حسرت موہانی: ایک عظیم شاعر کی زندگی اور شاعری

حسرت موہانی: ایک عظیم شاعر کی زندگی اور شاعری

موضوعات

  • حسرت موہانی کا تعارف
  • شاعری میں عشق اور حسن
  • ادب میں حسرت موہانی کا مقام
  • حسرت موہانی کی مشہور غزلیں
  • حسرت موہانی کا اثر

جدید اردو غزل کے بانی حسرت موہانی

بھلاتا لاکھ ہوں مگر برابر یاد آتے ہیں
الٰہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں


حقیقت کھل گئی حسرت تیری ترک محبت کی
تجھے اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں

حسرت موہانی کا بزرگان فرنگی محل سے گہرا تعلق تھا۔ حتیٰ کہ انھیں فرنگی محل سے سلسلہ قادریہ میں خلافت بھی حاصل تھی۔ یہ وجہ ہے کہ ان کے کلام میں سلسلہ قادریہ کے بانی غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ کا والہانہ ذکر موجود ہے۔ انھوں نے کئی غزلوں کو منقبت کے لیے وقف کیا۔ ان کا مزار بھی بزرگان فرنگی محل کے خاص قبرستان انوار باغ لکھنؤ میں ہے۔

حسرت موہانی دینی لگاؤ کے باوجود اشتراکیت سے خاصے متاثر تھے اور اس کے بڑے مبلغ رہے ہیں۔ اس کے دفاع میں کئی تقاریر کیں۔ اشتراکیت کی حمایت و وکالت میں اشعار بھی نظم کیے۔

حسرت موہانی صاحب کی خوبصورت شاعری خود اسکا تعارف کراتی ہے اور اسکی شاعری سہل ممتنع الفاظ پہ مشتمل ہیں جو کی جلدی زبان زد ہو جاتی ہے۔ وہ حسن و عشق کا خوبصورت شاعر تھا اگرچہ وہ انقلاب ہند کے عظیم رہنماؤں میں شامل تھا۔ اسکے اشعار اس قدر خوبصورت ہوتے تھے جو لہ موسیقی میں بہ آسانی پیواسط ہو جاتے تھے۔ گرچہ کچھ جدید تنقید نگار اسکی شاعری کو اعلی پایا نہ سمجھتے ہوئے بھی اکثر اسکی شاعری کو اس دور کی ہی نہیں بلکہ ہر دور کی بہترین شاعری قرار دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسکی ایک مشہور غزل دنیا کے عظیم گلوکار نے گائی نہیں ہوتی جیسے کہ "چپکے چپکے رات دن آنسو بہانہ یاد ہے”۔

مجھکو وہ عاشقی کا زمانہ یاد ہے
جسے ہر محفل میں گنوانا اور خاموشی میں کسی بھی جگہ سننے کے لیے لوگ دل تھام کے بیٹھتے ہیں۔ کیونکہ یہ غزل ہر کوئی بہ آسانی سمجھ پاتا ہے بقول حسرت موہانی صاحب:
"سہل کہتا ہوں ممتنع حسرت
نغز گوئی میرا شاعر نہیں
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں”

آپ کا اصل نام فضل الحسن اور حسرت تخلص جبکہ موہان جائے پیدائش ہے۔

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

چوری چوری ہم سے تم آکر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے

حسرت موہانی

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہے تو اکثر یاد آتے ہے
(حسرت موہانی)

حسرت موہانی نے یکم جولائی ۱۹۰۳ءکو اردوئے معلیٰ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جو ۱۹۴۲ء تک جاری رہا۔

بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:
”حسرت محبت کے خوشگوار ماحول کے بہترین، مقبول ترین اور مہذب ترین مصور اور ترجمان تھے وہ خالص غزل کے شاعر تھے۔ ان کے شعروں میں ہر اس شخص کے لیے اپیل ہے جو محبت کے جذبات سے متصف ہے۔“

بقول آل احمد سرور:
”عشق ہی ان کی عبادت ہے عشق کی راحت اور فراغت کا یہ تصور اُن کا اپنا ہے اور یہ تصور ہی حسرت کو نیا اور اپنے زمانہ کا ایک فرد ثابت کر سکتا ہے۔“

1۔ حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن تھا اسی مناسبت سے انہوں نے ایک شعر کہا تھا
عشق نے جب سے کہا حسرت مجھے
کوئی بھی کہتا نہیں فضل الحسن

2۔ حسرت موہانی، موہان کے رہنے والے تھے اسی مناسبت سے ایک شعر کہا ہے
موہان کی گلیاں ہیں کہ رسوائی کے مسکن ہیں
جو شخص نظر آیا بدنام نظر آیا

حوالہ "حسرت موہانی اور انقلاب آزادی” (کتاب)

اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں کہ نمائندہ اور باقی رہنے والی شاعری از اوّل تا آخر عشقیہ شاعر ی ہے۔ حسرت بڑی حساس طبیعت کے اور بڑا دردمند دل رکھتے ہیں۔ انھوں نے حسن کو چلتے چلتے، سوتے جاگتے، روٹھتے منتے، شعلہ بن کر بھڑکتے اور پھول بن کر رنگ و خوشبو لٹاتے دیکھا۔ یوں ان کی شاعری بھاگتی دھوپ کی شاعری نہیں، شباب کی شاعری ہے۔ جس میں پہلی نگاہیں اور اجنبیت کے مزے بھی ہیں۔ ”ننگے پاؤں کوٹھے پر آنے” کا دور بھی ہے اور جوانی کے دوسرے تجربات بھی ہیں۔ حسرت کے یہاں عاشقی کا مشرب، عاشقی کی نظر اور عاشقی کا ذہن یہ ساری کیفیتیں موجود ہیں۔

ہجر میں پاس میر ے اور تو کیا رکھا ہے
اک تیرے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

حسن بے پروا کو خود بین و خودآرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

آئینے میں وہ دیکھ رہے تھے بہار حسن
آیا میر ا خیال تو شرما کہ رہ گئے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں