بزم داستان گویاں اور حلقہ ارباب ذوق
بزم داستان گویاں میں افسانہ نگاروں کے ساتھ ساتھ شعرا کی تعداد بھی کافی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام بزم داستان گویاں سے حلقہ ارباب ذوق رکھ دیا گیا۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ صرف مل بیٹھنے کا بہانہ نہ رہا بلکہ اس کے واضح مقاصد بھی متعین ہونے لگے۔
موضوعات کی فہرست
اس کے مقاصد درج ذیل طے پائے:
- اردو زبان کی ترویج و اشاعت
- نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح
- اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت
- تنقید ادب میں خلوص اور بے تکلفی پیدا کرنا۔
- اردو ادب میں صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا۔
مقاصد کا چوتھا نقطہ تنقید کے متعلق ہے اور یہی ہمارا موضوع بھی ہے۔
یہاں اس بات کو واضح کرنا ضروری ہے کہ تنقید میں خلوص اور بے تکلفی سے کیا مراد ہے؟ کیا اس میں ترقی پسند تحریک کی تنقید میں ہی خلوص اور بے تکلفی کو شامل کرنا تھا یا تنقیدی نظریات بھی مختلف تھے۔ اس بات کا جائزہ لینے سے پہلے اس وقت کے ادبی منظر نامے کا مختصر بیان ضروری ہے۔
ترقی پسند تحریک کا پس منظر
سن ۱۹۳۵ء میں پیرس میں ایک ادبی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دنیا کے بڑے بڑے ادیب شریک ہوئے۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر ادب کے تحفظ اور نئی ضرورتوں کے لیے منعقد ہوئی۔ جس میں گورکی، اور تھامس مان جیسے شہرہ آفاق مصنفین کی سوچ اور فکر شامل تھی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان سے سجاد ظہیر اور ملک راج آنند شریک ہوئے۔
ان دونوں مصنفین نے لندن میں ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم کی اور ایک اعلان نامہ بھی جاری کیا۔ اس انجمن نے لکھنؤ میں اپریل ۱۹۳۶ء کو پہلی کانفرنس منعقد کی جس کی صدارت مشہور افسانہ نگار منشی پریم چند نے کی۔ اس کانفرنس میں ترقی پسند مصنفین کا منشور پڑھ کر سنایا گیا۔
ترقی پسند مصنفین کا منشور
جو کہ درج ذیل ہے:
- اس وقت ہندوستانی سماج میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جاں بلب رجعت پرستی جس کی موت لازمی اور یقینی ہے اپنی زندگی کی مدت بڑھانے کے لیے دیوانہ وار ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ پرانے تہذیبی ڈھانچوں کی شکست و ریخت کے بعد سے اب تک ہمارا ادب ایک گونہ فراریت کا شکار رہا ہے اور زندگی کے حقائق سے گریز کر کے کھوکھلی رومانیت اور بے بنیاد تصور پرستی میں پناہ ڈھونڈتا رہا ہے۔ جس کے باعث اس کی رگوں میں نیا خون آنا بند ہو گیا ہے اور اب شدید ہیئت پرستی اور گمراہ کن منفی رحجانات کا شکار ہو گیا ہے۔
- ہندوستانی ادبیوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھر پور اظہار کریں اور ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ترقی پسند تحریک کی حمایت کریں ان کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے انداز تنقید کو رواج دیں جس سے خاندان، مذہب، جنس، جنگ اور سماج کے بارے میں رجعت پسندی اور ماضی پرستی کے خیالات کی روک تھام کی جاسکے ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادبی رحجانات کو نشو و نما پانے سے روکیں جو فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی حمایت کرتے ہیں۔
- ہماری انجمن کا مقصد ادب اور آرٹ کو ان رجعت پرست طبقوں کے چنگل سے نجات دلانا ہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا موثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو ہندوستانی تہذیب کی بہترین روایات کا وارث سمجھتے ہیں اور ان روایات کو اپناتے ہوئے ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی رجعت پسندی کے خلاف جدو جہد کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہترین زندگی کی راہ دکھائے۔
- اس کام میں ہم اپنے اور غیر ملکوں کے تہذیب و تمدن سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ۔ یہ بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں، ہم ان تمام آثار کی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری، سستی اور توہم پرستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری قوت تنقید کو ابھارتی ہیں اور رسموں اور اداروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں تغیر اور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔
حلقہ ارباب ذوق کے قیام کے صرف تین سال پہلے نہ صرف پاکستانی ادب میں بلکہ عالمی سطح پر ادب میں یہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے تمام سابقہ ادبی نظریات کو نظر انداز کرتے ہوئے انسان کے بنیادی مسائل بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی کو ادب کا موضوع بنایا۔
بنیادی طور پر یہ لوگ کارل مارکس کے نظریات سے متاثر تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے ظالم شکنجوں سے جکڑے ہوئے بے بس انسانوں کی آواز بن کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا چاہتے تھے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا اصناف ادب کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا درست تھا یا یہ کہ اگر ایسا کیا جائے تو ادب، ادب رہے گا یا یہ کوئی اور شکل اختیار کر جائے گا۔
منشی پریم چند جو اس کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے نے اس کے حق میں صدارتی الفاظ کہے۔
جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، رومانی اور ذہنی تسکین نہ ملے، ہم میں قوت اور حرکت پیدا نہ ہو ہمارا جذبہ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانےکے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے، وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔
اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا ادب آرٹسٹ کے رومانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے۔ تخریب نہیں، ادب ہماری زندگی کو فطری اور آزاد بناتا ہے، اس کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔
یہ اس کا مقصد اولیٰ ہے۔ عمل کی قوت پر زور اور مشکلات پر قابو پانے کا جذبہ اس تحریک کا مدعا ٹھہرا۔ اس تحریک کو بڑے بڑے ادبیوں نے سراہا اور اس کا ساتھ دینے کے لیے کمر بستہ ہو گئے ۔ ان میں ڈاکٹر عبدالحق، حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، پریم چند، قاضی عبدالغفار، مجنوں گورکھ پوری، ڈاکٹر عابد حسین، نیاز فتح پوری، ساغر صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اُردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاہ
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 38-39
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مسکان محمد زمان