غالب کی سادہ گوئی

کتاب کا نام۔۔۔ میر و غالب کا خصوصی مطالعہ ۔۔۔۔
کورس کوڈ ۔۔۔5612
موضوع ۔۔۔۔غالب کی سادہ گویی
صفحہ نمبر۔۔۔۔ 56..57
مرتب کردہ۔۔۔۔ الیانا کلیم 🌼

غالب کی سادہ گوئی

غالب بہت جلد اپنی سلامت طبع کی بدولت اس ابتدائی دور سے نکل آئے ۔ ان کے اردو کلام میں فارسیت کا وہ غلبہ نہ رہا۔ لیکن پھر بھی ان کے اسلوب بیان پر فارسی اثرات زیادہ نظر آتے ہیں دراصل ہر عظیم شاعر اپنے افکار کے اظہار کی خاطر ایک نئی زبان بناتا ہے۔ اور غالب نے جو زبان لکھی اس میں فارسی کی آمیزش زیادہ ہے اور بقول آل احمد سرور، غالب نے مروجہ زبان اس لیے استعمال نہیں کی کہ اس میں ان کے افکار کی چلبلی روح مقید نہیں ہو سکتی تھی۔ انھیں ایک معنی میں ایک نئی نئی زبان بنانی پڑی جس کے لیے انھوں نے بیدل اور دوسرے شعرا سے مدد لی۔

چنانچہ غالب کو اپنی شاعری کے لیے ایک زبان بنانا پڑی ، جس میں فاری کی رنگ آمیزی زیادہ تھی ۔ مرزا کا اردو کلام اسی فارسیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان کے اردو اشعار میں الفاظ ، تراکیب تشبیهات ، استعارات ، کنایات و محاورات سب پر فارسی کا گہرا اثر ہے۔ ان کے اردو کلام میں تو ایسے اشعار اور مصر سے بھی ملتے ہیں جن میں اردو الفاظ بہت کم استعمال ہوۓ ہیں مثلا۔۔
جراحت تحفہ الماس ارمغاں،داغ جگر ہدیہ
مبارکباد اسد غمحوار جان درد مند آیا

ہوائے سیر گل آیینہ بے مہری قاتل

کہ انداز بجون غلطیرن بسمل پسند آیا

زرہ زرہ ساغر مے خانہء نیرنگ ہے
گردش مجنوں بہ چشمک ہاۓ لیلی آشنا

غالب نے فارسی میں مروج بعض شاعری ساختوں کو بھی اردو میں بڑی کامیابی سے برتا ہے ساخت سے یہاں مراد جملہ بندی کے اصول ہیں۔ یعنی انہوں نے اردو میں فارسی جملے کی بعض ساختوں کو استعمال کیا ہے مثلاً ۔۔۔

جرقشیں اور کوئی نہ آیا بروئے کا
صحرا مگر بہ تنگئ چشمِ حسود تھا

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب

کہ دل دیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیا

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں