حسرت موہانی کا تعارف اور غزل گوئی

حسرت موہانی کا تعارف اور غزل گوئی

مولانا فضل الحسن حسرت موہانی کی شخصیت مختلف اوصاف کا مجموعہ تھی۔ وہ ایک طرف اردو کے بلند پایہ ادیب اور غزل گو شاعر تھے تو دوسری طرف ممتاز سیاسی لیڈر ، عظیم قومی رہنما بے باک انسان اور تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔ بائیں ہمہ وہ ایک صوفی باصفا تھے۔ ان کی درویشی میں نہ تعلی تھی نہ مکر و فریب کا شائبہ !وہ قناعت و استغنا کا پیکر تھے اور بلا شبہ ایک عظیم انسان!

حسرت کی پیدائش 1875 ء میں ضلع انا (یوپی) کے ایک قصبے موہان میں ہوئی۔ یہ بستی علم و ادب کا گہوارہ سمجھی جاتی تھی۔ مولانا کا سلسلئہ نسب حضرت امام علی موسی رضا سے جاملتا ہے۔ ان کے والد کا نام سید اظہر حسن تھا۔ ان کا خاندان نقل مکانی کر کے نیشا پور سے ہندوستان آیا تھا۔ اور موہان میں سکونت اختیار کی تھی۔
حسرت موہانی کی ابتدائی تعلیم پرانے طرز پر ہوئی تھی۔ انہوں نے اردو اور فارسی کی ابتدائی
کتا بیں قصبے کے مولوی صاحبان سے پڑھی تھیں۔ پھر انہیں موہان مڈل سکول میں داخل کیا گیا جہاں سے 1894ء میں انہوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور تمام صوبے میں اول آئے۔
مولانا حسرت کے والد بہ سلسلہ جائیداد فتحپور ہسئوہ میں مقیم تھے۔ چنانچہ یہ بھی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہیں تشریف لے گئے اور میٹرک کا امتحان نہایت اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے علی
گڑھ گئے اور 1903ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا
حسرت موہانی نے فارغ التعلیم ہونے فورا بعد یعنی 1904ء میں سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس مہم کا آغاز ان کے مشہور ادبی و سیاسی جریدے ”اردوئے معلی” سے ہوا۔ انہوں نے یہ رسالہ علی گڑھ سے جاری کیا تھا۔ اس میں ادبی اور مذہبی موضوعات کے علاوہ سیاست کے موضوع پر بھی نہایت اہم مضامین شائع ہوتے تھے۔
اسی زمانے کا ایک اہم واقعہ ہے کہ حسرت موہانی نے عربی زبان میں شائع ہونے والے رسالے میں انگریزوں کے خلاف لکھے گئے مضمون بہ عنوان "مصر میں انگریزی سیاست “ کا ترجمہ ایک ہو نہار طالب علم (مسمی اقبال سہیل) سے کروا کر چھاپ دیا۔ مترجم کا نام نہیں دیا گیا تھا۔ جب برطانوی حکام نے مترجم کا نام دریافت کیا تو حسرت نے ایک بچے صحافی کی حیثیت سے نام بتانے سے بالکل انکار کر دیا اور مذکورہ کی اشاعت کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے لی ۔ چنانچہ ان پر ایڈیٹر ،پر نٹر اور پبلشر کی حیثیت سےمقدمہ چلایا گیا اور انہیں دو سال قید با مشقت کی سزا ہوئی۔ یہ پہلی قید فرنگ تھی۔ بعد میں تحریک آزادی کے سلسلے میں انہیں بار ہا جیل جانا پڑا لیکن جابر حکمرانوں کے آگے کبھی سر تسلیم خم نہ کیا۔ ایسے جاں گسل عالم میں بھی وہ ادب کی خدمت کرتے رہے۔
شعر:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
دنیائے ادب کے درخشندہ ستارے ایک بلند پایہ غزل گو ، عظیم سیاسی رہنما دارورسن کی آزمائش سے گزرنے والے مولانا فضل الحسن حسرت موہانی 13 مئی 1951 کو لکھنو میں انتقال کر گئے۔ ان کی موت پر اردو کے نامور ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی نے جو باتیں لکھی ہیں وہ مولانا حسرت کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
"ایسا نڈر محبت کرنے والا اور محبت کے گیت گانے والا اب کہاں سے آئے گا کسی سے نہ دبنے والا، ہر شخص پر شفقت کرنے والا، زبان کا نباض ، شاعروں کا والی، غزل کا امام، ادب کا خدمت گزار۔ کیسی سچی بات کسی نے کہی کہ سیاست کو ہلے کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ تھوڑا بہت کالا ہوتا ہے، سوائے حسرت کے !”
اردو غزل گوئی میں حسرت موہانی کا ایک اہم مقام ہے۔ انہوں نے اس صنف سخن کو جو آب و رنگ عطا کیا ہے۔ اس کی بدولت وہ رئیس المتغزلین کہے جاتے ہیں۔ انہوں نے حسن و عشق کی نفسیات کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں عاشقانہ جذبات اور واردات قلبی کو بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
جس دور میں حسرت موہانی نے اپنی غزل گوئی کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت یہ صنف سخن اپنے بلند مقام اور مرتبے سے گر چکی تھی۔ جلال لکھنوی ، صفی لکھنوی ، نسیم لکھنوی اور شاد عظیم آبادی جیسے شعراء نے اسے پروان چڑہانے کی مقدور بھر کوشش ضرور کی تھی، لیکن اس اقدام کے باوجود یہ لوگ دنیائے تغزل میں انقلاب برپا نہ کر سکے۔ یہ تاریخی کارنامہ مولانا حسرت موہانی نے انجام دیا کہ قدیم و جدید دونوں رنگوں کوباہم ملا دیا۔ اور اس نئے رنگ کو بہ حسن و خوبی بر قرار رکھا۔
یہ حقیقت ہے کہ مولانا حسرت موہانی نے اساتذہ اردو کے مختلف اسلوب کو یکجا کر کے قوس و قزح کی صورت پیدا کر دی۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ قطعا اخذ نہ کیا جائے کہ ان کی شاعری مختلف دبستان شاعری کا ایک ملغوبہ ہے ۔ اس کے برعکس اس میں ان کا انفرادی رنگ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ہر شعر میں انکی منفردشخصیت پوری طرح جلوہ گر ہو رہی ہے۔ یہ حسرت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ کلاسیکی انداز میں جدیدیت پیدا کی ہے اور پرانے طرز میں نیا پن اجاگر کیا ہے۔ اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔
حسرت موہانی کی سب سے بڑی شاعرانہ خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے زبر دستی شعر کہنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یعنی ان کے کلام میں آورد کا شائبہ نظر نہیں آتا ہے۔ ان کی سخن سنجی کی صورت کچھ یوں رہی کہ قید خانوں کی تنہائی میں فرصت ملی تو شعر کہے۔ سفر کے دوران موقع مل گیا تو غزل ہو گئی۔ گویا اس طرح ذاتی مشاہدات قلبی واردات اور سچے تجربات شعر کے قالب میں ڈھل گئے۔ یہی سبب ہے کہ حسرت کا ہر شعر تاثر کا مرکز بن گیا۔
مولا نا نہایت پاکیزہ مزاج اور پاک باز انسان تھے عیش و عشرت سے انہیں دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان کی عاشقانہ شاعری میں ابتذال نہیں پایا جاتا۔ جو بھی اور جیسے بھی جذبات ہیں، سچے اور صالح ہیں۔ نیز ان کے کلام میں خود کشی حسن اور زیبائی پائی جاتی ہے اس کی تمام تر وجہ در اصل الفاظ کی شیرینی ہے۔ حسرت الفاظ کے انتخاب کا خاص خیال رکھتے تھے۔ وہ اسکے متعلق خود کہتے ہیں۔
"شاعری اور استادی کا صرف یہی کمال نہیں کہ مضمون بلند ہو اور زبان صحیح یار دیف کھلتی ہوئی ہو اور قافیہ تازہ۔ بلکہ ان سب باتوں کے علاوہ سب سے بڑی خوبی جو سب سے بڑھ کر مشکل ، لیکن سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے وہ انتخاب الفاظ سے متعلق ہے۔”
حسرت موہانی کی غزلوں میں موسیقیت کار چاؤ ،نرم و لطیف انداز بیان، فارسی ترکیبوں کا حسن متوازن، خیالات اور الفاظ کا صحیح انتخاب پایا جاتا ہے۔ یہ ساری خصوصیات مل کر ان کے کلام کو عظمت عطا کرتی ہیں جو ان کے زمانے کے کسی اور شاعر میں کم ہی پائی جاتی ہیں۔
اگر ہم ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کریں تو یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ان کی غزل سرائی عشق و محبت کی قلبی وارداتوں اور اس کی جاودانی کیفیتوں کی داستان ہے۔ ان کے نزدیک زندگی محبت سے عبارت
ہے۔ اس کے بغیر زندگی بے کیف اور بے رنگ رہتی ہے۔
حسرت نے اپنے کلام میں عشق و محبت کے مختلف مدارج کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے اور اپنے تخیل کی مدد سے تغزل کی شان پیدا کر دی ہے۔ حسرت عشق و محبت کے نشیب و فراز کو خوب جانتے تھے۔
اس کی شدت اور حرکت کیفیت اور تموج کے ہر راز سے واقف تھے۔ وہ حسن کی عظمت سے خوبی آشنا تھے، لیکن اس واسطے سے کہ اس میں بیان تمنا اور زبان محبت کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔حسرت موہانی نے اپنی غزلوں کو شعریت کے علاوہ کسی دوسرے خارجی محرک سے آلودہ نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اپنے اندرونی جذباتی تجربوں پر کامل اعتماد تھا۔ چنانچہ بلا جھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ مولانا کی شاعری خالص انسانی جذبات کی مظہر ہے نہ مبالغہ آرائی ہے نہ تصنع نہ تکلف !
حسرت موہانی نے اپنی عشقیہ شاعری کو تجرید کے الجھاؤ میں کبھی نہیں پھنسایا۔ ان کا تغزل سراسر داخلی ہے جس سے جذبے کی اندرونی دنیا میں جنبش اور حرکت پیدا کرنا مقصود ہے۔ گویا حسرت خارجی دنیا کو اس کے اندر سمو لینا چاہتے ہیں اور وجدانی طور پر پڑھنے والے کا رشتہ کائنات کے ساتھ مربوط کر دیتے ہیں۔
حسرت کی عشقیہ غزلوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی محبت کی داستان کو مایوسی اور نامرادی کی لے پر ختم نہیں کرتے۔ وہ بڑے ہی پر امید واقع ہوئے تھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اردو کے غزل گو شاعروں میں کوئی بھی ان کے جیسا پر امید واقع نہیں ہوا ہے۔ حسرت موہانی کی غزلوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہیں کامیاب و کامران ہونے کا یقین رہتا ہے اور یہ کہ آرزوئیں پوری ہوں گی۔
شعر:
ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبط غم ایسا بھی ہوتا ہے
مشہور نقاد پروفیسر کلیم الدین احمد نے حسرت موہانی کے عہد کی غزل گوئی کو جدید غزل گوئی قرار دیا ہے۔ اور علمیت و ادبیت کو اس کی امتیازی صفات قرار دیا ہے، جس کی بدولت نئی لفظیات ،تراکیب اور استعارات کا غزل میں اضافہ ہوا اور اسی وجہ سے جدید ذہن کی آمد کا احساس اجاگر ہوا ۔ کلیم الدین احمد کی اس رائے میں یہ اضافہ ضرور کرنا ہو گا کہ اس جدید غزل میں ایک صفت اور بھی ہے اور وہ ہے راست اظہار۔ یہ وہ صفت ہے جو عہد حسرت ہی کی امتیازی صفت نہ تھی بلکہ بعد کی غزلیہ شاعری کا اہم وصف بھی بنا۔ یہ خیال اب بر قرار نہیں رہا کہ غزل میں بات جب تک چھپا کر نہ کی جائے، قابل قبول نہیں ہوتی ! اب تو راست اظہار اس دور کے بھی شعراء کی نمایاں خصوصیت بن چکی ہے، مگر حسرت موہانی کی غزلوں میں یہ صفت اوروں کے مقابلے میں بہت زیادہ نمایاں ہے۔ وہ سیاسی موضوعات سے لے کر عشق تک ہر بات بے محابا کہتے ہیں۔ عشق کے نازک ترین معاملات بھی جنہیں استعاروں اور کنایوں میں کہنا مناسب سمجھا جاتا تھا حسرت کھل کر کہتے رہے اس لیئے انہوں نے اپنی غزلوں میں جو کچھ کہا اس میں جہاں معصومیت دکھائی دیتی ہے وہاں یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ انہیں خود پر پورا اختیار بھی ہے جو انہیں ابتذال کی حدوں میں داخل نہیںہونے دیتا۔
المختصر رئيس المتغزلین حسرت موہانی نے غزل کو نئی زندگی بخشی۔ غزل ہی ان کی شاعری کا حاصل ہے۔ انہوں نے بہت کچھ کہا اور جو کچھ بھی کہا غزل ہی کے پیرائے میں کہا۔ ہم
بلا ریب ان کی غزل کو اردو غزل کا نمائندہ قرار دے سکتے ہیں۔ نیز یہ بات بھی بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان کی زندگی ان کی شاعری ہے اور ان کی شاعری ان کی اپنی زندگی کا عکس ہے۔ چنانچہ حسرت موہانی کا یہ کہنا ہر گز تعلی اور خود ستائی نہیں بلکہ حقیقت کا بین اظہار ہے ۔
شعر:
اے وہ کہ تجھے شوق ہے تحسین سخن کا
میرا جو کہامان تو حسرت کی غزل دیکھ
اہم نکات
1- حسرت موہانی جدید غزل گوؤں میں انفرادی شان اور نمایاں مقام کے مالک ہیں۔
2- حسرت کا کلام قدیم اساتذہ غزل کے مختلف رنگوں کا حسین گلدستہ ہے۔
3- حسرت کی شاعری کا محور عشق و محبت ہے۔
4- حسرت کی شاعری کی نمایاں خصوصیت اس کی سادگی اور سلاست ہے۔
5۔ ان کی غزلوں میں نہ تو خیال کی پیچیدگی ہے اور نہ ہی صنائع بدائع کی بھر مار بلکہ ایک توازن اور اعتدال کی کیفیت ملتی ہے۔
6۔ ان کے کلام میں نرمی روانی اور شگفتگی بدرجہ اتم موجود ہے۔
7۔ انہوں نے واردات قلبی کا بیان جس انداز سے کیا ہے اور اس میں سادگی و پر کاری سے جس جس طرح کے پہلو نکالے ہیں وہ ان کی جذباتی بصیرت اور فنی پختگی کی دلیل ہیں۔
8- حضرت حسن و عشق کے معاملات کو نہایت معصوم اور پاکیزہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اس میں رکاکت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
9:حسرت کی غزلوں میں جو صداقت ,واقعیت ,اصلیت زندگی اور حقیقت کی فضا ملتی ہے، اس کے عناصر اجنبی نہیں ہوتے۔
10- حسرت کے کلام میں ایک مجاہدانہ عزم کی جلوہ گری ہے۔ وہ زندگی سے ہمت ہارتے نظر نہیں آتے۔
11 ۔ دنیائے غزل میں انقلاب بر پا کرنے کا تاریخی فریضہ حسرت موہانی نے ہی پورا کیا ہے۔
12 – حسرت کو زبان و بیان پر بڑا عبور حاصل ہے۔
13 ۔ ان کے اشعار میں جس قدر فن کار چاؤ اور خلوص کا عنصر ملتا ہے ،وہ ان ہی کا حصہ ہے۔

14۔ حسرت ایک نقاد بھی تھے ، چنانچہ اسی نقادانہ صلاحیت نے ان کی غزل کو فنی بلندیوں اور اولی رفعتوں سے مالا مال کر دیا ہے۔
2- تشریحات

غزل. 1
حسن بے پروا کو خودبیں وخودآراکردیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتا بیاں ۔
ہم یہ سمجھتے تھے کہ اب دل کو شکیبا کردیا

اب نہیں دل کو کسی صورت کسی پہلو قرار
اس نگاه ناز نے کیا سحر ایسا کر دیا

عشق سے تیرے بڑھے کیا کیا دلوں کے مرتبے
مہر ذروں کو کیا قطروں کو دریا کر دیا

سب غلط کہتے ہیں لطف یار کو وجہ سے سکوں
درد دل اس نے تو حسرت اور دونا کر دیا ۔

تشریح

شعر نمبر 1

حسن بے پروا کو خودبیں و خود آرا کر دیا
کیا کیا میں نے کہ اظہار تمنا کر دیا

حسن بے پروا مراد محبوب ہے جو اپنے حسن و جمال سے بے خبر ہے۔

خود ہیں :خود پرست خود۔ پسند۔ مغرور
خود آرا = اپنے آپ کو سنوار نے والا

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کو اپنے حسن کے بارے میں پہلے سے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ اسے مطلق یہ خبر نہ تھی کہ وہ کس قدر حسین و جمیل ہے۔ لیکن جب میں نے عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے جذباتدروں اور بے تابی شوق کا اظہار کر دیا تو نتجتہً محبوب میں اپنے حسن بے پایاں کا شعور پیدا ہو گیا۔ اور وہ جو اپنے جمال سے قطعا بے پروا تھا وہی اب آرائش اور اپنے حسن کے جلوؤں میں کھو گیا۔ اب شاعر کو تاسف ہو رہا ہے کہ میں نے اظہار تمنا کیوں کر دیا۔ اب تو محبوب میں خود پسندی کے آثار پیدا ہو گئے اور غرور و ناز اس کی فطرت ثانیہ بن گئی۔
اس مطلع میں ابتدائے عشق کا ذکر نہایت حسین پیرائے میں کیا گیا ہے۔
شعر نمبر 2

بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

شکیبا =صبر کرنے والا ۔ برداشت کرنے والا۔ مطمئن

شاعر کہتا ہے کہ جب ہم محبوب سے دور تھے تو یہی سمجھتے تھے کہ ہمارے دل کی بے چینیوں کا سبب اس سے دوری ہے۔ چنانچہ یہ خیال تھا کہ جب اس سے ملاقات ہو گی تو دل کو سکون مل جائے گا اور اضطراب جاتا رہے گا۔ مگر ہوا یہ کہ جب وہ ملا تو دل کی بے چینی پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ گئی۔ اس شعر میں حسرت نے ایک بار یک نفسیاتی نکتہ پیش کیا ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ محبوب کی قربت کے نتیجے میں شوق پہلے سے دو چند ہو گیا اور دل کا صبر و قرار جاتا رہا۔
واضح رہے کہ حسرت موہانی واقعات عشق کے ساتھ ساتھ محبت کی نفسیات بھی بڑے نازک انداز میں پیش کرتے ہیں۔
شعر نمبر 3

اب نہیں دل کو کسی صورت کسی پہلو قرار
اس نگاہ ناز نے کیا سحر ایسا کر دیا

نگاہ ناز = محبوبانہ نظر ۔ نازوادا کی نظر
سحر= جادو

شاعر کہتا ہے کہ پہلے ہماری زندگی میں سکون و اطمینان تھا۔ لیکن اب نہ چین ہے نہ راحت۔ کسی طرح بھی اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ اور یہ ساری کیفیت محبوب کی جادو نگاہی کا نتیجہ ہے۔ جب سے اس نےہمیں محبوبانہ نظر سے دیکھا ہے۔ دل کا سکون نا پید ہو گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہماری بے تالی و بے قراری عشق کا نتیجہ ہے۔
شعر نمبر 4

عشق سے تیرے بڑھے کیا کیا دلوں کے مرتبے
مہر ذروں کو کیا قطروں کو دریا کر دیا

شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہمارے نزدیک محبت کوئی روگ کوئی آزار نہیں بلکہ یہ تو زندگی کو بنانے اور سنوار نے والی ایک قوت ہے۔ چنانچہ تیری محبت سے ہمارے دل کا مرتبہ اور بھی بلند ہو گیا ہے۔ پھر مثال دے کر یہ کہتا ہے کہ اے محبوب! تیرے عاشقوں کے دل اگر پہلے ذروں کی طرح تھے تو اب سورج کی طرح درخشاں ہیں۔ اگر یہ دل پہلے قطروں کی طرح محدود تھے تو اب دریا کی طرح وسیع و عریض ہیں۔
عشق کے اثرات کو حسرت نے اپنے ایک دوسرے شعر میں یوں بیان کیا ہے

ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم سیاہ کار تھے با صفا ہو گئے ہم
شعر نمبر 5
سب غلط کہتے ہیں لطف یار کو وجہ سکوں
درد دل اس نے تو حسرت اور دونا کر دیا

لطف یار = محبوب کی عنایت۔ مہربانی
دونا =دو گنا

شاعر کہتا ہے کہ ہم ہمیشہ یہ سنا کرتے تھے کہ محبوب کے التفات سے دل کو تسکین ملتی ہے اور بے
چینی جاتی رہتی ہے ۔ لیکن تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہ خیال سراسر غلط ہے کیونکہ محبوب کی عنایت اور مہربانی نے تو ہمارے دل کی خلش کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دیا ہے۔
حسرت موہانی نے اس مقطع میں واقعات عشق کے ساتھ محبت کی نفسیات کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے ۔
غزل نمبر 2

جاں فزا تھی کس قدر یا رب ہوائے کوئے دوست
بس گئی جس سے شام ارزو میں بوے دوست

بے خودی میں اب نہیں کچھ امتیاز وصل و ہجر
رات دن پیش نظر ہے جلوہ نیکوے دوست

ہو چکی اب ہم گرفتاران فرقت کو نصیب
آہ وہ خوشبو کہ تھی پروردہ گیسوئے دوست

بن گئی محفل کی محفل اک طلسم بے خودی
چل گیا آخر فسون نرگس جادوئے دوست

شعر حسرت ہم نے یہ مانا کہ نازک ہے بہت
اس سے بھی کچھ بڑھ کے نازک ہے مگر خوشبوئے دوست

تشریح

شعر نمبر 1

جاں فزا تھی کس قدر یا رب ہوائے کوئے دوست
بس گئی جس سے مشام آرزو میں ہوئے دوست

جاں فزا= فرحت انگیز ،مسرت بخش، دل خوش کرنے والا
مشام = مشم کی جمع۔ دماغ میں سونگھنے کی قوت کی جگہ

شاعر خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ یارب ! کوچہ یار کی ہوا کتنی فرحت انگیز اور مسرت بخش تھی۔ ذہن و دل اس سے کس درجہ مسحور تھے۔ ایک وجدانی کیفیت جسم و جاں پر طاری تھی۔ دوست کے کو بچے کی یہ ہوا اتنی طرب خیز تھی کہ میری آرزوں اور تمناوں کے مشام میں خود محبوب کی خوشبو
رچ بس گئی تھی۔ یہاں حسرت تصورات کی مدد سے یہ واضح کر رہے ہیں کہ کوچہ یار میں چلنے والی ہوا نے خود محبوب کے جسم و جاں کی خوشبو میرے دماغ میں بسادی ہے۔ کیفیت عشق کی ترجمانی موثر پیرائے میں کی گئی ہے
۔شعر نمبر 2

بے خودی میں اب نہیں کچھ امتیاز وصل و ہجر
رات دن پیش نظر ہے جلوہ نیکوئے دوست

نیکو – اچھا۔ خوب۔ عمدہ

شاعر کہتا ہے کہ عشق محبوب میں میں سرشار ہوں مجھ پر یک گونہ بے خودی کی کیفیت طاری ہے۔ اب ایسی حالت میں نہ تو وصال محبوب کا احساس ہے نہ ہی فراق یار کا صدمہ !۔ اب تو میرے پیش نظر خوش شکل خوب رو اور خوش جمال دوست کا جلوہ ہی رہتا ہے۔ میں اسی تصور یار میں کھویا ہوا ہوں اور اس درجہ کہ نہ تو وصال کا پتہ چلتا ہے نہ ہی فرقت کا احساس ہوتا ہے۔ اب دونوں میں تمیز کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ اور یہ نتیجہ ہے تصور جاناں کا۔

شعر نمبر 3

ہو چکی اب ہم گرفتاران فرقت کو نصیب
آہ وہ خوشبو کہ تھی پروردہ گیسوئے دوست

گرفتاران فرقت = محبوب کی جدائی کے اسیر
پروردہ = پالا ہوا۔ پرورش کیا ہوا۔

شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب تک رسائی حاصل تھی تو اس کے معطر گیسوں کی خوشبو ہمارے مشام جاں کو فرحت بخشتی تھی۔ اس کی محفل کی فضا اس کی بزم کی ہوا اور اس کی قربت میں میسر ہونے والی مسرت بخش خوشبوئے گیسو ہمیں شاد کا کام رکھتی تھی۔ ہماری روح سرشار تھی ۔ لیکن اب وہ بہار جاں فزا کہاں میسر ! ہم فرقت کے مارے بزم یار سے بہت دور ہیں۔ جدائی نے ہمیں رنگینی محفل سے محروم کر دیا ہے۔ اب ہمیں صحبت یار کہاں نصیب ہو گی۔ اب خوشبوئے گیسوئے دوست سے مشام جاں کو معطر کرنے کے مواقع کیوں کر مل سکیں گے۔ فرقت یار کی کیفیت کو موثر پیرائے میں بیان کیا گیا ہے
۔شعر نمبر 4
بن گئی محفل کی محفل اک طلسم بے خودی
چل گیا آخر فسون نرگس جادوئے دوست

فیسوں = جادو۔ سحر
نرگس = ایک پھول جسے شعراء آنکھ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مجازا محبوب کی نیلی آنکھ

شاعر کہتا ہے کہ محبوب نے اپنی مخمور اور نشیلی آنکھوں سے جب محفل پر نظر ڈالی اور متوالے انداز میں بیٹھنے والوں کو دیکھا تو سکھوں پر بے خودی کی ایک کیفیت طاری ہو گئی۔ سب پر نرگس مخمور نے سحر کر دیا۔ ہر ایک دم خود ہو کر رہ گیا حسرت نے جمال یار کی ایک سحر انگیز کیفیت کو نہایت موثر انداز میں پیش کیاہے۔

شعر نمبر 5

شعر حسرت ہم نے یہ مانا کہ نازک ہے بہت
اس سے بھی کچھ بڑھ کے نازک ہے مگر خوشبوئے دوست

حسرت نے اپنی غزل کے اس مقطع میں نہایت خوبصورتی سے اپنی شاعری کی خصوصیت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری غزلوں میں محبوب کے حسن و جمال ناز و ادا اور عشوہ و غمزہ کا ذکر ہوتا ہے اور ان وجوہات کی بنا پر میرا ہر شعر نازک سا محسوس ہوتا ہے۔ نیز دوسری شاعرانہ خصوصیات اپنانے کی وجہ سے بھی اس میں نزاکت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ دوست کے جسم و جاں کی خوشبو اور حسین پیراہن کی او باس میرے شعر کی نزاکت سے کہیں زیادہ نازک ہے۔ حسرت نے نہایت فنکارانہ انداز میں خوشبوئے دوست کی نزاکت و لطافت کو آشکار کیا ہے۔ اس انداز میں شان تغزل پوری طرح جلوہ گر ہو رہی ہے۔

2 غزل نمبر 3

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دہ کا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

. اللہ رے جسم یار کی خوبی کہ خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

دیکھو تو جسم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام

اچھا ہے اہل جور کئے جائیں سختیاں
پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام

شیرینی نسیم ہے ، سوزو گداز میر
حسرت ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام

تشریح

شعر نمبر 1

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام
دیر کا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام

جمال یار = محبوب کا حسن
دہکا ہوا =روشن
آتش گل = اس سے مراد پھولوں کا رنگ ہے۔ موسم بہار میں سرخ پھول چمن میں یوں لگتے ہیں جیسے ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کے حسن ورعنائی کی وجہ سے پوری کی پوری انجمن بقعہ نور بنی ہوئی ہے ہر شے منور و تاباں ہے اور ہر فرد نور میں نہایا ہوا ہے۔ فضا رنگین ہے اور ماحول درخشاں ہے یہ وہ نور اور روشنی ہے جس کو دیکھ کر موسم بہار کا وہ خوبصورت اور دل آویز منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے جب پھولوں کے سرخ رنگ سے ہر طرف آگ سی لگی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں شاعر نے جمال یار کو آتش گل سے تشبیہ دی ہے جو حسن و لطافت کی آئینہ دار ہے۔

شعر نمبر 2
اللہ رےجسم یارکی خوبی خود بخود
رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام

پیر ہن = لباس

شاعر کہتا ہے کہ جسم محبوب کے حسن اور رنگینی کا یہ عالم ہے کہ اس کا لباس بھی رنگینیوں میں ڈوب گیا ہے۔ وہ بادی النظر میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ رنگینی لباس کی اپنی نہیں ہے بلکہ محبوب کے جسم کی ہے
۔حسرت موہانی کا یہ شعر اردو غزل کے پورے مجموعے میں ایک امتیازی درجہ رکھتا ہے۔ رنگ کا یہ احساس مصحفی اور حسرت کے علاوہ شاید ہی کسی اور شاعر کے ہاں نظر آئے۔

شعر نمبر 3

دیکھو تو جسم یار کی جادو نگاہیاں
بے ہوش اک نظر میں ہوئی انجمن تمام

شاعر کہتا ہے کہ جسم محبوب کی نگاہوں میں کچھ ایسا جادو ہے کہ اس کی ایک ہی نظر نے عشاق کے مجمع کو بے ہوش کر دیا ہے۔ جس شخص کو بھی اس کی مخمور نگاہوں نے دیکھا وہ بے حال ہو گیا ہے۔ ہر ایک کا صبر و قرار جاتا رہا ہے۔
واضح رہے کہ جسم کی جادو نگاہی حسرت موہانی کی اپنی ترکیب ہے اور اسے انہوں نے بڑی خوبی سے نبھایا ہے کیونکہ نگاہ کا حوالہ دیئے بغیر بے ہوشی کا تذکرہ غیر مناسب ہوتا۔

شعر نمبر 4

اچھا ہے اہل جور کئے جائیں سختیاں
پھیلے گی یوں ہی شورش حب وطن تمام

اہل جور = ظلم و ستم کرنے والے۔ اشارہ ہے بر طانوی حکومت کی طرف
شورش = ہنگامہ

یہ ایک سیاسی شعر ہے۔ مولانا حسرت موہانی جنگ آزادی کے بڑے جلیل القدر مجاہد تھے۔ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل خانوں میں کٹا۔ لیکن ان سختیوں سے مولانا کی ہمت پست نہیں ہوئی۔ ان کا حوصلہ
بلند تر ہوتا چلا گیا۔

اس شعر میں حسرت کہتے ہیں کہ برطانوی حکومت جتنا بھی ظلم و ستم کرے اور جس قدر بھی جو رو جفا سے پیش آئے یہ آزادی وطن کے لئے اتناہی بہتر ہے کیونکہ وطن کی محبت اور آزادی کی تحریک اسی طرح پھیلے گی اور عوام میں مقبول عام ہو گی۔
شعر نمبر 5
شیرینی نسیم ہے، سوزو گداز میر
حسرت ترے سخن پہ ہے لطف سخن تمام

شیرینی = مٹھاس
لطف سخن = شاعری کا مزا
سوزو گداز = درد مندی

زیر نظر غزل کے اس مقطع میں حسرت نے اپنی شاعری پر تبصرہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ وہ ایک وسیع النظر نقاد بھی تھے۔ ان کی شاعری میں ہمیں اساتذہ کا رنگ ایک نئے انداز میں ملتا ہے۔ وہ اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ میری غزل میں نسیم دہلوی کی شیرینی پائی جاتی ہے۔ حسرت نسیم کا ذکر یوں لائے ہیں کہ وہ مولانا کے استاد تسلیم کے استاد تھے۔ پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ میرے کلام میں میر کی درد مندی بھی ہے۔ بادی النظر میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شاعری کا لطف میری غزل میں مکمل ہو گیا ہے اس لیے کہ اس میں شیرینی بھی ہے اور سوز و گداز بھی اور میں دو عناصر اعلیٰ غزل کی پہچان ہیں۔

2.4 غزل نمبر 4

نگاہ ناز جے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خولی قسمت پر کیوں نہ ناز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

ترے کا سزا وار تو نہیں حسرت

اب آگے تیری خوشی ہے جو سر فراز کرے
تشریح

شعر نمبر 1

نگاه ناز جے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پر کیوں نہ ناز کرے

نگاہ ناز = محبوبانہ نظر ۔ نازوادا کی نظر
آشنائے راز کرنا ۔= محبت کے رازوں سے باخبر کرنا

شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی نگاہ جسے محبت کے رازوں سے باخبر کر دے اور اپنی دلی کیفیت و حالت سے اسے آشنا کر دے اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی قسمت کی خوبی اور یاوری پر جتنا چاہے ناز کرے۔ حقیقت
تو یہ ہے کہ نگاہ محبوب کا التفات عاشق صادق کے لئے معراج ہے۔ واضح رہے کہ مولانا حسرت موہانی اپنی اس غزل کو "عارفانہ نگ سخن” کی نمائندہ قرا دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزل کا لہجہ ایسا ہے جس میں مجازی عشق کی سر پرستی بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حسنِ ازل کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔

شعر نمبر 2

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

خرد = عقل مند
جنوں = دیوانگی۔ پاگل پن
حسن کرشمہ ساز = عشوه گری کرنے والا حسن

شاعر کہتا ہے کہ عشق و محبت میں انداز زیست اور سوچنے سمجھنے کے طریقے تک بدل جاتے ہیں۔ دنیا والے جن باتوں کو عقل مندی قرار دیتے ہیں، وہ عاشق صادق کے نزدیک دیوانگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہو تیں۔ بایں ہمہ اہل دنیا جن چیزوں کو جنون یادیوانگی قرار دیتے ہیں، یعنی عشاق کی بے تابی ،آہ وزاری،
گر یہ کناں رہنے کی عادت، رات بھر اختر شماری کا وطیرہ ،فراق محبوب میں گریباں پھاڑنے کی حرکت۔۔ یہ ساری خصوصیات اہل عشق و محبت کے نزدیک عقل کی علامتیں ہیں۔
حسرت موہانی گویا یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ محبوب کے حسن و جمال کا یہ کرشمہ ہی تو ہے کہ دنیا والوں کا نقطہ نظر تک بدل دیا گیا ہے۔ یعنی جنوں کو خرد اور خرد کو جنوں کہا جانے لگا ہے۔
شعر نمبر 3

غم جہاں سے جے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے
فراغ = آرام فرصت
ساز باز =سازش

یہاں سب سے پہلے یہ حقیقت واضح کر دی جائے کہ عاشق اپنے عشق کی کیفیتوں میں زندگی کے ہر دکھ درد ہر فکر و غم اور ہر الجھن کو بھول جاتا ہے۔ گویا محبوب کا عشق عشاق کے دلوں کو دونوں جہاں کے فکر و غم سے بالکل بے نیاز کر دیتا ہے۔ میں زیر نظر شعر کا بھی بنیادی خیال ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ جو شخص دنیا کی الجھنوں اور بھیڑوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہو اس کے لئے یہی صورت ہے کہ وہ غم محبوب کو اپنالے اور اس کے درد عشق کو دل میں جگہ دے دے۔ یہاں یہ بات بھی واضح کر دی جائے تو بہتر ہے کہ لفظ "ساز باز “ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ کسی کے خلاف سازش اور گٹھ جوڑ کرنا تہذیب و اخلاق کے منافی ہے لیکن حسرت موہانی نے اسی لفظ کو زیر نظر شعر میں بہت بلند کر دیا ہے۔

شعر نمبر 4
امید وار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

گروہ= مجمع،جماعت

دل نواز =سے دل کو تسلی دینے والا۔ مہربانی اور عنایت کرنے والا۔
شاعر کہتا ہے کہ عاشقوں کے گروہ ہر طرف کتنی ہی امیدوں اور آرزؤں کو اپنے دلوں میں بسائےکھڑے ہیں۔ وہ سب محبوب کے التفات کے منتظر اور اس کی عنایات کے جو یا ہیں۔ خدا سے میں دعا ہے کہ وہ تیری نگاہوں کو التفات اور دل نوازی کے آداب سکھا دے تاکہ تو اپنے عاشقوں کے ساتھ مہر و محبت سےپیش آئے۔
حسرت موہانی نے اس شعر میں عشق کا انتہائی بلند تصور پیش کیا ہے۔ نہ اس میں رقابت کا روایتی تصور ہے۔ نہ محبوب کے ستمگرانہ رویے کا اعادہ کیا گیا ہے جس میں دعا کی گئی ہے کہ جملہ عشاق کے ساتھ وہ محبت آمیز سلوک کرے۔شعر نمبر 5

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرت
اب آگے تری خوشی ہے جو سرفراز کرے

سزاوار ہونا = لائق ہونا ،
سر فراز کرے = عزت و توقیر دے ۔ مرتبہ بلند کرے
شاعر اس شعر میں خدا سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اگر چہ میں تیری عنایتوں اور کرم فرمائیوں کے لائق نہیں ہوں لیکن اب یہ بات تیری مرضی اور منشا پر منحصر ہے کہ میرا مر تبہ بلند اور درجات میں اضافہ کر دے۔ اگر ہم مجازی معنی لیں تو مطلب یہ ہوگا کہ اے محبوب! اگرچہ میں تیرے التفات و عنایت کے قابل نہیں لیکن اگر تو مجھے
سر فراز اور بامراد کر دے تو یہ تیری عنایت اور مہربانی ہے۔ حسرت کی غزل کا یہ مقطع ان کے عارفانہ رنگ سخن کا مظہر ہے اور اس میں سلوک و معرفت کا موضوع بہت واضح ہے۔

2.5 غزل نمبر 5
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

جو چاہے سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو
پرہم سےقسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی

دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر
اے ساقی جان پرور،کچھ لطف و عنایت بھی

اے شوق کی بے باکی وہ کیا تری خواہش تھی
جس پر انہیں غصہ ہے ،انکار بھی حیرت بھی

ہر چند ہے دل شیدا حریت کامل کا
منظور دعا لیکن ہے قید محبت بھی

تشریح

شعر نمبر 1

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

مشق سخن = شعر گوئی کی مشق
طرفہ = انوکھا۔ عجیب
حسرت موہانی آزادی کے نڈر اور جاں باز مجاہد تھے۔ ان کی ساری زندگی اسی مطلع کی تفسیر تھی۔ اور اس مطلع کے نزول کے پس منظر سے واقفیت ضروری ہے۔ مولانا نے 1908ء میں اپنے جریدے” اردوئے معلی “ میں انگریزوں کی سیاست کے خلاف ایک مضمون شائع کر دیا۔ اس کی پاداش میں انہیں تین سال کی قید با مشقت کی سزا ہوئی اور انھیں علیگڑھ ڈسٹرکٹ جیل میں رکھا گیا۔ ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جا تا چکی چلوا کر منوں آٹا پسوایا جاتا۔ اسی زمانے میں یہ غزل جیل کی چار دیواری میں لکھی تھی۔ حسرت کہتے ہیں کہ میری طبیعت بھی کچھ عجیب اور انوکھی واقع ہوتی ہے۔ کہاں جیل کی سنگلاخ اور اونچی دیوار یں، کہاں یخ بستہ فرش، کہاں برطانوی حکمرانوں کا بہیمانہ سلوک ،کہاں چکی پیسنے کی مشقت۔۔۔۔۔ اور کہاں چکی پیسنے کی مشقت۔۔۔ اور کہاں یہ مشق سخن ! گویا ان تمام مصائب و الام اور مشقت و صعوبت کے باوجود میں نے اپنی شعر گوئی کے جذبے کو بر قرار رکھا اور اسے زنگ آلود نہ ہونے دیا۔

شعر نمبر 2

جو چاہے سزادے لو ، تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی

کھل کھیلنا =شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر آزادانہ کوئی کام کرنا۔ پوری طرح آزاد ہو جانا۔ یہاں بے رحمانہ سلوک کر نامراد ہے۔

شاعر انگریز حکمرانوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تمہارا جو جی چاہے اور جس طرح چاہے مجھے سزا دو۔ تم ایسا کرنے میں آزاد ہو۔ تم سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ اور میں بھی کسی خاص مقصد کے تحت تمہارا اسیر ہوا ہوں۔ میں شکوہ شکایت کر کے اپنے مقصد اولی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ۔
یہ سراسر سیاسی شعر ہے ، مگر مجازی معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ اسے محبوب ! تم جو چاہو سزا دو، جس طرح چا ہو، ظلم و جور کرو مگر میں اف تک نہ کروں گا۔ میری زبان پر کبھی کلمئہ شکایت نہیں آئے گا۔ تم اس سلسلے میں مجھ سے قسم بھی اٹھوا سکتے ہو۔

شعر نمبر 3

دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر
اے ساقی جان پرور کچھ لطف و عنایت بھی

انکار کرم = مہربانی کے ساتھ پیش نہ آنا۔ رحم کرنے سے انکار کرنا
یکسر = سراسر – بالکل
جاں پرور = زندگی مٹنے والے۔ روح پرور۔
شاعر ساقی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ رند تشنہ لب ہیں۔ وہ جام کے طلبگار ہیں۔ تو نے انہیں اپنے لطف و کرم سے محروم رکھ کر انصاف نہیں کیا ہے۔ تو نے مہربانی نہ کرنے کا جو ارادہ کیا ہے ‘ وہ ان کیلئے سوہان روح ہے۔ اے ساقی ! تو زندگی بخشنے والا ہے تو روح پرور ہے رندوں پر تیرا انکار کرم نہایت گراں ثابت ہو رہا ہے۔ لہذا اپنی فطرت جاں پروری کے طفیل ان تشنہ لب رندوں کو بھی کچھ عنایت سے کر دے۔ وہ
بالکل ہی تشنہ کام تو نہ رہیں۔ ان کی کچھ تو تسلی تشفی ہو جائے۔

شعر نمبر 4

اے شوق کی بے با کی وہ کیا تری خواہش تھی
جس پر انہیں غصہ ہے ، انکار بھی حیرت بھی

بے باکی = شوخی – شرارت۔ بے خوفی ۔ بے حیائی

شاعر کہتا ہے کہ جذبہ محبت میں میرا شوق اور والہانہ پن بالکل بے باک ہو گیا اور محبوب سے کچھ ایسی خواہش کر بیٹھا جس پر اسے نہ صرف غصہ آیا’ بلکہ اس نے یہ تمنا پوری کرنے سے بھی انکار کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اسے حیرت بھی ہوئی کہ عاشق نے یہ سفلہ پنی اور بے حیائی کا رویہ کیوں اختیار کیا۔ بادی النظر میں حسرت یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ محبت ایک پاک اور معصوم جذبہ ہے۔ اس میں جنسی جذبات کی آمیزش معیوب بھی ہے اور غیر پسندیدہ بھی۔
شعر نمبر 5

هر چند دل شیدا حریت کامل کا منظور دعا لیکن ہے قید محبت بھی

یہ ایک سیاسی شعر ہے اور اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ طلبا کو اس سے واقف ہونا ضروری ہے۔ دسمبر 1921ء میں احمد آباد میں کانگریس کا تاریخی جلسہ تھا جس میں تحریک خلافت کے لیڈر بھی شریک تھے۔ وہاں مولانا حسرت موہانی نے آزادی کامل کی تحریک پیش کر دی۔ تاہم گاندھی کی کوششوں سے یہ تجویز نامنظور کر دی گئی۔ اس سال کانگریس کے اجلاس کے ساتھ احمد آباد ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا بھی سالانہ اجلاس مولانا حسرت موہانی کی زیر صدارت ہوا۔ اپنے صدارتی خطبے میں انہوں نے وہی خیالات پیش کئے جو کانگریس کے جلسے میں پیش کر چکے تھے۔ یعنی آزادی کامل! یہ خطبہ صدارت ضبط ہوا اور مولانا کو دو سال کے لئے سزائے قید ملی۔ اس شعر میں حریت کامل کا اعلان اور سزائے قید دونوں کو غزل کے پیرائے میں واضح کیا گیا ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں