مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

غزال ضیغم تہذیبی جڑوں کی تلاش کرنے والی افسانہ نگار

غزال ضیغم کا تعارف

غزال ضیغم کا شمار ان جدید خواتین قلمکاروں کی صف میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی مخصوص سوچ و فکر سے افسانے کے تانے بانے بنے ہیں۔ ۱۷ دسمبر ۱۹۶۵ کو وہ اتر پردیش کے ضلع سلطان پور کے ایک گاؤں بابر پور میں پیدا ہوئیں ۔ وہ ایک معزز اور تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اپنے بارے میں وہ لکھتی ہیں:
"سلطان پور کے دور افتادہ چھوٹے سے گاؤں میں جہاں گنگا جمنی تہذیب آج بھی زندہ ہے، ایک پرانی روح نے نئے خول میں جنم لیا۔ (۵۵)”

تعلیم اور پیشہ ورانہ مصروفیات

غزال ضیغم کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق رہا ہے۔ ان کی ڈگریاں اس بات کا ثبوت بھی ہیں۔ الہ آباد یونیورسٹی سے انھوں نے نہ صرف نباتات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی بلکہ قانون کی ڈگری کے ساتھ ساتھ ادب سے لگاؤ کی شکل میں اردو ادب میں بھی ایم۔ اے کیا۔ ان تمام ڈگریوں کے علاوہ غزال ضیغم نے پونہ فلم اور ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ سے فلم اپریٹیشن کورس مکمل کیا۔ ہندی رسالہ منورما (الہ آباد) کے شعبہ ادارت کا فریضہ بھی انجام دیا۔ آل انڈیا ریڈیو میں کینزول اناونسر (Casual Announcer) اور ڈرامہ آرٹسٹ کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔ غزال ضیغم کو افسانے اور ڈرامے لکھنا، انھیں اسٹیج کرنا اور آبی رنگوں سے تصویریں بنانے کا بے حد شوق ہے۔ وہ محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ اتر پردیش لکھنؤ میں فلم پروڈیوسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے متعدد ڈاکومینٹری فلمیں بھی بنائی ہیں۔

ادبی ماحول اور تخلیقی رجحانات

غزال ضیغم نے اپنے گھر کے ادبی ماحول سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا۔ اتنی ساری مصروفیات کے باوجود وہ ادب میں بحیثیت افسانہ نگار اپنی پہچان بنا چکی ہیں۔ غزال ضیغم بچپن سے ہی کہانیاں، نظمیں، مضامین ، ڈرامے اور سفرنامے لکھتی رہی ہیں۔ انھوں نے مشہور ادیبہ امریتا پریتم کے ناول ” ایک تھی سارہ“ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ دیگر تراجم بھی کیے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر وہ افسانہ نگار ہی ہیں اور انھیں شہرت بھی افسانہ نگاری کے عوض ملی ہے۔ غزال ضیغم اپنی ” تم کتھا“ میں اپنے ادبی شعور و شوق کے بارے میں لکھتی ہیں کہ تمام چیزیں انھیں وراثت میں ملی ہیں۔ بقول خود:
"زمیندار گھرانے میں میر انیس کے مرثیوں، نجم آفندی کے نوحوں، میر اور غالب کی غزلوں ، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی و کرشن چندر کے افسانوں کی فضا میں بچپن گزرا۔”
"باقی افسانہ نگار، بہنوئی شاعر، اباد داستان گوئی کے فن میں طاق ۔۔۔ (۵۶)”

افسانہ نگاری اور تہذیبی جڑوں کی تلاش

یہ تو تھی غزال ضیغم کے شوق اور فطری لگاؤ کی باتیں ۔ انھیں سب سے زیادہ لگاؤ افسانہ نگاری سے ہی رہا ہے جب انھوں نے افسانہ نگاری کی طرف توجہ کی تو اپنے افسانوں کے لیے اپنی تہذیب کی جڑوں کو تلاشنے کا کام کیا۔ اس کوشش میں غزال ضیغم نے کئی بہترین افسانے لکھے۔ تہذیبی اور ثقافتی جڑوں کی تلاش نے غزال ضیغم سے سور یہ ونشی چند رونشی جیسا شاہکار افسانہ لکھوایا۔ یہ افسانہ غزال ضیغم کے افسانوی مجموعہ ایک ٹکڑا دھوپ کا“ میں شامل ہے۔ یوں تو ان کی افسانہ نگاری کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہے۔ لیکن کم وقتوں میں ہی انھوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔

پہلا افسانوی مجموعہ: ایک ٹکڑا دھوپ کا

ایک ٹکڑا دھوپ کا غزال ضیغم کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو ۲۰۰۰ میں منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے میں کل تیرہ افسانے شامل ہیں۔ بھولے بسرے لوگ، سور یہ ونشی چند رونشی، آڈ نمبر ، بے دروازے کا گھر، جل پاک اندھیر پاک، نیک پروین، مدھوبن میں رادھیکا، زندہ آنکھیں مردہ آنکھیں ، فیڈ آوٹ فیڈ ان ” ایک ٹکڑا دھوپ کا، شکنتلا، مشت خاک، چراغ خانہ درویش وغیرہ۔ ان تمام افسانوں کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزال ضیغم کو اپنی تہذیب سے والہانہ لگاؤ ہے وہ بس اپنی روایتوں کی امانت داری کا فریضہ اپنے افسانوں میں کرتی ہیں۔

غزال ضیغم ایک ذی علم خاتون ہیں اور ان کا کینوس بھی قدرے وسیع ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ انتظار حسین سے متاثر ہیں لیکن نہ وہ ان کی تکنیک اپناتی ہیں اور نہ ہی دور از کار اساطیر سے اپنے افسانوں کو مزین کرتی ہیں۔ کھوئی ہوئی تہذیبی وراثت یا جڑوں کی تلاش ان کے کئی افسانوں کا منظر نامہ رہا ہے۔ اس پس منظر میں ان کے افسانے قابل لحاظ بن جاتے ہیں۔

افسانوی مجموعہ ” ایک ٹکڑا دھوپ کا گرچہ غزال ضیغم کی پہلی کوشش ہے تاہم اس میں چند عمدہ اور لا جواب افسانے بھی شامل ہیں جو مصنفہ کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ غزال ضیغم نے زیادہ تر سماجی مسائل،

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں