حالی کی نظموں کی موضوعاتی وفنی اہمیت

کتاب کا نام۔۔۔۔۔۔اردو شاعری 2
کوڈ ۔۔۔5608
صفحہ۔۔۔۔۔137سے 139
موضوع۔۔۔ حالی کی نظموں کی و فنی اہمیت
مرتب کردہ۔۔۔۔ اقصیٰ طارق

حالی کی نظموں کی موضوعاتی وفنی اہمیت

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نظموں کی موضوعاتی اور فنی اہمیت کیا ہے؟ عموما اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے کہ شاعری ایک تخلیقی چیز ہے۔ فرمائشی عنوانات پر لکھی ہوئی نظمیں تخلیقی خصوصیات سے محروم رہ جاتی ہیں کیونکہ وہ شاعر کے داخلی تجربے کا حصہ نہیں بن پاتیں ۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں میں شرکت کرنے والے شاعروں کا ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ مشاعروں کے لئے جو عنوانات دیے جاتے تھے وہ بھی غیر شاعرانہ اور تخلیقی ادب کے لئے زیادہ موزوں نہیں تھے ۔ جب وطن رحم و انصاف یا امید پر اچھی تخلیقی نظمیں لکھنا آسان کام نہیں ۔ یہ دقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب نظم کو کسی خاص تاریخ تیک مکمل کرنا لازم ہو۔ ان مشکلات کو مد نظر رکھ کر ان نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو ان کے بعض حصوں میں جو نثریت بےکیفی اور غیر تخلیقی انداز دکھائی دیتا ہے اس کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ان نظموں میں سب سے بہتر "بر کھارت” ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور کی تنہائی اور سخت گرمی میں منعقد ہونے والے اس مشاعرے کے زمانے میں حالی کے تخیل نے انہیں اپنا شہر اور وہاں کی برسات یاد دلا دی ۔ اس طرح یہ نظم تخلیقی تجربہ بن گئی ہے۔

کھم باغوں میں جا بجا گڑے ہیں
جھولے ہیں کہ سو بہ سو پڑے ہیں

کچھ لڑکیاں بالیاں ہیں کم سن
جن کے ہیں یہ کھیل کود کے دن

ہیں پھول رہی خوشی سے ساری
اور جھول رہی ہیں باری باری۔

137
جب گیت ہیں ساری مل کے گاتیں
جنگل کو ہیں سر پہ وہ اٹھاتیں

ہے ان میں کوئی ملار گاتی
اور دوسری پینگ ہے چڑھاتی

گاتی ہے کبھی کوئی ہنڈولا
کہتی ہے کوئی بدیسی ڈھولا

اک جھولے سے گری ہے جا کر
سب ہنستی ہیں قہقہے لگا کر

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ برسات کی سادہ اور زندہ تصویر ہے۔ نظم کے انتقام پر حالی نے اپنی تنہائی کا جس طرح ذکر کیا ہے وہ بھی دل پر اثر کرتا ہے۔

حب وطن بھی بہتر نظم ہے۔ اس میں جو تاثیر موجود ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے جو برکھا رت کے سلسلے میں بیان ہوئی ہے۔ لاہور میں حالی تنہا اور بیمار رہے اور پانی پت کی فضاؤں اور دلی کی محفلوں کو یاد کرتے رہے جس کی طرف اس نظم کے متعد د اشعار میں اشارے کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دل سے یہ محسوس کیا ہے کہ ہندوستان کے باشندوں میں باہمی منافرت اور کشیدگی بہت زیادہ ہے۔ ایک طرف یہ کشیدگی مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں ہے تو دوسری طرف ایک ہی مذہب میں فرقہ بندی نے صورت حال کو اور زیادہ خراب کر دیا ہے۔ چنانچہ حالی نے انسان دوستی کے آفاقی مسلک کی تبلیغ کی ہے۔ غرض یہ نظم بھی تخلیقی طور پر بہتر ہوگئی ہے۔

عزت قوم چاہتے ہو اگر
جا کہ پھیلاؤ ان میں علم و ہنر

ذات کا فخر اور نسب کا غرور
اٹھ گئے اب جہاں سے یہ دستور

قوم کی عزت اب ہنر سے ہے
علم سے یا کہ سیم و زر سے ہے

کوئی دن میں وہ دور آئے گا
بے ہنر بھیک تک نہ پائے گا

نہ رہیں گے سدا یہی دن رات
یاد رکھنا ہماری آج کی بات

مناظرہ رحم و انصاف اور نشاط امید نسبتا کم دلچسپ ہیں ۔ دراصل یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر اچھا مضمون تو لکھا جاسکتا ہے مگر اچھی نظم لکھنا بہت مشکل ہے۔ نشاط امید میں ایسی بحر اختیار کی گئی ہے جو اگر چہ فارسی مثنوی کی مقبول بحر رہی ہے مگر اردو میں اسے بہت کم استعمال کیا گیا ہے اور یہ اہل اردو کے مزاج کے مطابق بھی نہیں ہے اس لیے اس نظم میں نثریت کا غلبہ ہے۔ نظم ” مناظرہ رحم و انصاف مکالمے کی شکل میں لکھی گئی ہے۔ جس میں پہلے رحم نے انصاف سے خطاب کر کے اپنی خوبیاں بیان کی ہیں اور بعد ازاں انصاف نے جواب میں اپنی خوبیاں بتائی ہیں ۔ آخر میں عقل نے فیصلہ کرتے ہوئے دونوں کو ضروری قرار دیا ہے۔ اس میں جو بحر اعتیار کی گئی ہے وہ اگرچہ ارواں کرو ان ہے لیکن معنوی کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی۔ اس لیے یہ مالی طور پر زیادہ کامیاب نہیں ہے.

138
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انجمن پنجاب کے چار مشاعروں میں حالی نے شرکت کر کے موضوعات پر نظمیں لکھنے کی ابتداء کی ۔ عنوانات کی وقتوں اور پابندی اوقات کے باوجود چار میں سے کم از کم دو اچھی نظمیں لکھنے میں کامیاب رہے جو آغاز کلام کی حیثیت سے معمولی بات نہیں ہے۔حالی ان چار مشاعروں میں شرکت کے بعد لاہور سے چلے گئے اور انہوں نے دلی کے اینگلو عربک سکول میں مدرس کی حیثیت سے ملازمت کر لی۔ لیکن انجمن پنجاب کی نظم نگاری کی تحریک نے ان میں نظم نگاری کا ایک ایسا جد به پیدا کر دیا کہ بعد ازاں وہ غزل گوئی سے زیادہ نظم کی مختلف اصناف کو اظہار کے لئے وسیلہ بناتے رہے۔

5- مسدس حالی کی فکری وفنی اہمیت

1879 ء میں حالی نے اپنی معرکہ آرا طویل نظم "مسدس مد و جز را سلام لکھی جو جلد ہی بےحد مشہور اور مقبول ہو گئی اور مسدس حالی کے مختصر نام سے یاد کی جانے لگی ۔ اس نظم میں حالی نے پہلے قبل از اسلام کے عرب کی جغرافیائی ، تاریخی اور تمدنی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔ پھر بتایا ہے کہ اسلام نے کس طرح عرب کے لوگوں کی کایا پلٹ دی اس کے بعد مسلمانوں نے دنیا کے بہت سے ممالک کو فتح کر کے وہاں جو تہذیبی ، معاشرتی ، علمی اور سائنسی انقلاب بر پا کر دیا ، اس کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد تفصیل سے بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں زوال کیونکر آیا اور زوال نے مسلم معاشرے کو کس طرح تحت اثر تک پہنچا دیا ۔ خصوصاً ہندوستان میں مسلمانوں کے مختلف طبقات زوال کا شکار ہو کر کس قدر گر چکے ہیں یہ مسدس چھپتے ہی بے حد مقبول ہو گئی اور بقول حالی چند ہی برسوں میں اس کے سات آٹھ ایڈیشن فروخت ہو گئے ۔ سکولوں کے نصاب میں اس کے حصے شامل کیے گئے۔ واعظوں کی زباں پر اس کے اشعار جاری ہو گئے ۔ اخباروں میں اس پر تبصرے لکھے گئے اور بہت سی مسدسں اس کی پیروی میں لکھی گئیں ۔ اس وجہ سے حالی نے مناسب خیال کیا کہ اس کا خاتمہ دل شکن اشعار پر نہیں ہونا چاہیے چنانچہ انہوں نے سات سال کے بعد اس کے ساتھ ایک طویل ضمیمے کا اضافہ کیا جو امید افزا اشعار پر مشتمل ہے مسدس حالی کے شعر میں بہت افراط و تفریط سے کام لیا گیا ہے۔ بعض نقاد اسے حالی کا اہم ترین کارنامہ قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ نقادوں کا یہ کہنا ہے کہ حالی کا کمتر درجے کا کلام ہے ۔ مگر حقیقت کہیں درمیان ہیں ہے۔ اس کے بعض بند یقینا شعری اور فنی لحاظ سے کمزور ہیں اور ان میں وعظ ونصیحت براہ راست انداز میں کی
139
گئی ہے لیکن مجموعی طور پر مسدس ایک شعری کا رنامہ ہے۔ اس کے متعدد حصے اعلی شروئی کی مثالوں کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں۔ قبل از اسلام کے مربی تمدن اور معاشرت کا بیان نہایت موثر ہے۔
بقیہ حصہ جدید نعت نگاری کا عمدہ نمونہ ہے جس میں قدیم نعتیہ اندز کی سراپا نگاری کی بجائے محصور ہے کی سیرت و کردار کے نمایاں پہلوؤں کو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ آپ کی ذات دنیا بھر کے انسانوں کے لئے قابل تقلید ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کے زوال کے دور کو بہت پر تاثیر انداز میں بیان کیا گیا ہے جس میں گہرے طنز ے کام لیا گیا ہے جس کا قاری پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ غرض مجموعی طور پر مسدس حالی ایک اعلی درجے کی نظم ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں