غزل ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے کی تشریح

غزل ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے کی تشریح | Ghazal "Tera Lab Dekh Haiwaan Yaad Aaway” ki tashreeh

غزل کی تشریح ۔۔
شاعر کا نام ۔۔۔۔۔ولی دکنی
تیار کردہ ۔۔۔۔منظور احمد
کتاب کا نام۔۔۔۔اردو شاعری.. کورس کوڈ 5607
پیج۔۔۔29………31


غزل ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے کی تشریح

3.4 غزل نمبر 4

ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے
ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے

ترے دو نین جب دیکھوں نظر بھر
مجھے تب نرگسستاں یاد آوے

تری زلفاں کی طولانی کوں دیکھے
مجھے لیل زمستاں یاد آوے

ترے مکھ کے چمن کے دیکھنے سوں
مجھے فردوس رضواں یاد آوے

تری زلفاں میں یو مکھ جو کہ دیکھے
اسے شمع شبستاں یاد آوے

تشریح۔۔۔۔۔۔

شعر نمبر 1

ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے

ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے

حیواں = اشارہ ہے ظلمت کے اس چشمے کی طرف جس کا پانی پینے سے مردہ بھی جی اٹھتا ہے۔

کنعاں = حضرت یوسف کی پیدائش کی جگہ۔

مکھ = چہر ہ ۔ منہ

شاعر کہتا ہے کہ جب میں ترالب شیرں دیکھتا ہوں تو مجھے فوراً آپ حیواں یاد آجاتا ہے۔ جس طرف ظلمات کے چشمے کا پانی یعنی آب بقا پینے سے زندگی مل جاتی ہے اسی طرح تیرے لب کی تاثیر سے مجھے حیات

ابدی حاصل ہو جائے گی۔ یہی حال تیرے حسین و جمیل چہرے کا ہے کہ اس پر نظر پڑتے ہی وہ اہم اور تاریخی شہر کنعاں یاد آجاتا ہے جہاں حضرت یوسف علیہ السلام جیسی خوبصورت ہستی جلوہ گر ہوئی تھی۔ ان ۔

تلمیحات کے پس منظر میں شاعر محبوب کے لب ورخسار کی تعریف و توصیف بیان کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ولی دکنی تعارف اور شاعری آرٹیکل pdf

شعر نمبر 2
تیرے دو نین جب دیکھوں نظر بھر
مجھے تب نرگستان یاد اوے

نین = آنکھ
نرگستان = وہ جگہ جہاں بہت سے نرگس کے پھول ہوں۔(شعر انرگس کے پھول سے) اسے محبوب کی آنکھ سے تشبیہہ دیتے ہیں۔

شاعر کہتا ہے کہ جب میں تری ان خوبصورت اور غزالی آنکھوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے وہ مقام یاد آجاتا ہے جہاں نرگس کے بے شمار پھول اگے ہوئے ہوں اور جن کی دلفر یہی آنکھون کی خیرہ کئے دیتی ہے۔ تیری آنکھیں بھی فی الحقیقت گلہائے نرگس کی مانند دلآویز و دلنشیں ہیں۔ یہاں شاعر نے محبوب کی آنکھ کو نرگس کے پھول سے تشبیہہ دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ولی دکنی کی غزل گوئی کی خصوصیات

شعر نمبر 3
تیرے زلفان کی طولانی کوں دیکھے
مجھے لیل زمستان یاد آوے

زلفاں = زلف
طولانی = در از

لیل زمستان = سر دیوں کی رات جو بہت طویل ہوتی ہے۔

شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب کی لمبی لمبی زلفوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے سردیوں کی طویل رات یاد آجاتی ہے جو کاٹے نہیں کٹتی۔ محبوب کے گیسو بھی طویل اور دراز ہیں کہ ہم اسے ماپنا چاہیں تو ماپ نہ سکیں۔ شاعر نے یہاں زلف کی رعایت سے لیل (رات) کا لفظ استعمال کیا ہے کہ دونوں کی نمایاں صفت سیاہی ہے۔ اور چونکہ سردیوں کی رات طویل ہوتی ہے لہذا محبوب کی زلف کولیل زمستاں سے تشبیہہ دی گئی ہے جس میں سیاہی بھی ہے اور درازی بھی۔

شعر نمبر 4

ترے مکھ کے چمن کے دیکھنے سوں
مجھے فردوس رضواں یاد آوے

شاعر کہتا ہے کہ جب میں تیرے خوبصورت چہرے کے رنگین و دلفریب چمن کو دیکھتا ہوں تو بہشت کا حسین باغ یاد آجاتا ہے۔ گویا حسن نکھار اور دلفریبی میں تیری شکل و صورت اور تیر ارخ زیبا باغ

فردوس سے کم نہیں۔ ولی نے محبوب کے حسن و جمال کی تعریف نہایت دلنشیں پیرائے میں کی ہے اس شعر میں حسن تغزل پوری طرح نمایاں ہے۔

شعر نمبر 5

تری زلفاں میں یو مکھ جو کہ دیکھے
اسےشمع شبستان یاد آوے

شبستاں = خلوت خانہ حرم سرا

شاعر کہتا ہے کہ تیری کالی کالی زلفوں کے درمیان تیرا روشن چہرہ دیکھ کر مجھے وہ شمع یاد آجاتی ہے جو اندھیری اور پر ہول رات میں خواب گاہ کے اندر فروزاں ہو۔ کالی کالی زلف اور روشن و منور چہرے کی اور پر را رعایت سے شمع شبستاں کی ترکیب استعمال کی گئی ہے جو اچھوتی ہے اور ولی کے فنکارانہ عظمت کا پتہ دیتی ہے۔

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں