غلام عباس نومبر ۱۹۰۹ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام میاں عبدالعزیز تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت لاہور میں ہوئی۔ ۱۹۴۲ء میں میٹرک اور ۱۹۳۴ء میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ مزید تعلیم جاری نہ رکھا سکے ۔ ۱۹۲۲ء میں پہلا افسانہ بکری تحریر کیا اور ۱۹۲۵ ء میں ٹالسٹائی کی تصنیف کا ترجمہ جلا وطن’ کے عنوان سے کیا ، جو رسالہ ہزار داستان لاہور میں چھپا۔ امتیاز علی تاج کی نگرانی میں جاری ہونے والے رسالے تہذیب نسواں اور بچوں کے معروف رسالے پھول کے نائب مدیر بھی رہے ۔ ۱۹۳۸ء میں جب انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کی ، تو ریڈیو کے رسالے آواز کے مدیر بنائے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کے رسالہ آہنگ نے ان کی ادارت میں خاصی مقبولیت حاصل کی ۔ ۱۹۴۹ء میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے بی بی سی لندن سے منسلک ہو گئے ۔ ۱۹۵۲ء میں جب پاکستان آئے تو ایک مرتبہ پھر آہنگ کے لیے خدمات انجام دینے لگے ۔ ۱۹۶۰ء میں جاڑے کی چاندنی پر آدم جی ادبی انعام حاصل کیا۔ ۱۹۶۷ء میں حکومت پاکستان کی طرف ستارہ امتیاز ملا۔ ۱۹۶۷ء میں صدر پاکستان ایوب خان کی خود نوشت "فرینڈز ناٹ ماسٹرز”کا اردو میں ترجمہ” جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی” کے عنوان سے کیا۔ بچوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا۔ ان کا ایک ناول موندنی والا تکیہ ۱۹۸۴ء میں منظر عام پر آیا۔ یکم نومبر ۱۹۸۴ ء کو وفات پائی۔آنندی ، جاڑے کی چاندنی ان کے معروف افسانوی مجموعے ہیں ۔ افسانہ نگاری کے فن پر جو گرفت اور کمال انھیں حاصل ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اُن کی ہر کہانی زندگی کے کسی شدت کسی تقضاء سے جنم لیتی ہے۔ انسانی زندگی کے ظاہری اور باطنی تضادات کو وہ ایک معنے کے طور پر نہیں دیکھتے ، بلکہ ایک سادہ حقیقت کے روپ میں پیش کر دینے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ اُن کا اسلوب سادہ بیانیہ ہے ۔ اس اسلوب میں وہ عام آدمی کی زندگی کو بڑے قرینے سے سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔ اُن کے اکثر کردار بڑی خاموشی سے اپنی زندگی میں مگن دکھائی دیتے ہیں ، اپنے حال میں مست اور راضی بہ رضا۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں