موضوعات کی فہرست
ہاجرہ مسرور کے موضوعات اور اسلوب
بے حسی، کردار کی کمزوری، اخلاق کی پستی یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کو ہاجرہ مسرور نے اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور بڑی بے فکری اور بے نیازی سے سماج کے گھناؤنے زخموں کو کرید ڈالا (۷۷)۔
ہاجرہ مسرور نے ابتدا میں جنسی موضوعات پر بھی افسانے لکھے۔ ان کے افسانوں میں یہ رجحان معاشرتی پس منظر اور معاشی جبر کی صورت میں ابھرتا ہے۔ مگر بعد میں انہوں نے دوسرے مسائل پر بھی توجہ دینی شروع کی اور جنسی افسانوں سے زیادہ کامیاب افسانے لکھے۔ انہوں نے گردوپیش کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور تفریحی، رومانی، سیاسی و سماجی ہر طرح کے موضوع کو اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ ہاجرہ مسرور کے جنسی افسانوں پر عصمت کی گہری چھاپ ہے۔ "ہائے اللہ”، "قتل”، "اوٹ”، "پہاڑ”، "کتے” وغیرہ ایسے افسانے ہیں جس کی وجہ سے انہیں عصمت کا مقلد کہا جاتا ہے۔ صغرا مہدی فرماتی ہیں:
"جن افسانہ نگار خواتین نے خاص طور سے عصمت کا اثر قبول کیا ہے ان میں ہاجرہ مسرور سب سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "ہائے اللہ” شائع ہوا تو اس میں کئی افسانے جنس کے موضوع پر تھے۔ ان کا طبقہ بھی وہی تھا جس طبقے کی زندگی کو عصمت نے دکھایا تھا اور مسائل بھی کم و بیش وہی رہے تھے مگر ان افسانوں میں عصمت کی سی بے ساختگی اور اشاریت نہیں تھی۔ ان کے افسانے "ہائے اللہ” اور عصمت کے افسانے "گیندا” میں غضب کی مماثلت ہے۔”
تقسیم ہند کے بعد ہاجرہ پاکستان چلی گئیں اور انہوں نے وہاں کے مسائل پر زیادہ اچھے افسانے لکھے۔ انہوں نے اپنے موضوعات میں وسعت پیدا کی اور بقول شین اختر انسان کی ذات اور اندرونی کشمکش کی عکاسی سے ہٹ کر سماجی استحصال اور تضادات کی طرف راغب ہو گئیں۔ ان کے اسلوب پر عصمت کے گہرے اثرات ہیں۔ (۷۸)
عصمت چغتائی سے موازنہ اور انفرادیت
ہاجرہ مسرور ایک حساس ذہن کی مالک تھیں۔ ان کی پرورش جس ماحول میں ہوئی اس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں ایک طرح کا ٹھہراؤ ہے۔ حالانکہ بغاوت انہوں نے بھی کی مگر عصمت کی سی تندی اور تیزی سے نہیں بلکہ ایک حد میں رہ کر۔ ہاجرہ نے جنسی موضوعات پر افسانے لکھ کر اپنے ماحول سے بغاوت تو کی مگر عصمت کی طرح حد سے تجاوز نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ "لحاف” کی سی بے باکی ہاجرہ کے کسی افسانے میں نہیں ملتی اور نہ ہی ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں عصمت کی سی سنجیدگی اور فنی پختگی نظر آتی ہے۔
کردار نگاری اور نسوانی نفسیات
ہاجرہ مسرور نے اپنے آس پاس کی دنیا میں بکھری ہوئی چیزوں کو ہی رقم کیا۔ ان کے افسانوں کے کردار، فضا، ماحول وغیرہ بہت جانے پہچانے اور مانوس لگتے ہیں۔ ان کی کہانیاں روزمرہ کی زندگی سے عبارت ہیں۔ ان کے کردار ہمارے بیچ چلتے پھرتے اور سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ کردار نگاری میں ایک طرف تو ہاجرہ مسرور کی انسانی نفسیات پر گہری نظر کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری طرف انسانی تعلقات کی نت نئی صورتوں کا باریک بینی سے مشاہدہ، کردار کی گفتگو، لہجے اور خیالات سے نمایاں ہوتا ہے۔
ہاجرہ مسرور ایک جانی پہچانی دنیا کی کہانی کار ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ انسانی رشتوں کو اہم سمجھ کر ان کی داستان رقم کی۔ ان کے افسانے چھوٹی چھوٹی خوشیوں، چھوٹے چھوٹے خوابوں سے عبارت ہیں۔ ہاجرہ مسرور کے یہاں زیادہ تر نسوانی کردار نظر آتے ہیں۔ وہ عورت کی نفسیات اور اس کی جذباتی ضروریات سے واقف ہیں اور ان دونوں پہلوؤں کی سماجی ناقابل قبولیت سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کے نسوانی کردار خواہ کسی بھی طبقے اور پیشے سے تعلق رکھتے ہوں ان کی شخصیت اکہری اور نامکمل نہیں ہوتی۔ ان میں اچھائی اور برائی دونوں خصوصیات نظر آتی ہیں۔
مسلم معاشرے کی خواتین کی عکاسی
ان کے افسانوں میں مسلم معاشرے میں بسنے والی عورتوں کی کرب ناک زندگی کے مختلف زاویوں کی بہترین عکاسی تواتر سے کی گئی ہے۔ ان کے افسانوں کی عورت دبی کچلی ہے اور سماج میں اس کی کوئی عزت نہیں ہے۔ عورت کی ذاتی خواہشات و احساسات کو پس منظر میں دھکیل کر اسے کٹھ پتلی بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ وفا شعاری کی قوت سے مالا مال ہے۔
"عورت ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور سماج کے کوڑھی ہاتھوں میں ہے اور ان کوڑھی ہاتھوں میں جب جلن ہونے لگتی ہے تو ڈور کے جھٹکوں سے یہ کٹھ پتلی نچائی جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کٹھ پتلی میں جان پڑ جائے اور وہ اپنی مرضی کے مطابق حرکت کرنے لگے تو سماج کا لوتھ پڑا ہوا سرانڈ جسم کس سے دلچسپی لے۔۔۔۔۔” (۷۹)
اسلوبیاتی خصوصیات
ہاجرہ مسرور کا اسلوب، تشبیہات و استعارات اور محاوروں سے مزین ہے۔ ان کے ہاں دہلوی زبان کا چٹخارہ ملتا ہے۔ انہیں عورتوں کی زبان پر قدرت حاصل ہے۔ عورتوں کی بول چال اور ان کے روزمرہ کے محاورات کا استعمال نہایت خوبصورتی سے کرتی ہیں۔ زبان میں روانی ہے اور حسب موقع موزوں تشبیہات کی مدد سے کرداروں کے طرز عمل اور ذہنی کیفیت کو ابھارتی ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
"سامنے کے بینچوں پر کتنے ہی مرد ان دونوں کو گھور رہے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے حلوائی کی دکان کے سامنے بازاری کتوں کے گروہ” (۸۰)
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: بیسویں صدی کی اہم افسانہ نگار خواتین
- مقالہ برائے: پی ایچ۔ ڈی (اردو)
- مقالہ نگار: آمنہ خان
- نگران مقالہ: ڈاکٹر مشیر احمد
- یونیورسٹی: Jamia Millia Islamia
- صفحہ نمبر: 205، 206
- آپ تک پہنچانے میں معاون: روبینہ خوشحال