حلقہ ارباب ذوق مشرقی و مغربی تنقیدی رجحانات اور ارتقاء (۷۰ کی دہائی تک)
حلقہ ارباب ذوق کے بانی مولانا صلاح الدین احمد تھے۔ اردو کے پرانے شعراء نے عربی اور فارسی شعر و نقد سے اکتساب فیض کیا۔ اس روایت کو اردو شاعری اور تنقید میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ فارسی اور عربی کی تنقیدی روایت کے اثرات اردو تنقید پر موجود رہے ہیں۔
موضوعات کی فہرست
اردو تنقید میں جہاں مغربی اثرات و نظریات شامل ہوتے چلے گئے وہاں اردو تنقید اپنی لسانی خصوصیات اور عربی و فارسی کے پس منظر کی وجہ سے اس مشرقی رویے سے جڑی نظر آتی ہے۔
اس طرح ایک دور میں حلقہ ارباب ذوق میں تنقید و فکر کے دو رخ شامل ہو گئے تھے۔ ان میں مغربی رخ کے بانی میراجی اور مشرقی فکر مولانا صلاح الدین احمد کی وجہ سے آئی۔ مولانا کی تنقید کے انداز مشرقی تھے۔
جس کی وجہ سے انھوں نے لفظ اور خیال کے حسن کو مد نظر رکھا۔ مولانا ادب کو مقصود بالذات قرار دیتے اور اسے کسی مادی یا نظریاتی مقصد کے حصول کی شعوری کوشش کے حق میں نہ تھے۔
مزید وہ حلقے کے پلیٹ فارم سے تجزیاتی محاکے پر زور دیتے تھے۔ اس طرح بالواسطہ حلقے پر مولانا کے تنقیدی نظریات کے اثرات موجود ہیں ۔ حلقے پر اسلامی عجمی روایت کے اثرات بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں جیلانی کامران کا نام لیا جاسکتا ہے۔
اسلامی عجمی روایت کے اثرات بھی واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں جیلانی کامران کا نام لیا جاسکتا ہے۔
محمد حسن عسکری اور حلقے کی فکری مضبوطی
اس کے بعد حلقے میں ایک اور فعال آواز محمد حسن عسکری کی ہے۔ محمد حسن عسکری ایک ایسی مؤثر شخصیت ہیں کہ نظریاتی مباحث کو جذباتی شگفتگی سے ابھارا اور بہت سے سوالات چھوڑے۔
کہا جاتا ہے کہ آزادی کے فوراً بعد اردو ادب میں جو مباحث چلیں، وہ عسکری کے مضامین سے چلیں۔
ان مباحث کی وجہ سے حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کو تقویت ملی اور کچھ نئے نقاد سامنے آئے۔ یہ نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی، ممتاز شیریں، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی وغیرہ تھے۔ اس طرح میرا جی کے بعد حلقہ فکری طور پر بہت اہمیت اختیار کر گیا۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں حلقے کی تنقید
حلقہ ارباب ذوق پر بھی سیاسی حالات کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر ساٹھ کی دہائی میں دھرتی سے وابستگی کے نظریات بھی سامنے آنے لگے۔ اس سلسلے میں وزیر آغا کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔
جنھوں نے حلقے کی روایت کی پاسداری بھی کی اور امتزاجی تنقید کا نیا نظریہ پیش کیا۔ حلقے کے بعض اہم نقاد جن کا ذکر ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے۔
ان میں ڈاکٹر وحید قریشی، انیس ناگی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، سراج منیر، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر سلیم اختر، انتظار حسین، سعادت سعید، ڈاکٹر سہیل احمد خان اور ڈاکٹر رشید امجد شامل ہیں۔
جنھوں نے حلقے کی تنقید کی نہ صرف پاسداری کی بلکہ ساتھ ساتھ اس میں تازہ نظریات و جہات کو بھی شامل کیا۔ موجودہ دور میں بھی کچھ نئے نقاد حلقے کی تنقید میں اہم کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ان میں ڈاکٹر ضیاءالحسن اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ حلقہ ارباب ذوق ادیبوں کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم رہا ہے جس میں بے شمار ادیب اور نقاد شامل رہے ہیں لہذا ان تمام نقادوں کے کام کا تفصیلاً جائزہ نا ممکن تھا اس لیے کچھ نمائندہ اور رجحان ساز نقادوں کا ذکر اس مقالے میں کیا گیا ہے۔
ترقی پسند تحریک کا ردعمل اور حلقے کا امتیازی انداز
نظریاتی طور پر دیکھا جائے تو حلقہ ارباب ذوق ترقی پسند تحریک کا رد عمل ہے۔ جس میں موضوع کو اہمیت دینے کے بجائے فن کو مقدم رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شروع میں یہ دونوں تحریکیں متصادم نظر آتی ہیں۔ ترقی پسند ایسا ادب چاہتے تھے جو کہ مقصد رکھتا ہو جب کہ حلقہ ارباب ذوق والے مقصدیت کے بجائے ادب برائے ادب کے قائل نظر آتے ہیں۔
ترقی پسند اپنی مقصدیت کی وجہ سے سیاسی پابندیوں کا شکار ہوئے جبکہ حلقے کے لوگ علامتی ادب تخلیق کرتے رہے۔ استعاراتی اور علامتی طریقہ کار کی وجہ سے اور مقصدیت کے بجائے فنی و جمالیاتی خوبیوں کی وجہ سے حلقہ ارباب ذوق کسی عتاب میں نہیں آیا اپنی مجالس منعقد کرتا رہا اور ادب تخلیق کرتا رہا۔
شروع سے لے کر ساٹھ کی دہائی تک ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں نفسیاتی نقطہ نظر اپناتے ہوئے تو کہیں فن پارے کے جمالیاتی پہلوؤں کو سنوارتے ہوئے حلقہ مسلسل تخلیقات سامنے لاتا رہا ۔
یہی وجہ ہے کہ حلقے میں موضوعاتی تنقید کے بجائے فنی و جمالیاتی کی اہمیت کا احساس نظر آتا ہے ۔ کہیں نفسیاتی نقطہ نظر سے فن پاروں کی جانچ کی جاتی ہے تو کہیں مشرقی تنقیدی رویہ جس میں رکھ رکھاؤ کا پہلو غالب نظر آتا ہے اور لفظ اور خیال کے حسن کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔
اہم بات یہ کہ روایت کی پیروی کے ساتھ ساتھ جدیدیت کے رجحانات کو بھی شامل کیا جاتا رہا۔
مشرقی تنقیدی رویہ اور حلقے کی منفرد شناخت
مشرقی تنقیدی رویہ میں تحسین کا عصر زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ حلقہ ارباب ذوق میں اسلامی عجمی روایت کی پاسداری بھی کی گئی جس میں علامتی تناظر اور روحانی اقدار کو اہمیت ملی۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مشرقی تنقید میں فن پارے کو سمجھا اور جانا جاتا ہے۔ اس کی خامیاں نہیں گنوائی جاتیں۔
حلقہ ارباب ذوق کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تقسیم کے بعد کی مختلف ادبی مباحث حلقے کے پلیٹ فارم سے شروع ہوئیں اس سلسلے میں محمد حسن عسکری کے مختلف مضامین کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔
حلقے کے کچھ نقاد فرانسیسی تحریکوں اور فرانسیسی ادب سے متاثر تھے۔ ڈاڈا ازم اور سورئیلزم جیسی تحریکوں کے بارے میں حلقے کے نقاد نرم گوشہ رکھتے تھے۔
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاه
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 298-297
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مسکان محمد زمان