کتاب کا نام: میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ: 5611
صفحہ: 205 تا
موضوع: غزلیات میر
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
غزلیات میر
غزل (1)
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
1۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
مریض کو بچانے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی، بلکہ شعور اور دانائی کے سب نسخے مرض کو بڑھانے کا باعث ہوئے ، ہر دوا کا اثر جاتا رہا، جیسا کہ عاشق کا دعوی تھا کہ وہ دل کی بیماری کے ہاتھوں مرے گا ، اس کی پیش گوئی پوری ہوئی اور اس کا کام عشق کے ہاتھوں تمام ہوا۔
یہ غزل ایک نشاطیہ اسلوب کی غزل ہے۔ اس شعر میں بھی بین السطور ایک طرح کی مسرت چھپی ہوئی ہے جو عاشق کی ہٹ دھرمی اور اس کے روحانی و جسمانی رد عمل کی غماز ہے۔ عاشق نے ایک دعوی کیا تھا :
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
آج اس دعوی کی سچائی کا وقت آن پہنچا ہے، شوق ہر رنگ میں رقیب سرو ساماں ثابت ہوا ہے ، انسانی طب کا خاصا ہے کہ کبھی تو وہ ٹونے ٹوٹکے کے اثرات قبول کرتے ہوئے شفایاب ہو جاتی ہے اور بھی ہر طرح کا دو ادار و علاج میں فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے
بقول میر: نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھی دواؤں نے ہم کو ضرر کیا
غالب نے عاشقانہ ہٹ دھرمی ( جسے عرف عام میں اُستواری عہد بھی کہا جا سکتا ہے ) کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
میر کے شعر کا دوسرا مصرع پہلے مصرعے کی اذیت اور نشاط کو مزید بڑھاتا ہے، یہاں دیکھا اور آخر کے الفاظ نے ایسی ڈرامائیت پیدا کر دی ہے جو میر کے لہجہ استفہام اور تجاہل عارفانہ کا اچھا امتزاج ہے، ایک لہجے میں پڑھیے تو لگتا ہے یہ خود کلامی کا شعر ، ہے متکلم مایوس ہے
اور سوچ رہا ہے کہ میرے بچنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں اور یہ دل کا روگ میری جان لے کر ہی ملے گا ، دوسرے لہجے میں پڑھیے تو متکلم کسی دوسرے شخص سے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے چارہ گر کی بے بسی کا اظہار کر رہا ہے اور تیسرے لہجے میں پڑھیے تو متکلم اپنے معالج محبوب ، ناصح ، دوست احباب بلکہ تمام دنیا سے مخاطب ہے خم ٹھونکے کھڑا ہے اور اعلان کر رہا ہے کہ سچے عاشق اپنے وعدے کے پابند ہوا کرتے ہیں وہ آخر کار جان سے گزر جاتے ہیں ، وقت آخر شربت دیدار بھی جاں بخش ثابت نہیں ہوتا بقول میر :
با رہا گور دل جھنکالایا
اب کے شرط وفا بجا لایا
شعر میں حرف ن ، داورم کی تکرار نے جہاں موسیقیت پیدا کی ہے، وہیں تاکید کا ایک رنگ بھی نمایاں کیا ہے۔ میر کی اس غزل کی بحر بحر متقارب کے قریب ہے لیکن کچھ اصحاب اسے ہندی گیتوں کی بحر تصور کرتے ہیں، یہ بحر میر کی پسندیدہ بحروں میں ایک ہے۔
۲ ۔عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
جوانی کا زمانہ زندگی کی مشکلات کے باعث آنسو بہاتے گزر گیا ، بڑھاپے میں ہم نے تھک ہار کر آنکھیں بند کر لیں ، یوں مجھے رات بھر ہم جاگتے رہے اور صبح ہونے پر آرام کرنا چاہتے ہیں ۔
بقول میر :
پھرتے پھرتے عاقبت آنکھیں ہماری مند گئیں
سو گئے بے ہوش تھے ہم راہ کے مارے ہوئے
اسی مضمون کو غالب کے ہاں دیکھیے :
سودا کہتے ہیں :
کہوں تجھ سے میں کہ کیا ہے، شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
سودا کہتے ہیں:
تھا یہ جوانی فکر و تردد بعد از پیری پایا چین
رات تو کائی دکھ سکھ ہی میں صبح ہوئی آرام کیا
اس شعر میں میر کا تجربہ دونوں شاعروں سے ذرا سا مختلف ہے ایک تو انھوں نے اپنے عہد شباب کو رات سے
تعبیر کیا ہے ایک ایسی رات جس میں وہ اپنے آنسوؤں سے چراغاں کرتے رہے ہیں رو رو کر ، کاٹنے کی ترکیب جہاں زندگی کی مشکلات ، شاعر کی بے بسی اور بے چارگی کی دلیل ہے وہیں کثرت گریہ کی بھی ضامن ہے۔
بقول میر :
یا روئے یا رلائے اپنی تو یونہی گذری
کیا ذکر ہم صغیراں یاران شادماں کا
طے یہ ہوا کہ شباب کی ساری توانائی زندگی کی شب تاریک سحر ہونے میں بسر ہوئی ، موئے سیاہ ناطاقتی کے باعث موئے سپید ہوئے جوانی کی راتیں ہجر کی بے چینی ، رقابت کے خارزار ، فکر معاش کے بکھیڑوں اور اچھے دنوں کی حسرت میں آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئیں چنانچہ جس طرح رات کا تھکا ہوا مسافر اور مریض ناتوانی میں اپنا آپ چھوڑ دیتا ہے
اسی طرح ضعف اور کمزوری کے باعث یہ منتظر اور مجروح آنکھیں خود بخود بند ہوگئی ہیں ، اُنھیں نہ تاب انتظار ہے نہ حاجت نظارہ ، شاعر کا احساس تفکر اس کمزوری اور بے بسی کے عالم کو خود رحمی میں بدلنے کی بجائے ایک منطقی استدلال عطا کرتا ہے اور کہتا ہے جوانی کی رات جاگنے اور صبح آرام کرنے کے لیے بنائی گئی ہے ، صنعت حسن تحلیل کو بہت خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔
تک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا
۳ ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بد نام کیا
ہم مجبور اور عاجز لوگوں پر خود مختار ہونے کا الزام لگانا بڑی زیادتی ہے دراصل جوان کا جی چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے، مجبوری اور مختاری کے اس کھیل میں صرف ہماری رسوائی مقصود ہے سو ہم رسوا ہوئے ۔
اس شعر میں ایک وضع کی بے تکلفی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے۔ شعر کا مدار ناحق تہمت ، مختاری ، سو آپ کریں اور عبث بد نام کرنے کے افعال پر ہے، عرف عام میں یہ شعر مسئلہ جبر و قدر کی اس قدیم بحث کا غماز ہے جو تقدیر اور تدبیر کے مذہبی تصور سے بندھی ہوئی ہے۔
بقول میر درد :
انشا نے لکھا ہے :
وابستہ ہے ہمیں سے گر جبر ہے وگر قدر
مجبور ہیں تو ہم ہیں مختار ہیں تو ہم ہیں
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں