موضوعات کی فہرست
تحریر از ڈاکٹر تحسین فاطمہ
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا: 9 اگست 2025
مقالہ نگار کا تعارف
ڈاکٹر تحسین فاطمہ ایک سنجیدہ، باریک بین اور باصلاحیت محقق ہیں جنہوں نے اردو ادب، بالخصوص تنقید کے میدان میں نمایاں علمی خدمات انجام دی ہیں۔
ان کا تحقیقی و تنقیدی انداز منفرد اور مدلل ہے، جو علمی معیار اور ادبی نزاکتوں کو یکجا کرتا ہے۔ بطور محققہ، وہ نہ صرف موضوع کے تہہ در تہہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں مہارت رکھتی ہیں بلکہ قاری کو فکری طور پر مائل بھی کرتی ہیں۔
ان کی تحقیق علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو میں پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین کی نگرانی میں مکمل ہوئی، جو علمی تحقیق میں ایک معتبر نام ہیں۔
غالب کی شاعری کے متعلق ہمارا تنقیدی رویہ
وارث علوی نے مرزا اسد اللہ خان غالب جیسے ہمہ جہت شاعر اور تخلیق کار کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جامع اور تفصیلی مضمون تحریر کیا۔ یہ مضمون علی گڑھ سیمینار شاہ فیصل میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر پڑھا گیا تھا۔
یہ مضمون دراصل پوری نقاد برادری کے احتساب کا گوشوارہ ہے جس میں سرسری اور عامیانہ انداز میں تعریف و توصیف کرنے والوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور ان منفی انداز فکر کے حامل ناقدین کا بھی تسلی بخش ذکر شامل ہے جنہیں غالب سے خدا واسطے کا بیر تھا۔
اول الذکر ناقدین میں حالی، شیخ اکرم اور بجنوری شامل ہیں۔ اگرچہ انھوں نے غالب کی شاعری کی شہرت میں اپنا حصہ ڈالا لیکن یہ حضرات کلام غالب کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے، مقام غالب کا تعین تو رہی دور کی بات!
جب کہ موخر الذکر ناقدین میں یگانہ چنگیزی، عبد الطیف، جعفر علی خان اثر، ڈاکٹر گیان چندر اور ممتاز حسین کے نام شامل ہیں۔ جنہوں نے اپنی دانست میں غالب کے پرزے اڑانے کی بھرپور کوشش کی۔
ان مذموم کاوشوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے وارث علوی نے ایسے تمام گروہوں کی نشاندہی بھی کی ہے جو اپنے محدود علم سے مخصوص عزائم پورے کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔
45 صفحات پر مشتمل اس مضمون کے آخر میں وارث علوی، غالب کی شاعری کے متعلق تنقیدی رویے کا خلاصہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
مجھے اس بات کا احساس ہے کہ غالب سے متعلق اکثر تنقیدی رویوں کو غلط ٹھہرانے کے باوجود میں نے کسی جگہ اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ خود میرا رویہ کیا ہے؟
شعر کے جمالیات کے متعلق میں نے اپنے تصورات کی الگ سے اظہار کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کی کہ اول تو یہ میرا موضوع نہیں تھا اور دوسرا اس لیے کہ اوروں کے تصورات کی چھان بین کے عمل کے دوران میں لامحالہ اپنے نقطہ نظر کی تھوڑی بہت وضاحت کی جائے گی۔
دراصل دوسروں کے حصار پر گولہ باری کسی Vantage Point کے بغیر ممکن نہیں اور گو اس مقام تفریق کو میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں لیکن اس پر کھڑے ہو کر میں کسی غلط قسم کے احساس برتری کا شکار ہونا نہیں چاہتا۔
میں نے کوشش کی ہے کہ غالب کے نقادوں کی طرف میرا رویہ ایماندارانہ اختلاف کا رہے۔ اگر کہیں کہیں اس اختلاف میں شدت آگئی ہے تو اس کا سبب نقادوں سے متعلق میرے احساس برتری کی بجائے غالب کے ساتھ میری وابستگی میں تلاش کرنا مناسب ہوگا۔
نقادوں سے میری کبیرگی اس وجہ سے نہیں کہ میں خود کو ان سے بہتر سمجھتا ہوں بلکہ محض اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے اپنے سے بہتر ایک بڑے دماغ کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
غالب پر جو غیر معمولی تحقیقی کام ہوا ہے اس کی گراں مائیگی کا میں قائل ہوں لیکن غالب پر جو تنقیدیں لکھی گئی ہیں ان کی کام مائیگی کا احساس روز بروز زیادہ ہوتا جاتا ہے۔
اگر میں چاہوں تو رواداری میں بہت سے ایسے نقادوں کے نام گنوا سکتا ہوں جنہوں نے اپنے مضامین کے ذریعے نہ صرف غالب کو مقبول بنانے میں بہت مدد کی بلکہ اس کی شاعری کی قدر و قیمت متعین کرنے کے بہتر معیار بھی پیش کیے۔
لیکن ان سب مضامین کو پڑھ کر بھی یہ احساس کسی طرح دور نہیں ہوتا کہ اردو میں غالب پر اچھے مضامین تو صرف دو ہی لکھے گئے ہیں، ایک حمید احمد خان کا مضمون "غالب کی شاعری میں حسن و عشق” اور دوسرا آفتاب احمد خان کا مضمون "نائب کا غم”۔
وارث علوی لکھتے ہیں:
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان دونوں صاحبان کی قدرو قیمت کا کوئی تیسرا نقاد ابھی تک تو ہم غالب کو نہ دے سکے۔ (٢٢)
مذکورہ اقتباس وارث علوی کی غالب سے جذباتی وابستگی کا واضح مظہر ہے۔ ان کا دعویٰ کافی حد تک درست ہے کہ غالب کے کام کے مقابلے میں غالب پر ہونے والا کام بہت کم ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ نظریہ ضرورت ہے۔ اکثر اساتذہ (پروفیسر) نے تدریسی ضروریات کے پیش نظر مدرسانہ اور طالب علمانہ نوٹس تیار کر کے انھیں کتابی شکل دے دی جن میں کاغذی پھولوں کے رنگ تو دکھائی دیتے ہیں مگر قدرتی پھولوں کی مہک محسوس نہیں ہوتی۔
جب کہ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ نقاد تخلیق کار پر غلبہ پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تخلیق کا سونا نقلی ثابت کرنے کے لیے اپنی تنقید کا لوہا منوانے کی الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں۔
کبھی تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو کبھی غالب کو —
حوالہ جات
مقالے کا عنوان: وارث علوی بطور نقاد
محقق: ڈاکٹر تحسین فاطمہ
نگران: پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین
یونیورسٹی: شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
سال: 2019
صفحات: 27
پروف ریڈر تحریر ماخوذ ہونے کے بعد: آینزہ سلیم بی ایس اردو ادب 7سمسٹر