کتاب کا نام : تاریخ ادب اردو 1
صفحہ نمبر: 77تا 78
عنوان: گوجری ادب
گوجری ادب
گجرات میں اردو کی روایت کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ وہاں کی روایت دکن سے قدیم تر ہے اس روایت نے دکن کے ادب پر گہرے اثرات ڈالے ہیں
ڈاکٹر جمیل جالبی__( تاریخ ادب اردو جلد اول ص 83)
گوجری ادب کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ عمل واضح ہے کہ یہ گجرات پنجاب کا نہیں اور نہ گوجری ادب سے مراد گوجروں کا ادب ہے آج کا بھارتی گجرات انڈیا کے لیے مشہور ہے
ماضی میں گجرات ہندوستان کے اہم مقامات میں شامل ہوتا تھا سیاسی لحاظ سے بھی اور تجارتی لحاظ سے بھی جنوبی ہند کے ضمن میں یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ قدیم زمانے سے بھی عرب ہندوستان کے ساحل پر بغرض تجارت پھیلانے کا موجب بنے جس طرح دکن میں اللہ والے نیک اور پاک صوفیا کرام سے اسلام پھیلا اس طرح بعض صوفیا نے گجرات کا بھی رخ کیا رشد ہدایت اور تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا اس سلسلے میں حاجی سوز احمد دہلوی احمد عرفانی کتب عالم شاہ عالم کے اسماء بطور خاص لے جا سکتے ہیں الغرض ایک سطح پر کاروباری سماجی اور تجارتی مقاصد کے لیے آباد کا روح کا مقامی آبادی سے رابطہ استوار ہوتا ہے تو دوسری طرف تبلیغ دین کے لیے عبادت اور ارشادات کے ضمن میں صوفیا کی زبان سے عربی اور فارسی کے الفاظ بھی ادا ہوتے ہوں گے یوں مقامی بولیوں سے عربی فارسی اور ترکی کے لسانی امتزاج کو تقویت ملتی ہے سید شمس اللہ قادری اور دور قدیم میں اہل گجرات کے مشاغل علمی کے سلسلے میں لکھتے ہیں گجرات چونکہ سمندر سے ملا ہوا تھا اس لیے ایران و عرب وہ مصر کے باشندے اس ملک میں ہمیشہ آیا جایا کرتے تھے انقطاط نے گجرات کو ارباب فضل و کمال کا مرکز مانا جاتا تھا علاوہ محدثین کی جماعت کثیر بلاد اسلام سے یہاں آ کر آباد ہو گئی تھی
مسلمان گجرات میں کچھ کاٹھیا داڑ سورت تھانہ بھڑوچ چمیور می آباد تھے یہ مسلمان پرامن اور نیک اطوار کے حامل تھے لہذا حکمران اور مقامی آبادی میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے
چنانچہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
” چوتھی صدی ہجری کے شروع میں مسعودی ہندوستان ایا 303 میں وہ کھبایت میں تھا اس کے علاوہ وہ گجرات کے مختلف شہروں میں پھرا وہ وہاں کے ایک اور راجہ وبہہ رائے کی مسلم سرپرستی کے زمن میں لکھتا ہے
سندھ اور ہندوستان کے تمام راجاؤں میں راجہ بلہرا کی طرح اور کسی راج میں عربوں اور مسلمانوں کی اتنی عزت نہیں اسلام میں اس راجہ کے حکومت میں معزز اور محفوظ ہے اس کے ملک میں مسلمانوں کی مسجدیں اور جامع مسجد بنی ہیں جو ہر طرح آباد ہیں
( عرب و ہند کے تعلقات ص 245)
تجارت کے ضمن میں قدیم زمانے میں کمبایت کا بہت تذکرہ ملتا ہے یہ گجرات کی ایک اور بڑی بندرگاہ تھی
سید سلیمان ندوی کے بقول:
سلطان شمس الدین التمش کے زمانہ میں 625 کا مصنف ہونے لکھتا ہے وہاں کھبایت میں خوش عقیدہ اور دین دار مسلمانوں کی آبادی ہے ان کی ایک جامع مسجد بھی اور اس کا ایک امام اور خطیب بھی ہے گجرات کا راجہ رہتا ہے تھا ان لوگوں کے ساتھ بہت عدل و انصاف کے ساتھ پیش آتا تھا
(عرب اور ہند کے تعلقات ص 245)
کمبایت کے علاوہ گجرات میں صورت, تھانہ, بحری تجارت کے اہم ترین مراکز رہی ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں