غالب کے ظریفانہ اظہار اور اود اس کی انفرادیت

کتاب کا نام ۔۔۔۔ میر اور غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ نمبر ۔۔۔۔ 5612
صحفہ نمبر ۔۔۔۔۔ 133 تا 135
موضوع ۔۔۔ غالب کے ظریفانہ اظہار
مرتب کردہ ۔۔۔ عارفہ راز

غالب کے ظریفانہ اظہار

کلام غالب کو عوام و خواص میں ان کی جن خوبیوں نے مقبولیت عطا کی ہے۔ ان میں طنز و مزاح یا طنز و ظرافت کو بڑا دخل ہے۔ طنز و مزاح یا طنز و ظرافت تحریر کی وہ صفتیں ہیں جو نثر و نظم دونوں میں پائی جاتی ہیں۔ طنز ومزاح صرف تحریر یا نثر و نظم تک محدود نہیں بلکہ وہ تقریر اور خطابت میں بھی پائی جاتی ہیں۔ جس طرح شعر گوئی کا تعلق طبع موزوں سے ہے یعنی اگر کسی کی طبیعت میں موزونیت موجود ہے تو وہ شعر کہہ سکے گاورنہ نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کے مزاج میں طنز ومزاح کی صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہے تو وہ طنزیہ اور مزاحیہ فقرے لکھ بھی سکے گا اور بول بھی سکے گا۔ ورنہ وہ طنز و مزاح کے سوا دل و دماغ کی اور خوبیوں کا مالک ہو سکتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جولوگ طنز و مزاح میں مہارت رکھتے ہیں وہ بڑے ذہین لوگ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ جن لوگوں میں طنز و مزاح کی صلاحیت نہیں ہوتی وہ ذہین نہیں ہوتے۔
مولانا حالی کی رائے

غالب کے بارے میں ان کے شاگرد رشید مولانا الطاف حسین حالی نے یادگار غالب (سوانح عمری اور تنقیدی جائزہ) میں لکھا ہے کہ انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے لیکن غالب حیوان ظریف واقع ہوئے تھے۔ یعنی ان کی طبیعت میں ظرافت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ حالی نے اگر غالب کی غیر معمولی ظریفانہ صلاحیت کا ذکر کرتے ہوئے ان کی طنزیہ صلاحیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غالب طنز یہ صلاحیت سے محروم تھے۔ دراصل طنز و ظرافت بڑی حد تک لازم و ملزوم صفات ہیں۔ اس کے باوجود دونوں میں بڑا فرق بھی ہے۔ دونوں کے مقاصد بھی مختلف ہیں۔

طنز جس کے معنی طعنہ دینے اور کچھ کے لگانے کے ہیں اس کا اصل مقصد کسی کی اصلاح کرنا ہوتا ہے اور ظرافت جس میں بننے ہنسانے کی بات ہوتی ہے اس کا مقصد انسان کو لطف ولذت بہم پہنچانا ہے۔ طنز تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس میں دل آزاری کا پہلو ہوتا ہے۔ اس میں انتقامی جذبے کو بھی دخل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ظرافت ایک تفریحی شے ہے۔ جب کوئی آدمی کسی کی حماقت یا بھول چوک یا پر لطف بے خبری پر ہنستا ہے اور اس طرح ہنستا ہے کہ اسے کوئی تکلیف یا شرمندگی نہ ہو تو اسے ظرافت کہتے ہیں۔

طنز و مزاح یا طنزر وظرافت کے فرق کو مزید واضح کرنے کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ کسی کوڈ نے کا نام طنز ہے اور کسی پر ہنسنے کا نام ظرافت تو ان دو لفظوں ( ڈسنے اور جتنے ) سے دونوں کا بنیادی فرق واضح ہو جاتا ہے۔
طنز اور ظرافت کی روایت اور غالب

غالب کی سوانح عمری اور ان کی شاعری کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی روزمرہ گفتگو، ان کے خطوط اور ان کی شاعری میں ظرافت بکھری ہوئی ہے۔ غالب سے پہلے بھی اردو شاعری طنز اور ظرافت سے بالکل خالی نہ تھی لیکن غالب سے پہلے اردو شاعری طنز اور ظرافت سے بالکل خالی نہ تھی لیکن غالب سے پہلے اردو شاعری میں طنز و ظرافت کا معیار اونچانہ تھا۔ غالب نے جس طرح ری شاعری کی سطح کو بلند کر دیا اسی طرح اُنھوں نے طنز و مزاح کی سطح میں بھی بلندی پیدا کر دی ۔ اول تو غالب سے پہلے طنز و مزاح کی طرف کوئی خاص توجہ نہ تھی۔ کہیں کہیں طنز و مزاح کے رکیک شعر مل جاتے ہیں۔ آدمی کسی کو گالی دے کر بھی اس کے جذبات کو مجروح کر سکتا ہے اور کوئی مخش بات کہہ کر یا کوئی مستحکہ خیز حرکت کر کے بھی کسی کو ہنسا سکتا ہے لیکن گالی پخش بات طنز یا مزاح کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی۔ مثلاً انشا کا ایک شعر دیکھیے جو صرف چنے ہنسانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ان کا ذریعہ معاش یہی تھا کہ وہ جس در بار اودھ کے ملازم تھے وہاں کے نواب حکمران کو تازہ لطیفے سنائیں۔ ان کا ایک شعر یہ ہے :

کو دا ترے آنگن میں کوئی دھم سے نہ ہوگا

جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں