیادہ قوت موجود ہوتی ہے۔

ناول میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ انسانوں کا قتل، اس کی لاش کے ٹکڑوں کا دریا میں بہا دینا، بسوں اور ٹرینوں میں ،

ڈکیتی کی وارداتوں ، گیانا کے جنگل میں درندہ صفت جم جونز کے اشارے پر مرد ، عورت اور بچوں کا زہر کے پیالے پی کر کتوں کی مانند تڑپ تڑپ کر مرنا .

یہ سب واقعات آج کے انسان کے لیے غیر اہم ہو چکے ہیں لیکن عبرتناک ہیں۔

حجاب کا خیال ہے کہ ایٹمی ہولناکیاں اور مذکورہ جرائم ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں ۔

ایک ایسا دور آنے والا ہے جب پاگل خانہ کا انسان اجتماعی قتل کی واردات کو عملی جامہ پہنا کر ہی دم لے گا۔

اس ناول میں حجاب امتیاز علی نے ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جو سائنسی فنٹاسی سے تعلق رکھتا ہے۔

فنٹاسی کے بارے میں ای ایم فوسٹر نے اپنی کتاب آسکیس آف دا ناول میں پورا ایک باب دیا ہے۔

کرشن چندر کا ناول "اک والکن سمندر کے کنارے۔ یا الٹا درخت اور ایک گدھے کی سرگزشت اور محمد خالد اختر کا ناول ” چالٹواڑہ میں وصال ۔ اس کی مثالیں ہیں

لیکن اولین سائنسی فنٹاسی لکھنے کا کریڈٹ حجاب امتیاز علی ہی کو جاتا ہے

جس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ ڈاکٹر گار، شوشوئی اور روحی اپنے شہر کو غیر محفوظ پاکر کسی خطہ امن کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

انہیں ایٹمی تباہ کاریوں کا سامنا پڑتا ہے۔ ناول کی کہانی میں فنٹاسی صورت حال کی عکاسی ہے ۔

ان کے کردار وہی معروف رومانی کردار ہیں جو ان کے ناول ” ظالم محبت” سے چلے آ رہے ہیں ۔

اسی لیے انہیں "فراری” بھی کہا گیا ہے جس کو حجاب خود بھی تسلیم کرتی ہیں ۔ ” پاگل خانہ کے دیباچہ میں کہتی ہیں:

"میں پرانی اور مشاق فراری ہوں ۔ فراریوں پر الزام ہے کہ وہ بزدل ہوتے ہیں لہذا میں بزدل ہوں شدید حقیقت کی دہشت انگیزی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

یہی وجہ ہے کہ میں نے خوابوں کے پر سکون جزیرے میں پناہ لی ہے۔” (۲۷)

حجاب امتیاز علی کی ناول نگاری رومانیت کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی ۔

یہ ان کا اصل تخلیقی جوہر ہے لیکن جہاں تک سائنسی فنٹاسی کا تعلق ہے وہ حقیقت کا التباس Illuion ضرور پیش کرتی ہے ۔

بقول بر یوسٹر اور پریل Brewester and Burrell فنٹاسی میں ایک اخلاقی نظام Moral order کا احساس دلایا جاتا ہے

گو کہ اس میں قصہ حقیقت سے ماورا ہو کر غیر حقیقی واقعات کے دائرے میں رہتا ہے، پر یوسٹر اور بریل مزید لکھتے ہیں؟:

"Fantasy may be written with a Deliberate intention of sugge- sting a moral order or a kind of significance in life wholly different from erally accepted or imagined”. (28) anything gen-

پر یوسٹر اینڈ بریل کا یہ اقتباس ان کی کتاب موڈرن ورلڈ فکشن سے ہے

جس میں فنٹاسی سے متعلق عالمی ناولوں پر بحث موجود ہے ، ہمارے ادب میں کرشن چندر اور محمد خالد اختر اس ضمن میں زیر بحث لائے جاتے ہیں۔

بالخصوص کرشن کے فنٹاسی ناول تو اس کی اعلی مثال ہیں۔

حجاب کے اس سائنسی فنٹاسی میں ایک اخلاقی نظام کا تصور موجود ہے ۔

مصنفہ کا کردار ڈاکٹر گار فلسفے کی اہمیت کا متلاشی ہے جس کے تحت انسانی قدروں کا احساس ہوگا اور دنیا سکون کا گڑھ ہوگی ۔

اس ناول کی پلاٹ میں جیسا کہ پہلے بھی حوالہ دیا جا چکا ہے۔ مذہب کی اہمیت بھی ہے، اس اعتبار سے یہ ناول سائنسی فنٹاسی سے متعلق ایک پر سکون دنیا

جس میں اخلاقی نظام کی پاسداری کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔

لیکن ناول کی فنی سطح خاصی کمزور ہے ناول کے کردار ایکشن Action سے زیادہ گفتگو میں ملوث نظر آتے ہیں

جس سے قصے میں دھیما پن پیدا ہو گیا ہے ۔ مجموعی طور پر ناول میں خیالات کا بے پناہ اظہار ہے۔

اس سے پلاٹ کمزور ہو گیا ہے۔ ہنیری جیمس کرداروں کو پلاٹ پر فوقیت دیتا ہے

لیکن یہ امر بھی مسلم ہے کہ مضبوط کرداروں کا عمل Action خود بخود ایک پلاٹ بناتا چلا جاتا ہے ۔

شوشوئی صفدر کا تذکرہ ضرور کرتی ہیں لیکن وہ کون ہے اور کہاں ہے پتہ نہیں چلتا ۔

زوناش کا کردار محض تذکرے سے مربوط ہے۔ پھر اخباروں سے اور کتابوں سے لیے گئے خیالات کا بے عمل Actionless اظہار بھی موجود ہے

جس سے زندگی کا عمل کے ذریعے اظہار کچھ کمزور ہو گیا ہے۔ اکثر ناولوں میں خیالات و نظریات کا اژدہام بھی ملتا ہے

لیکن یہ سب فطری انداز سے پیش ہونے کی بنا پر قصے میں جذب ہو جاتا ہے۔

خود قاری ان فلسفیانہ خیالات کو جاننے کے لیے ایک خاص سچویشن Situation میں بے چین رہتا ہے۔

اس کی مثالیں آگ کا دریا ، اداس نسلیں، آنگن وغیرہ سے دی جاسکتی ہیں ۔

ان خیالات کو جاننے کا مطلب یہ ہے کہ قاری اپنے شعور میں وسعت کا طلبگار رہتا ہے ۔

اس طرح ناول نگار، قاری اور ناول کا ایک جاندار تکون Trio پیدا ہو جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے یہ فنی کمزوری اس وجہ سے پیدا ہو گئی ہو کہ حجاب امتیاز علی سے ایک خاص قسم کے عشقیہ و رومانی ناولوں سے اپنا رشتہ منقطع کر کے سائنسی ناول پر طبع آزمائی کی ہے۔

ویسے حجاب نے یہ ناول لکھ کر اس امر کا یقین دلا دیا ہے کہ ان کے یہاں فکری سطح پر ایک ایسی تبدیلی آئی ہے جو بذات خود اہم ناولوں کی تخلیق کا باعث بن سکتی ہے،

بشر طیکہ وہ اس سلسلہ تخلیق کو آئندہ بھی جاری رکھیں ۔

حجاب کا یہ ناول بہر حال ہندوستانی معاشرے میں مسلم خواتین کی بیداری اور ذہنی وسعت کی دلیل ہے۔

بشکریہ: اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں