مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

حلقہ ارباب ذوق کے تنقیدی رویے ایک مجموعی جائزہ

حلقہ ارباب ذوق کے تنقیدی رویے ایک مجموعی جائزہ (۱۹۳۹ء سے ۷۰ کی دہائی تک)

حلقہ ارباب ذوق کا قیام ۱۹۳۹ء میں ہوا جس میں شروع میں افسانے اور شاعری پیش کی جاتی تھی۔ اور اس پر وہاں موجود سامعین بے لاگ تبصرہ یا تنقید کرتے تھے۔

یہ ڈگر ادبی حلقوں کو ایسی پسند آئی کہ مختلف ادیب اس کی طرف کھینچے چلے آئے خاص طور پر ایسے ادیب، دانشور اور نقاد جو کہ کسی خاص نظریاتی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ خالص ادیب اور نقاد اس پلیٹ فارم سے منسلک ہوتے چلے گئے۔ اسی طریقہ کار سے تنقید کا ایک اور رخ سامنے آیا جسے مجلسی تنقید کہا جانے لگا۔

اس ادبی حلقے میں نئے ادبیوں کو آنے کی اجازت تھی جو کہ ہفتہ وار مجلسوں میں شریک ہو کر معتبر اور مانے ہوئے ادیبوں اور نقادوں سے بالمشافہ سکھتے تھے۔

شروع میں کوئی خاص طریقہ کار بھی وضع نہ تھا بس کسی نقاد نے جو فن پارہ پیش کیا اس پر واہ واہ اور شاباش وغیرہ جیسے الفاظ سے داد دی جاتی ۔ مگر بعد میں حلقے کی خوش قسمتی سمجھیے کہ اس میں میرا جی جیسے نابغہ روزگار ادیب اور نقاد شامل ہوئے۔

میرا جی اور حلقہ ارباب ذوق میں تنقید کا فروغ

میرا جی کی شمولیت سے حلقہ ارباب ذوق کا اصل رخ سامنے آیا۔ میرا جی کی تجویز پر ہی یہ فیصلہ ہوا کہ فن پاروں پر بے لاگ تنقید کی جائے جس سے نئے اور پرانے ادبیوں کو اپنے فن کو نکھارنے اور سنوارنے کا ایک پلیٹ فارم مل گیا۔ اس طرح کی تنقید کی مثال اردو ادب میں پہلے موجود نہ تھی۔

فن پارے کو موضوع کا پابند بھی نہ سمجھا جاتا تھا بلکہ کسی بھی موضوع پر فن پارہ پیش کیا جا سکتا تھا۔ شرط صرف یہ تھی کہ اس میں فنی و جمالیاتی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے ۔ ادب کو کسی سیاسی جماعت کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور نہ ہی کسی خاص نظریاتی پہلو سے ادب کو پیش کیا جائے ۔ ادب کا مقصد صرف اور صرف ادب ہو جس میں موضوع کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ اس سلسلے میں میرا جی اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنہوں نے فن پاروں کی جانچ پرکھ کے لیے مثالیں قائم کیں ۔ اس طرح جو تنقیدی اصول بنتے نظر آتے ہیں ان کے مطابق سیدھی سادھی زبان پر زور دیا جاتا تھا۔

فارسیت کو نا پسند کیا جانے لگا جس کی وجہ یہ تھی کہ نئے ادیب بوجھل فارسی تراکیب کو استعمال کرنا نہیں جانتے تھے۔ میرا جی کا نقطہ نظر تھا کہ تحریر میں خوب صورتی تحریر کے اندر سادگی سے پیدا کی جائے۔ زیادہ مسجع و مقفع عبارت سے اجتناب برتا جانے لگا۔

نفسیاتی تنقید کی بنیاد اور میرا جی کا کردار

اس کے ساتھ ہی نفسیاتی نقطہ نظر اپنانے پر زور دیا جانے لگا۔ نفسیاتی تنقید دراصل اردو میں ایک نیا تجربہ تھا مگر میرا جی نے اس کی عملی مثالیں پیش کر کے اردو تنقید میں ایک نیا رجحان پیدا کر دیا۔ انھوں نے نفسیاتی تنقید میں تخلیق کو فن کار کی زندگی اور اس کی شخصیت کے اندر چھپے رازوں اور واقعات سے اخذ کیا۔

اس طرح تخلیق کو فنکار کی زندگی اور حالات کو مد نظر رکھ کر دیکھا جانے لگا۔ اس سلسلے میں میرا جی کی کتاب ”مشرق و مغرب کے نئے“ کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس میں انھوں نے چند ایسے شاعروں اور ادیبوں کے فن کو تنقیدی نظر سے دیکھا ہے جو کہ اپنی عملی زندگی میں کچھ زیادہ کامیاب نظر نہیں آتے ۔ میرا جی نے اپنے تجزیاتی مطالعوں اور کچھ اور تنقیدی تحریروں سے اردو میں ایک نئے تنقیدی دبستان کی بنیاد رکھی ۔ انھوں نے حلقہ ارباب ذوق کو ایک دبستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میرا جی نے نہ صرف نفسیاتی تنقیدی اصولوں سے کام لیا بلکہ ہیئت، تکنیک اور مواد کی اہمیت کو بھی مد نظر رکھا۔ یوں وہ کسی خاص ضابطے کے پابند نظر نہیں آتے ۔

انھوں نے تنقیدی جانچ پرکھ کے لیے جذب و وجدان کی بجائے عقل و شعور کا انتخاب کیا۔ ادب کی تفسیر، تفہیم اور تنقید میں خالص عقلی اور شعوری شواہد سے کام لیا اور کہیں بھی محض واہ واہ کا سہارا نہیں لیا۔ ان کے خیال میں تنقید کے لیے بے رحمانہ تجزیاتی مطالعہ از بس ضروری ہے۔

ان کے ہاں تنقید میں کسی مروت یا تعلق کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ وہ فن میں حسن اور جمالیاتی اقدار کے بھر پور حامی ہیں۔ شروع کے اس دور میں کچھ اور نقاد بھی نفسیاتی نقطہ نظر اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ریاض احمد اور نفسیاتی تنقید میں انفرادیت

جن میں خاص طور پر ریاض احمد کا نام لیا جا سکتا ہے۔ نفسیات ریاض احمد کی تنقید میں امتیازی حیثیت کی حامل ہے ۔ انھوں نے متخیلہ، ہیئت، اسلوب، ذوق جمال جیسے مسائل کی طرف توجہ دی اور حلقے کا نقطہ نظر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس طرح حلقہ ارباب ذوق سے جمالیاتی تاثر اور جذباتی اسلوب کو پیش کرنے کی روایت بھی پڑی۔ نفسیاتی تنقید میں ریاض احمد فرائیڈ کے نظریات سے متاثر ہیں۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں