گلزار نسیم کی خصوصیات

موضوع۔گلزار نسیم کی خصوصیات
کتاب کا نام۔شعری اصناف ۔تعارف اور تفاہیم۔
کورس کوڈ۔9003
ص۔187تا 190
مرتب کردہ۔Hafiza Maryam

گلزار نسیم کی خصوصیات

-i کردار نگاری

گلزار نسیم کے مرکزی کردار تاج الملوک اور بکاؤلی ہیں۔ یہ دونوں مثنوی کے اہم کردار ہیں جن کی وجہ سے مثنوی کا قصہ آگے بڑھتا ہے۔ شاعر نے ہیرو اور ہیروئن ان دونوں کرداروں کو عمدگی سے تراشا ہے۔ تاج الملوک اور بکاؤلی کے علاوہ بادشاہ زین الملوک ، دیو، دیو کی بہن حمالہ دیونی، دلبر مثنوی کے متحرک کردار ہیں۔ نسیم نے کرداروں کی سیرت کشی بڑی عمدگی سے کی ہے۔ ایک کامیاب ہیرو کی حیثیت سے تاج الملوک کو ایک ہوش من بیاور مہم جو اور دلیر شہزادے کی مانند دکھایا ہے۔ جو ہر موقع پر بڑے تدبر اور ہوش مندی سے کام لیتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: گلزار نسیم کا تنقیدی جائزہ

ii- رعایت لفظی

گلزار نسیم میں حسن عشق کے خارجی خدوخال کی تعریف کرنے میں مبالغہ سے کام لیا گیا ہے ۔ چنانچہ اس مثنوی میں دیگر شاعرانہ خوبیوں کے علاوہ لکھنوی دبستان کی شاعرانہ خوبیاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جن میں رعایت لفظی سب سے نمایاں ہے۔ مثال ملاحظہ کریں:

گل کی جو خبر سنائی اس کو

گلشن کی ہوا سمائی اس کو

اس شعر میں گل گلشن اور ہوا تینوں لفظی رعایتیں ہیں لفظی رعایت اگر اعتدال کے ساتھ ہو تو کوئی عار نہیں لیکن حد سے تجاوز کر جائے تو مضحکہ خیز بن جاتی ہے۔ گلزار نسیم میں آرائشی عناصر کا استعمال فن کارانہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلزار نسیم ایک نظر میں پوسٹ 04

iii مرصع کاری

گلزار نسیم کی نمایاں خوبی مرصع کاری اور صنعت گری ہے۔ مثنوی میں جگہ جگہ مرصع سازی کی مثالیں نظر آتی ہیں ۔ نسیم بڑی خوبصورتی کے ساتھ صنائع اور بدائع سے کام لیتے ہوئے واقعات بیان کرتے ہیں۔ مرصع کاری مندرجہ ذیل

اشعار میں دیکھیں:

جب خوب دو شعلہ رو نہائیں

عریانی کے تنگ سے لے جائیں

تاہم بستر آدمی پری تھی

باہر بصد آب و تاب آئیں

ستار کی سب نے قسمیں کھائیں

سائے کی بغل میں چاندنی تھی

غافل جو موکلوں نے پایا

قدموں پہ گری کہا اٹھو آؤ

اس نقش مراد کو جگایا

انکار و گریز جانے دو آؤ

iv محاکات نگاری

گلزار نسیم کی ایک بری خوبی محاکات نگاری بھی ہے۔ محاکات نگاری کا مطلب ہے کہ انسانی چہرے یا جسم پر جو مختلف جذباتی کیفیات وارد ہوتی ہیں ، ان کا ہو بہو نقشہ پیش کیا جائے۔ جن کرداروں کے محاکات کھینچے جارہے ہوں ان کی ایک ایک ادا ، ایک ایک حرکت قاری پر منکشف ہو رہی ہو۔ یہ فن آسان نہیں بڑی مہارت مانگتا ہے۔ لیکن گلزار نسیم میں شاعر محاکات نگاری میں بڑی ہنر مندی کا ثبوت دیتا ہے۔ محاکات نگاری کی مثال ملاحظہ ہو۔

اک شب راجہ تھا محفل آرا

یاد آئی بکاولی دل آرا
پوچھا پریوں سے کچھ خبر ہے
شہزادی بکاؤلی کدھر ہے
آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی
منہ پھیر کے ایک مسکرائی
چتون کو ملا کے رہ گئی ایک
ہونٹوں کو بلا کے رہ گئی ایک
۷۔
شاعرانہ تعلی اور مبالغہ آرائی اگر چہ سخنوروں کا وطیرہ رہا ہے۔ لیکن مبالغے اور تعلی کو تو ان کے ساتھ نبھایا جائے تو شعر زیادہ بامعنی اور با اثر رہتا ہے۔ گلزار نیم میں مبالغہ آرائی کے نمونے جگہ جگہ بکھرے نظر آتے ہیں : مثال کے طور پر:

صورت میں خیال رہ گئی وہ

بیت میں مثال رہ گئی وہ

آنے لگے بیٹھے بیٹھے چکر

قانوس خیال بن گیا گھر

واقعہ نگاری

مثنوی میں واقعہ نگاری کو درجہ کمال تک پہنچانا شاعر کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو مثنوی ہے نمک ، خشک اور بے مزہ رہتی ہے۔ گلزار نسیم میں چونکہ پلاٹ زیادہ پیچیدہ ہے چھوٹی چھوٹی ضمنی کہانیاں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ بعض مقامات پر منطقی ربط کم نظر آتا ہے۔ بہر حال مثنوی میں واقعہ نگاری کے عمدہ نمونے قاری کی حس لطیف کو مسرور کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر تاج الملوک کی دیو سے ملاقات کا واقعہ یوں بیان ہوتا ہے:

ڈانڈا تھا آرام کے بادشاہ کا

ایک دیو تھا پاسبان بالا کا

دانت اس کے تھے گورکن قضا کے

دو نتھنے راہ عدم کے نا کے

بھوکا کئی دن کا تھا وہ ناپاک

فاقوں سے رہا تھا پھانک خاک

بولا کہ چکھوں گا میں یہ انسان

الله شکر الله احسان

شهزاده کہ منہ میں تھا اجل کے

اندیشے میں رہ گیا دہل کے

vii منظر نگاری

گلزار نسیم میں کئی ایسے مناظر ہیں جو قاری کی حس ادراک کی تشفی کرتے ہیں۔ اس میں گل بکاؤلی کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:

ایوان بکاولی جدھر تھا
خوش آئینہ دار بام و در تھا
رکھتا تھا وہ آپ سے سوا تاب
چندے خورشید و چندے ماہتاب

پھول اس کا اندھے کی دوا تھا
رشک جام جہاں نما تھا

viii جذبات نگاری

شاعری انسانی جذبات و احساسات کی زبان ہے۔ گلزار نسیم میں اشارات و کنایات سے کام لیتے ہوئے جذبات و احساسات کی خوب ترجمانی کی گئی ہے: رمز و ایما، اشاره و کنایہ تشبیہات و جذبات آرائی میں بڑے کام آتے ہیں۔ گلزار نسیم میں ان تمام صنائع کے سہارے جذباتیت پیدا کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر جب تاج الملوک گل لے جاتا ہے تو بکاؤلی حوض پر آتی ہے اور گل کو نہ پا کر اس کی کیفیت کچھ اس طرح ہو جاتی ہے:

گھبرائی کہ ہیں؟ کدھر گیا گل

جھنجھلائی کہ کون دے گیا جل

اپنوں میں سے پھول لے گیا کون
بیگانہ تھے سبزے کے سوا کون
شبنم کے سوا چرانے والا
اوپر کا تھا کون آنے والا

محاورات اور ضرب الامثال

کہا جاتا ہے کہ گلزار نسیم محاورات اور ضرب الامثال کی کان ہے۔ ہر شعر میں محاورہ مشکل، استعارہ اور تشبیہات کا بر محل استعمال نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے گویا محاورات و ضرب الامثال میں یہ مثنوی تخلیق کی گئی ہے۔ یہی انداز اس کے اسلوب کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ محاورے کلام میں اس طرح نظر آتے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینے۔

گلچیں کا جو ہائے ہاتھ ٹوٹا
غنچہ کے بھی منہ سے کچھ نہ پھوٹا

او قات پرا نہ تو چنگل
مشکیں کس لیں نہ تو نے سنبل؟

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں