غالب کا اسلوب تحریر

کتاب کا نام:اسالیب نثر اردو 2

صفحہ نمبر:69تا71

عنوان: مرزا غالب کا اسلوب تحریر اردو معلی کے تناظر میں۔۔۔ حصہ دوم

مرتب کردہ: ارحم

____🍃____

غالب کا اسلوب تحریر حصہ دوم

"ایک غدر کالوں کا ، ہنگامہ گوروں کا ، ایک فتنہ انہدام مکانات کا ، ایک آ فت وہال کی ایک مصیبت کال کی_ اب یہ برسات جمیع حالات کی جامع ہے آ ج اکیسواں دن ہے

آفتاب اس طرح نظر آ تا ہے جس طرح بجلی چمک جاتی ہے رات کو کبھی کبھی اگر تارے دکھائی دیتے ہیں تو لوگ ان کو جگنو سمجھ لیتے ہیں اندھیری راتوں میں چوروں کی بن آئ ہے کوئی دن نہیں کہ دو چار گھر کے چوروں کا حال نہ سنا جائے مبالغانہ سمجھنا ہزارہا مکان گر گئے سینکڑوں آ دمی جا بجا دب کر مر گئے گلی گلی ندی بہہ رہی ہے قصہ مختصر وہ ان کال تھا کہ مینہ نہ برسا آ ناج نہ پیدا ہوا یہ پن کال ہے پانی ایسا برسا کہ بوئے ہوئے دانے بہہ گئے جنہوں نے ابھی نہیں بویا تھا وہ بونے سے رہ گئے”۔
حوالہ متن!

مکتوب نگار کا نام : مرزا اسد اللہ غالب
مکتوب الیہ کا نام : میر مہدی مجروح

سیاق و سباق

تشریح طلب یہ اقتباس غالب کے جس خط سے لیا گیا ہے وہ میر مہدی مجرور کے نام ہیں مجروح غالب کے عزیز ترین شاگرد تھے جن لوگوں کے نام غالب نے کثرت سے خط لکھے ان میں ایک نام مجروح کا بھی ہے پیش نظر خط پیش نظر خط ۲۹ جولائی ۱۸۴۲ کام محررہ ہے
اس خط غالب نے مجروح اور میرن سے اپنی محبت کا تذکرہ کیا ہے اور محبت کی وجہ ان دونوں حضرات کا سید ہونا لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ تعالی عنہ کا غلام اور سادات کا معتقد ہوں اس میں تم بھی آگئے مہر محبت کی تو جیہہ کے بعدغالب نے موسم برسات کا حال لکھا اس اجمال کی تفصیل تشریح طلب پیراگراف میں موجود ہے۔

تشریح

غالب پیش نظر اقتباس میں اپنے عہد کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جنگ ازادی کے دوران مقامی لوگوں اور اور انگریزوں کے باہمی چپقلش نے نت نئے مصالوں کو جنم دیا انسانی زندگی اجیرن ہو گئی۔

معاشی حالات خراب ہو کر رہ گئے قحط پڑ گیا اب رہی سہی کسر موسم برسات نے پوری کر دی برسات کا آغاز ہوئے آج 21 دن گزر گئے بارش ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی سورج بادلوں کی اوٹ سے کبھی کبھار یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ایک آدھ لمحے کے بجلی چمکتی ہے رات کو اگر آسمان پر کوئی تارا نظر پڑے تو اس پر جگنو کا گماں گزرتا ہے
بادلوں کی چادر تنی ہے تاروں کے نہ ہونے سے اندھیروں کا راج ہے رات کی تاریخی میں چوروں کے مزے ہیں وہ لوگوں کے گھر لوٹتے پھرتے ہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ رات کو دو چار گھروں میں چوری نہ ہوتی ہو یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے برسات کی وجہ سے ہزاروں مکان گر گئے سینکڑوں لوگ منہدم مکانوں کے نیچے دب کر مر گئے لاکھوں کا نقصان ہوا گلیاں ندیاں بن کر بہر نکلی ہیں الغرض پہلے قید کی وجہ سے مخلوق خدا تنگ تھی اب بارش کی زیادتی سے پریشان ہے پہلے خشک سالی سے انا کی قلت پڑ گئی تھی اب پانی کی فراوانی سے کھیت میں دانے بہے نکلے جن لوگوں نے بوائی مکمل کر لی تھی وہ بھی پریشان ہیں اور جو بوائی نہ کر پائے وہ بھی خوش نہیں ایک کے بچے ہوئے گانے ضائع ہو گئے دوسروں کو بارش بوائے کی مہلت نہیں دے رہی

              (2)

مار ڈالا یار تیرے جواب طلبی نے اس چراغ کج رفتار کا برا ہو ہم نے اس کا کیا بگاڑا تھا ملک و مال جاہ و جلال کچھ نہیں رکھتے تھے ایک گوشہ گوشہ تھا جو چند مخلص وہ بھی نوا ایک جگہ فراہم ہو کر کچھ ہنس بول لیتے تھے کل سے مجھ کو میکش بہت یاد اتا ہے صاحب اب تم بتاؤ کہ تم کو کیا لکھوں وہ صحبتیں اور تقریریں جو یاد کرتے ہو اور تم کچھ بند نہیں اتی مجھ سے خط پر خط لکھواتے ہو آنسوؤں سے پیاس نہیں بجھتی یہ تحریر تلافی اس تقریر کی نہیں کر سکتی بہرحال کچھ لکھتا ہوں دیکھو کیا لکھتا ہوں

حوالہ متن

مکتوب نگار کا نام: مرزا اسد اللہ غالب

مکتوب الیہ کا نام: میر مہدی مجروح

سیاق و سباق

کو پیش نظر اقتباس مرزا غالب کے ہاتھ سے دیا گیا ہے خالد نے اس خط میں 1857 کی جنگ آزادی کے اثرات کا ذکر کیا ہے جو بعد مشرطی اور سماجی زندگی بھر مرتب ہوئے یہ پیراگراف خط کا ابتدائی حصہ ہے جس میں غالب نے احباب کی محافل کے درم بھرم ہونے پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے

تشریح

مجروح نے یقینا اپنی خط میں جواب کا تقاضا کیا ہوگا کیونکہ خط کا ابتدائی جملہ اس تقاضے کے اگر جا خطوں کے جواب لکھنے میں غالب بڑے مستعد واقع ہوتے تھے مگر 1857 کے ہنگامے نے ان کے قواعد ذہنی کو مہتمل کر دیا اور یوں وہ کوتاہ قلمی کا شکار ہو گئے اس سے ان کے مداح سے جواب میں غالب لکھتے ہیں کہ تمہاری جواب طلبی نے مار ڈالا اور ساتھ ہی فلک کج رفتار کا شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے اس ٹیڑھی چال چلنے والے آسمان کا کیا بگاڑا کہ اس کی گردش نے ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیا

ہمارے پاس نہ تو ملک کو مال تھا اور نہ ہی جاہ و جلال پھر اس کے ستم روانی کا ہم تو شکار ہوں ہم احباب تو مفلس دیے نوا تھے ایک جگہ باہر بیٹھ ہو کر ہنس بول لیتے تھے لیکن اس سے یہ بھی نہ دیکھا گیا اس نے ہمیں بکھیر کر رکھ دیا

غالب اپنے شاگرد میکش کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ مجھے کل سے بہت یاد آرہا ہے غالب کا یہ عزیز شاگرد جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہوا اور انگریزوں کی گولی کا نشانہ بنا ایسے غم و انداز کی کیفیت میں غالب مجروح سے سوال کرتے ہیں کہ تم ہی بتاؤں کہ میں ان حالات میں تمہیں کیا لکھوں کیوں کر لکھوں تم جن محفلوں کا تذکرہ کرتے ہو وہ اب نہیں رہی اب ان ایام گزشتہ کی یاد میں آنسوں بہہ جاتے ہیں مگر آنسو سے پیاس تو نہیں بجتی یعنی دکھ اور غم کی کیفیت کم نہیں ہوتی لیکن بڑھتی چلی جاتی ہے یہ خط مکالمہ زبانی کا بدل تو نہیں مگر لکھتا ہوں دیکھیے کہ کیا لکھتا ہوں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں