مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

حلقہ ارباب ذوق کا قیام اور ابتدائی جلسے

حلقہ ارباب ذوق کا قیام اور ابتدائی جلسے

پہلا جلسہ اور تنقیدی بحث

جناب نسیم حجازی نے ایک طبع زاد افسانہ "خلافی” پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد کافی دیر تک دلچسپ بحث اور تنقید کا سلسلہ جاری رہا۔ جس میں تقریباً سب حضرات نے حصہ لیا۔ محترم افسانہ نگار نے چند اعتراضات کے جواب بھی دیئے۔ فیصلہ ہوا کہ آئندہ جلسہ ۴ مئی کو ہوگا اور جناب محمد فاضل صاحب افسانہ پڑھیں گے۔ سید نصیر احمد جامعی، (۲) عبد الغنی ۱۴ مئی ۱۹۳۹ء۔

اس پہلے جلسے کی کارروائی میں ہمیں افسانے پر کی گئی بحث اور تنقید کا پتہ نہیں چلتا بہرحال اتنا اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ اس میں کسی خاص نقطہ نظر یا منشور کے بغیر تنقید کی گئی ہوگی کیونکہ یہ صرف مل بیٹھنے کا ایک بہانہ تھا اس میں ترقی پسندی کا منشور مد نظر نہیں ہوگا اور نہ ہی رومانوی انداز نقد اپنایا گیا ہوگا۔ یہی سادگی اور بعد میں فنی و جمالیاتی نقطہ نظر اس بزم کا امتیازی وصف ٹھہرا۔ جس میں کسی اور تحریک کا اثر قبول کیا گیا اور نہ ہی کسی تحریک کا منشور اپنایا گیا اس میں شامل ہونے والے ادبیوں کا نقطہ نظر ہی اس کا منشور بنتا چلا گیا۔ ابتدا میں ہونے والی بحثوں اور تنقید میں آہستہ آہستہ نکھار آتا چلا گیا اور فنی و جمالیاتی پہلوؤں سے فن پارے کو جانچنے کا رواج ہوا۔ حلقہ ارباب ذوق نے باقاعدہ ایک طریق کار وضع کیا جس کے تحت یہ ایک تنظیم کی شکل میں ڈھل گیا۔ اس طریق کار سے حلقے کے مزاج سے آشنائی ہوتی ہے حلقے کے داخلی مزاج کی جھلک ایک اقتباس سے واضح ہوتی ہے جس کا ڈاکٹر محمد باقر کے انٹرویو سے پتہ چلتا ہے۔ اقتباس درج ذیل ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کے قواعد و ضوابط

حلقے کی انتظامی ہیئت

اول: حلقہ ارباب ذوق کا کوئی مستقل صدر نہیں ہوگا۔ (۳۵)
دوم: حلقہ ارباب ذوق کا صرف ایک مستقل سیکرٹری ہوگا۔
سوم: رکن بننے کے لیے کوئی چندہ یا فیس نہیں لی جائے گی
چہارم: ہر سال کے لیے سیکرٹری چنا جائے گا۔
پنجم: حلقے کی رکنیت محدود رکھی جائے گی اور حلقے کے ارکان کو اختیار ہو گا کہ جس کو چاہیں حلقے کا رکن بنائیں لیکن حلقے کے اجلاس ہر اس مرد اور عورت کے لیے کھلے ہوں گے جس کو اجلاس میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے گی۔
ششم: حلقے کا جلسہ ہر ہفتے ایک رکن کے مکان پر ہوگا جس کے ذمے چائے پلانا ہوگا۔
ہفتم: حلقے کی ہر نشست میں کچھ مضامین اور نظمیں پڑھی جائیں گی جن کو سننے کے بعد ان پر بے لاگ تنقید کی جائے گی اور مضمون نگار یا شاعر کا فرض ہوگا کہ وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش دلی سے ناقدین یا معترضین کی تنقید و اعتراض کو سنے اور اس کا جواب دے۔
ہشتم: حلقہ کی کارروائی کو حتی الوسع مشتہر کیا جائے گا۔ (۳)

حلقہ ارباب ذوق کے مقاصد

نام کی تبدیلی اور اہداف کا تعین

بزم دوستان گویاں میں افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ شعرا کی تعداد بھی کافی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام بزم داستان گویاں سے حلقہ ارباب ذوق رکھ دیا گیا۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ صرف مل بیٹھنے کا بہانہ نہ رہا بلکہ اس کے واضح مقاصد بھی متعین ہونے لگے۔ اس کے مقاصد درج ذیل طے پائے۔
۱۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت
۲۔ نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح
۳۔ اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت
۴۔ تنقید ادب میں خلوص اور بے تکلفی پیدا کرنا۔
۵۔ اردو ادب میں صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا۔

ترقی پسند تحریک اور اس کا منشور

ادبی منظرنامہ: ترقی پسند تحریک کا آغاز

مقاصد کا چوتھا نقطہ تنقید کے متعلق ہے اور یہی ہمارا موضوع بھی ہے یہاں اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ تنقید میں خلوص اور بے تکلفی سے کیا مراد ہے؟ کیا اس میں ترقی پسند تحریک کی تنقید میں ہی خلوص اور بے تکلفی کو شامل کرنا تھا یا تنقیدی نظریات بھی مختلف تھے؟ اس بات کا جائزہ لینے سے پہلے اس وقت کے ادبی منظر نامے کا مختصر بیان ضروری ہے۔ سن ۱۹۳۵ء میں پیرس میں ایک ادبی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا کے بڑے بڑے ادیب شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر ادب کے تحفظ اور نئی ضرورتوں کے لیے منعقد ہوئی ۔ جس میں گورکی، اور تھامس مان جیسے شہرہ آفاق مصنفین کی سوچ اور فکر شامل تھی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان سے سجاد ظہیر اور ملک راج آنند شریک ہوئے۔ ان دونوں مصنفین نے لندن میں ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم کی اور ایک اعلان نامہ بھی جاری کیا۔ اس انجمن نے لکھنو میں اپریل ۱۹۳۶ء کو پہلی کانفرنس منعقد کی جس کی صدارت مشہور افسانہ نگار منشی پریم چند نے کی ۔ اس کانفرنس میں ترقی پسند مصنفین کا منشور پڑھ کر سنایا گیا جو کہ درج ذیل ہے۔

ترقی پسند مصنفین کا منشور

اس وقت ہندوستانی سماج میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جاں بلب رجعت پرستی جس کی موت لازمی اور یقینی ہے اپنی زندگی کی مدت بڑھانے کے لیے دیوانہ وار ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ پرانے تہذیبی ڈھانچوں کی شکست وریخت کے بعد سے اب تک ہمارا ادب ایک گونہ فراریت کا شکار رہا ہے اور زندگی کے حقائق سے گریز کر کے کھوکھلی رومانیت اور بے بنیاد تصور پرستی میں پناہ ڈھونڈتا رہا ہے۔ جس کے باعث اس کی رگوں میں نیا خون آنا بند ہو گیا ہے اور اب شدید ہیئت پرستی اور گمراہ کن منفی رجحانات کا شکار ہو گیا ہے۔ ہندوستانی ادیبوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھر پور اظہار کریں اور ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ترقی پسند تحریک کی حمایت کریں ان کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے انداز تنقید کو رواج دیں جس سے خاندان ، مذہب ، جنس ، جنگ اور سماج کے بارے میں رجعت پسندی اور ماضی پرستی کے خیالات کی روک تھام کی جاسکے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادبی رجحانات کو نشو و نما پانے سے روکیں جو فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی حمایت کرتے ہیں ۔ ہماری انجمن کا مقصد ادب اور آرٹ کو ان رجعت پرست طبقوں کے چنگل سے نجات دلانا ہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں ۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ہم اپنے آپ کو ہندوستانی تہذیب کی بہترین روایات کا وارث سمجھتے ہیں اور ان روایات کو اپناتے ہوئے ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی رجعت پسندی کے خلاف جدو جہد کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہترین زندگی کی راہ دکھائے ۔ اس کام میں ہم اپنے اور غیر ملکوں کے تہذیب و تمدن سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ۔ یہ بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں ، ہم ان تمام آثار کی مخالفت کریں گے ۔ جو ہمیں (۳۸) لاچاری ، سستی اور تو ہم پرستی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری قوت تنقید کو ابھارتی ہیں اور رسموں اور اداروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں تغیر اور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ (۵)

منشی پریم چند کی صدارتی رائے

حلقہ ارباب ذوق کے قیام کے صرف تین سال پہلے نہ صرف پاکستانی ادب میں بلکہ عالمی سطح پر ادب میں یہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے تمام سابقہ ادبی نظریات کو نظر انداز کرتے ہوئے انسان کے بنیادی مسائل بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی کو ادب کا موضوع بنایا ۔ بنیادی طور پر یہ لوگ کارل مارکس کے نظریات سے متاثر تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے ظالم شکنجوں سے جکڑے ہوئے بے بس انسانوں کی آواز بن کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہتے تھے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا اصناف ادب کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا درست تھا یا یہ کہ اگر ایسا کیا جائے تو ادب، ادب رہے گا یا یہ کوئی اور شکل اختیار کر جائے گا؟ منشی پریم چند جو اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے نے اس کے حق میں صدارتی الفاظ کے کہے:

جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، رومانی اور ذہنی تسکین نہ ملے ، ہم میں قوت اور حرکت پیدا نہ ہو ہمارا جذبہ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے ، وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے ۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا ادب آرٹسٹ کے رومانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے۔ تخریب نہیں ، ادب ہماری زندگی کو فطری اور آزاد بناتا ہے، اس کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔ یہ اس کا مقصد اولی ہے۔ (۶)

ترقی پسند تحریک کے حامی ادیب و شعراء

عمل کی قوت پر زور اور مشکلات پر قابو پانے کا جذبہ اس تحریک کا مدعا ٹھہرا۔ اس تحریک کو بڑے بڑے ادبیوں نے سراہا اور اس کا ساتھ دینے کے لیے کمر بستہ ہو گئے ۔ ان میں ڈاکٹر عبد الحق ، حسرت موہانی ، جوش ملیح آبادی، پریم چند، ، قاضی عبدالغفار ، مجنوں گورکھ پوری ، ڈاکٹر عابد حسین ، نیاز فتح پوری ، ساغر صدیقی وغیرہ شامل ہیں ۔ نوجوان لکھنے والوں (۳۹) نے بھی اس تحریک کے منشور کو اہمیت دی ان میں عابد حسین ، منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر، اپندر ناتھ اشک ، جاں نثار اختر مجاز ، خواجہ احمد حسن ، اختر حسین رائے پوری، راجندرسنگھ بیدی، احتشام حسین، فیض احمد فیض ، اختر انصاری ، رشید جہاں، احمد علی، تاثیر وغیرہ شامل ہیں۔

"انگارے” اور معاشرتی رد عمل

رشید جہاں، احمد علی اور محمود الظفر نے انگارے کے نام سے افسانوں پر مشتمل ایک کتاب چھاپی ۔ یہ افسانے پہلے سے موجود ادبی سانچوں اور قدروں کے خلاف کھلی بغاوت تھی جس میں جنس کو موضوع بنایا گیا اس طرح دقیانوسی اور رجعت پسندی کے خلاف نہ صرف نئے ادبی رجحان کا آغاز ہوا ۔ بلکہ معاشرتی قدروں پر بھی ایک حملہ کیا گیا ۔ معاشرے نے ان کے اس قدم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے خلاف پابندی کا فیصلہ ہوا۔ اس تحریک کے مقاصد سے تو شاید کسی کو اختلاف نہ ہوتا مگر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا وہ معاشرتی قدروں کو ہلانے والا تھا، ادب سے سماجی اور معاشرتی بھلائی اور بہتری کا کام لیا جانا یا ادب کو معاشرے کا عکاس ہونا اور اس سے معاشی مسائل کے حل کی بات کرنا اس سے تو شاید کسی کو اتنا اختلاف نہ ہوتا جتنا انگارے کے مواد سے ہوا۔ سجاد ظہیر کا اپنا بیان ہے کہ انگارے کی بیشتر کہانیوں میں سنجیدگی اور ٹھہراؤ کم اور سماجی رجعت پرستی اور دقیانوسیت کے خلاف غصہ اور ہیجان زیادہ تھا۔ انگارے کے مصنفین چونکہ دلیل کا کام جذبات سے لینا چاہتے تھے اس لیے مشرق کے ثقہ مزاج نے انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ (۷)

ترقی پسندوں کا ادب اور مذہب کا تصور

ترقی پسند تحریک والے ادب کو زندگی کا ترجمان سمجھتے تھے۔ وہ ادب اور زندگی کے باہمی ربط کو ناگزیر خیال کرتے تھے ۔ ادب معاشی زندگی کا ایک شعبہ ہے۔ ان کے خیال میں ادیب جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے پرورش پاتا ہے وہی ماحول اس کے فن میں اجاگر ہوتا ہے اور ماحول اور فضا کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھنا مناسب نہیں اور نہ ہی ادب مسرت بہم پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ ان کے خیال میں ادب اور ادیب کا فریضہ سماجی ہے اور ادب کسی ایک شخص یعنی ادیب کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی اور معاشرتی آواز کے طور پر ابھرنا چاہیے۔

ترقی پسند تحریک نے ادب کو جہاں ایک نعرہ بنا دیا وہاں اس تحریک نے مذہب دشمنی میں بھی کسر اٹھا نہیں رکھی اس تحریک نے اشتراکیت کی تبلیغ کی اور مذہب کو بالکل نظر انداز کیا ترقی پسند تحریک کے ارکان ہمیشہ اس الزام کو رد کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ترقی پسند ہونے کے لیے دہر یا لا مذہب ہونا ضروری نہیں مگر یہ سب کچھ مصلحتا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس معاشرے میں وہ رہ رہے ہیں وہاں مذہب کے خلاف بات کرنا آسان نہیں کیونکہ یہاں مذہب کے نام پر ایک الگ ملک کا نعرہ لگ چکا تھا اور بعد میں قائم بھی ہوا۔ مذہب کے نام پر ہی ایک بہت بڑی ہجرت کا سامنا کرنا پڑا۔ لہذا قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں مذہب کے عمل دخل کی وجہ سے ہی نظریات وجود میں آتے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود ترقی پسند اپنے منشور پر کام کرنے نظر آتے ہیں۔

اقبال اور ترقی پسند نظریات

ایسے تمام شعراء و ادبا کو رجعت پرست قرار دیا گیا جو مذہب کے نام لیوا تھے اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اقبال کی شاعری میں انسان دوستی اور حب الوطنی بھی ہے اور سامراج دشمنی اور آزادی کی تڑپ بھی ۔ اقبال بھی بندہ مزدور کے اوقات کی تلخی کو موضوع بناتے اور مذہب کی آڑ میں غریبوں کا استحصال کرنے والے کچھ ملاؤں کے (۴۰) فریب کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ ان کے ہاں فن و مواد اس طرح شیر و شکر ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہے۔ اقبال ادب کو زندگی کا آئینہ دار ہی نہیں زندگی سے آزاد دیکھنے کے خواہاں ہیں مگر چونکہ وہ اسلامی انقلاب کے داعی ہیں کہ اسلام کی اصل روح بھی انقلابی ہے اس لیے ترقی پسندوں کو قابل قبول نہیں ۔ (۸)

ترقی پسند تحریک کے اثرات

ترقی پسند تحریک اپنے مقاصد کے لحاظ سے ایک ادبی تحریک کم اور سماجی، سیاسی تحریک زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود اس تحریک سے ادب میں ایک نئی لہر دوڑ گئی اور مختلف اصناف میں نہ صرف تبدیلیاں نظر آنے لگیں بلکہ کچھ نئی اصناف بھی سامنے آئیں ۔ تنقید نے بھی ایک نیا رخ اختیار کیا ۔ آزاد نظم اور نظم معری کا فروغ ہوا ۔ ایک نئی صنف رپورتاژ وجود میں آئی اور تنقید میں سائنٹیفک رویے کو فروغ ہوا۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ترقی پسند تحریک نے ادب میں موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ادبی نظریے میں بھی تبدیلی کی ۔ ان کے خیال میں ادب الہامی چیز نہیں بلکہ یہ سماجی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔ زندگی مادیت کے بل بوتے پر قائم ہے اس لیے ادب میں بھی مادی زندگی کے اثرات پائے جاتے ہیں اور ادب ایک سماجی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کا تنقیدی رویہ

تنقید میں خلوص اور بے تکلفی

اس تحریک کے بالکل متوازی ایک اور تحریک یعنی حلقہ ارباب ذوق چل رہی تھی ۔ جس کا نقطہ نظر ادب کے بارے بالکل مختلف تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کے مقاصد میں چوتھا نقطہ تنقید کے بارے میں تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تنقید ادب میں خلوص اور بے تکلفی پیدا کرنا ۔ (۹)

میرا جی کا کردار اور تنقیدی تحریک کا آغاز

میرا جی کی شمولیت سے نہ صرف حلقے میں ایک جوش اور تحرک پیدا ہوا بلکہ ان کی شاعری تیزی سے حلقے کی مجالس میں اثر انداز ہونا شروع ہو گئی ۔ ان کی حیثیت حلقے میں اہمیت اختیار کر گئی ۔ انھوں نے ہی یہ تجویز پیش کی کہ صرف ” واہ واہ “ کی بجائے فن پارے کی خوبیوں اور خامیوں کو تلاش کرنا چاہیے تا کہ صحیح تنقید سامنے آئے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یونس جاوید لکھتے ہیں :

میرا جی ہی نے پہلی مرتبہ تجویز پیش کی کہ حلقے میں پڑھے گئے مضامین نظم و نثر پر محض سبحان اللہ کا ڈونگر نہیں برسنا چاہیے بلکہ ان کی خامیوں پر بھی نظر کرنی چاہیے تا کہ تنقید کا صحیح حق ادا ہو سکے ۔ اس تجویز سے ارکان حلقہ متفق ہوئے اور آج بھی یہ سلسلہ اس طرح جاری ہے بلکہ اس تنقیدی سلسلے کے بغیر حلقے کے کوئی معنی نہیں بنتے ۔ (۱۰) (۴۲)

ابتدائی دنوں میں مختلف موضوعات پر خیالات کا اظہار ملتا ہے۔ چونکہ اس زمانے میں ممبران کی تعداد محدود تھی اور تخلیقات بھی کم تھیں اس لیے کوئی ایک ممبر کسی موضوع پر لیکچر دیتا یا بحث کے لیے کوئی عنوان چن لیا جاتا جس کے حق میں اور مخالفت میں دلائل دیئے جاتے ۔ یہ سب مل کر بیٹھنے کا بہانہ تھا۔ میرا جی کی شمولیت کے ساتھ ہی یہ مختصر سی ادبی تنظیم ایک با قاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ قیوم نظر کا ایک انٹرویو اس سلسلے میں ثبوت فراہم کرتا ہے۔

ابتدا میں اس انجمن کی روش عام ادبی انجمنوں کی سی تھی لیکن جب اس میں با قاعدہ نقد و نظر کا آغاز ہوا اور تنقید کے جدید اصول حلقے کی ادبی محفلوں کے سامعین کے سامنے آئے تو حلقہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرنے لگا ۔ (11)

افسانہ "پھسلن” پر تنقید کی مثال

مضامین کے بعد شاعری پر بھی باقاعدہ تنقید کا آغاز ہوا ۔ اس کی تجویز یوسف ظفر نے دی اور یوں غزلوں اور نظموں پر تنقید کا آغاز ہوا۔ افسانوں پر تنقید کی ایک مثال درج کی جاتی ہے ۔ یادر رہے یہ ایک ایسا افسانہ تھا جس میں جنس پرستی کو پیش کیا گیا تھا۔ افسانہ "پھسلن” کے مصنف محمد حسن عسکری ہیں۔ تنقید یوں تھی:

بد قسمتی سے ہندوستانی سوسائٹی اس قسم کے نظریوں کی عام اشاعت کو برداشت نہیں کرتی ۔ اگرچہ فرانس اور انگلستان خصوصاً جرمنی میں جنسیات پر بہت کچھ بے باکانہ انداز میں لکھا جا چکا ہے، بہر حال اردو ادب میں یہ اپنی قسم کی پہلی کوشش معلوم ہوتی ہے جو بہت کامیاب ہے نفس مضمون سے قطع نظر افسانے کی زبان بھی بہت پیاری ہے ، افسانہ چند غیر ضروری تاویلات کی وجہ سے بہت طویل ہو گیا ہے۔ جن کی غیر موجودگی میں بھی اس کے تسلسل میں چنداں فرق پیدا نہیں ہوتا ۔ (۱۲)

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں