گجراتی ادب کے تین ادوار

تاریخ ادب اردو ۱
مرتب کردہ ثمینہ کوثر
صفحہ نمبر ۸۱-۸٤
4- گجراتی ادب کے تین ادوار

گجراتی ادب کے تین ادوار

سید ظہیر الدین مدنی مقاله بعنوان مجری اور دکنی اردو میں لکھتے ہیں :

گجراتی ادب کے ماہرین نے زبان کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے پہلا دور 1000ء تا 1400ء دو سر ادور 1400ء تا 1700ء اور تیر ادور 1700ء تا اس وقت ہے۔ عرفی فارسی زبانیں عہد قدیم سے گجرات میں موجود تھیں۔ ان سے لوگ واقف بھی تھے ۔ گجراتی ادب بھی ان سے متاثر تھا ۔ 1290ء کی ایک گجراتی تصنیف ” عمل چھند” کے نام سے ہے۔ اس میں فارسی عربی الفاظ پائے جاتے ہیں جیسے سائبان غرض علائی فتح سے قبل گجرات میں عربی، فارسی کا چلن اچھا خاصا تھا دوسری طرف بازاری بولی تجری بھی اظہار خیال کی خدمت انجام دے رہی تھی”

مقالہ مشمولہ اردو زبان کی تاریخ مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ . ص : 47-246) گجراتی ادب میں 1456ء کی ایک تصنیف ” کا نہ ڈے پر بندھ” کے نام سے ملتی ہے اس میں کثرت سے فارسی عربی الفاظ اپنی مجدی ہوئی شکل میں موجود ہیں یہ منیف عوامی گجراتی میں ہے۔ ايناس : 248)

5- گوجری ادب – اجمالی جائزہ

سید ظہیر الدین مدنی مزید رقمطراز ہیں :

محققین غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اردو کی اولی تشکیل صورت گجری سب سے پہلے گجرات میں عمل میں آئی۔ شیرانی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں :

موجودہ معلومات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کو ادلی شکل سب سے پہلے صوبہ

گجرات میں ملتی ہے ۔ "

اس سلسلے میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری صاحب فرماتے ہیں :۔
82

گجرات کی اردو کے قدیم مخطوطے ہنوز محفوظ ہیں اگر چہ بالکل ادمی رنگ کے ہیں مگر ان سے ثابت ہوتا ہے کہ گجرات میں یہ زبان اس قدر ترقی کر گئی تھی کہ اس کا مقصد

استعمال یقینا ادمی بھی ہو گا

اگر اس کے ساتھ ڈاکٹر جمیل جالبی کی یہ رائے بھی شامل کر لی جائے تو گجری زبان کے ابتدائی نقوش کا کسی

حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ہے وہ لکھتے ہیں۔

علاؤ الدین خلجی کی فتح محجرات (697ھ/ 1297ء) سے پہلے گجرات کی زبان جس پر عربی فارسی کے اثرات مسلسل پڑرہے تھے کیا تھی ؟ اسکا کچھ اندازہ ھیم چندر کے ان دوہوں سے ہوتا ہے جو اس نے اپنی قواعد میں نقل کئے ہیں یا پھر ان چند نمونوں سے پتا چلتا ہے جو گجراتی رسم الخط میں ، اس زمانے کی مروجہ عوامی زبان میں لکھے

گئے تھے ۔

تاریخ ادب اردو جلد اول ص : 93)

ڈاکٹر صاحب نے سید نور الدین محمد عرف ست گرو (متوفی : 847ھ / 1094ء) کے است پنتھی

رسائل ” سے مثالیں درج کی ہیں :

-1 ست گرو کے رےہیو پیو کرے

پن پیو پیو نہ پاوے کوئی

لکھ جپن تاں جو پیو لے

تو شر ساٹانہ جو ہوے برے

2 – ست گرو کھے ریے جو ٹھا نہ مرنا تو سب جگ مرے

انے سا چاند مرے کوئی

اگر گستان جے مرے

تب سے مری مرن نہ ہوئے

یہ اس زمانے کی مروجہ گجراتی کے قدیم ترین نمونے ہیں۔ یہ زبان آج تقریبا 9 سو سال گزر جانے کے بعد بھی اتنی اجنبی نہیں معلوم ہوئی کہ اسے پہچان نہ جاسکے”

تاریخ ادب اردو جلد اول ص : (94)

سید ظہیر الدین مدنی نے گجری کے حلقہ وسعت میں دکن تک کو شامل کر لیا ہے حالانکہ خود دکن میں زبان و ادب کی منفر در وایات ملتی ہیں تاہم مدنی صاحب کا استدلال بھی قابل توجہ ہے جن کے بموجب :

جری کا حلقہ اثر دکن تک پھیلا ہوا تھا۔ دکن میں رکن پولی کی حیثیت سے تو موجود تھی مگر ادب میں یہ گو لکندہ میں روشناس کرائی جاتی ہے۔ لہذا اد کن میں اولی تقاضے گجری ہی پوری کرتی رہی ۔ پندرہویں صدی کے شاعر نظامی اور میراں جی کے ہاں گجری روایات ملتی ہیں۔ نظامی پندرہویں صدی کے نصف اول اور میراں جی نصف آخر کے شاعر ہیں ۔ یہ لوگ اپنی زبان کو ہندی کہتے ہیں لیکن نام ہندی سے گجری ہی مراد لی جاتی ہے۔ مرات احمدی کا مصنف با جن گام دھنی وغیرہ کی زبان کو ہندی کہتا ہے حالانکہ خود وہ لوگ اپنی زبان کو حجری کہتے تھے ۔ اس بارے

میں سید محی الدین صاحب قادری فرماتے ہیں :

ہو سکتا ہے گجرات کے اثر سے دکن کی اولی زبان بڑی حد تک بدل گئی ہو اور جو لوگ

اس مبدلہ زبان میں لکھتے تھے وہ اپنی زبان کو گجری کہنے لگے "۔ (اردو زبان کی تاریخ اس (258) اردو زبان کے آغاز نشو و نما اور تخلیقی نقوش سنورنے کی بحث میں صرف دو علاقوں کا بطور خاص تذکرہ ہوتا ہے پنجاب اور دکن ۔۔۔۔ اس شد و مد کے ساتھ گویا صرف ان ہی دو علاقوں کا اردو کے آغاز سے تعلق ہے، جس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پنجاب اور دکن کا دعوی پیش کرنے والے نامور محقق تھے اور انہوں نے معتبر شواہد پیش گئے جبکہ گجرات کی طرف کسی نامور انسانی محقق نے بطور خاص توجہ نہ دی حالانکہ اولی مور نھین اور لسانی محققین مجری کا تذکرہ کرتے رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ گجری غیر اہم یا غیر معروف زبان نہ تھی۔ چنانچہ امیر خسرو نے اپنی فارسی

مثنوی ” ہند سپر ” میں ہندوستان کی جن بارہ زبانوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں "گجری ” یعنی گجراتی بھی ہے۔ ہندوستان کے نقشہ پر پنجاب گجرات اور دکن کو ایک دوسرے سے ملا دینے والے خطوط سے جومثلث جنم لیتی ہے اسے ایسی لسانی مثلث قرار دیا جا سکتا ہے جو اردو کے آغاز اور تخلیقی نشو و نما سے مشروط نظر آتی ہے اور اس لسانی مثلث میں جداگانہ لسانی تشخص کا حامل گجرات اردو زبان کے خدو خال سنوارنے میں فعال کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔

آئیے اب ہم چند ایسے شعراء کا آپ سے تعارف کراتے ہیں جنہوں نے گجری زبان و ادب میں نمایاں حیثیت حاصل کی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں