فورٹ ولیم کالج کی داستانیں

افسانوی ادب 1 صفحہ نمبر 14/17 فورٹ ولیم کالج کی داستانیں
*مرتب کردہ: الیانا کلیم

فورٹ ولیم کالج کی داستانیں

شاعری کی طرح اردو نثر کا آغاز بھی دکن سے ہوا ۔ وجہی کی سب رس (1635ء) دکنی ادب کا شاہکار ہے۔ شمالی ہند کی کئی مشہور داستانوں کے ابتدائی نسخے بھی دکن میں ملتے ہیں مثلاً سنگھاسن بتیسی اور داستان امیر حمزہ کے علاوہ تو تا کہانی بہار دانش وغیرہ شمالی ہندسے پہلے دکن میں ترجمہ ہو چکی تھیں ۔ ملکہ زمان و کام کندلا اور قصه گل و ہرمز کا تعلق بھی دکنی دور ہی سے ہے۔ لیکن یہ قصے چونکہ زبان و بیان کے لحاظ سے تشنہ تھے اس لئے انہیں وہ شہرت نہیں ملی جو انہی کی بنیاد پر ترجمہ یا تصنیف کی گئی شمالی ہند کی داستانوں کے حصے میں آئی۔

شمالی ہند میں اردو داستانوں کا آغاز ارتقا بالعلوم فورٹ ولیم کالج سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن چہار درویش کی مشہور داستان باغ و بہار فورٹ ولیم کالج سے قبل میر محمد عطا حسین خان تسکین نوطرز مرصع ” کے نام سے ترجمہ کر چکے تھے۔ مگر اس وقت تک چونکہ اردو نثر کو علمی درجہ نصیب نہ ہوا تھا اس لیے اردو نثر فارسی نثر کی تقلید میں مصنوعی اور پر تکلف تھی۔ یہی پر تکلف اسلوب ” نوطرز مرصع کے مترجم نے اپنایا تھا جب فورٹ ولیم کالج قائم ہوا تھا تو میر امن نے اس متن کو روزمرہ زبان کے محاورے میں ڈھال کر باغ و بہار کے نام سے پیش کیا۔ تحسین کی نوطرز مرصع کے بعد دوسری قابل ذکر داستان مہر چند کھتری مہر کی نو آئین ہندی ہے جو قصہ ملک محمد دیتی افروز کے نام سے مشہور ہے ۔ ڈاکٹر گیان چند کے مطابق سب سے پہلے صاف اور شستہ زبان مہر چند کھتری کی اس داستان میں ملتی ہے۔ تاہم وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ مہر انتشار پردازی کے

شہوار میر امن کا سردامن بھی نہیں چھو پاتے ۔ مہر کا اسلوب سادہ تو ہے لیکن اس میں ادبی چاشنی نہیں ہے۔ اردو کی مشہور داستانوں کا تعلق زیادہ تر فورٹ ولیم کالج سے ہے۔ یہ کالج چونکہ انگریز ملازمین کو اردو زبان سکھانے کے لئے قائم کیا گیا تھا اس لیے جہاں روز مرہ کی سادہ وصاف زبان لکھنے کی طرف توجہ دی گئی وہاں ایسی کتا بیں تصنیف و ترجمہ کروائی گئیں جو عام دلچسپی کی حامل ہیں ۔ اس حوالے سے قصہ و کہانی سے بہتر اور کون کی صنف ہو سکتی تھی ۔

فورٹ ولیم کالج میں جن داستانوں کے اردو ترجمے کیے گئے ان میں باغ و بہار ( میر امن ) کے علاوہ میرام داستان امیر حمزه ( خلیل علی خان اشک تو تا کہانی ” اور ” آرائش محفل” ( حیدر بخش حیدری ) اور مذہب عشق یعنی قصه گل بکاولی ( نہال چند لاہوری) کے علاوہ بینال چھپی (مظہر علی ولا ) سنگھا سن بیسی” کاظم علی جوان ) اور ” قصہ مادھوتل و کام کند لا (مظہر علی ولا والولال جی ) زیادہ مشہور ہیں
۔5- کالج سے باہر کی داستانیں

داستانوں کی مقبولیت سے متاثر ہو کر فورٹ ولیم کالج سے باہر جن لوگوں نے اس صنف کی طرف توجہ کی ان میں محمد بخش مہجور اور مرزار جب علی بیگ سرور قابل ذکر ہیں ۔ مہجور نے دو داستانیں انشائے گلشن نو بہار اور انشائے نورتن کے نام سے تصنیف کیں جب کہ مرزار جب علی بیگ سرور نے فسانہ عجائب، شگوفہ محبت، گلزار سرور اور شبستان سرور تصنیف کیے۔ لیکن ان کی شہرت کا دارو مدار فسانہ عجائب پر ہے جو میر امن کی باغ و بہار کے سادہ اسلوب کے مقابلے میں پر تکلف اسلوب میں لکھی گئی ۔ فخر الدین سخن نے ”فسانہ عجائب کے جواب میں سروش سخن اور جعفر علی شیون نے "سروش سخن” کے جواب میں طلسم حیرت ، لکھی یخن نے سرور سے اختلاف کرتے ہوئے مہذب الفاظ استعمال کیے تھے جب کہ شیون کا انداز خاصا جارحانہ تھا۔

خل الف لیلہ اس دور کی ایسی داستان ہے جسے ایک سے زیادہ مصنفین و مترجمین نے ترجمہ کیا لیکن زیادہ مشہور عبد الکریم کی الف لیلہ اور رتن ناتھ سرشار کی ہزار داستان ہیں ۔ الفہ لیلہ کی اصل بعض محققین عربی اور بعض فارسی قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اردو دان عربی فارسی یا سنسکرت کے بجائے انگریزی کے ذریعے اس داستان سے متعارف ہوئے ۔ انگریزی ادب میں یہ داستان فرانسیسی ادب کے ذریعے پہنچی تھی ۔ داستان امیر حمزہ کا اولین اردو ترجمہ خلیل علی خان اشک نے کیا تھا لیکن ان کے اسلوب میں سادگی کے باوجود بے ربطی اور کمی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی احساس نے دوسرے لوگوں کو بھی اس داستان کے ترجمے کی طرف مائل کیا ۔ مرزا امان علی خان لکھنوی نے قصہ امیر حمزہ کے نام سے فارسی سے اس داستان کو اردو کا جامہ پہنایا تو جا بجا حک و اضافہ سے کام لیا۔ جس کی وجہ سے ان کا ترجمہ اشک کے ترجمہ کے مقابلے میں زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ بعد ازاں جب منشی نولکشور کے نو لکشور پریس کے ترجموں کا دور شروع ہوا تو اس داستان میں اس قدر اضافے کیے گئے کہ ترجمہ تصنیف کا درجہ اختیار کر گیا۔ داستان امیر حمزہ اردو کی طویل ترین داستانوں میں سے ہے۔ اس داستان کے اگر چہ کل آٹھ دفتر بین لیکن صرف پانچویں دفتر طلسم ہوش ربا کی سات جلد میں ہیں جنہوں نے الگ سے اپنا مقام بنا لیا ہے ۔ ان سات جلدوں میں سے پہلی چار محمد حسین جاہ کی تصنیف کردہ ہیں جب کہ بقیہ جلد میں احمد حسین قمر نے تصنیف کی ہیں ۔ بعد ازاں کچھ اور لوگوں نے بھی اس میں اضافے کیے ہیں۔

داستان امیر حمزہ سے متاثر ہو کر محمد تقی خیال نے بوستان خیال” کے نام سے ایک ضخیم داستان فارسی میں تصنیف کی جس کے مختلف حصوں کا اردو ترجمہ مختلف اوقات میں مختلف لوگوں نے کیا لیکن خواجہ امان کا ترجمہ زیادہ مشہور ہے۔جس طرح زوال دہلی کے بعد اہل کمال کا مجمع در بار لکھنو کی طرف متوجہ ہو گیا تھا اس طرح 1858ء کے بعد جب لکھنو کی سلطنت ختم ہوئی تو اہل کمال رام پور کی طرف متوجہ ہوئے ۔ رام پور میں اگر چہ بے شمار داستانیں تصنیف ہوئیں لیکن چند ایک کے سوا سب قلمی اور غیر مطبوعہ ہیں اس لیے اردو کے اکثر قارئین ان سے ناواقف ہیں ۔ رام پوری داستانوں میں حید ر مرزا کی ” گلستان مقال "” اور نشی غلام رضا کی ظلم باطن ہوش رہا ، قابل ذکر ہیں جو داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا کی تقلید میں تصنیف کی گئیں۔

6- داستانوں کی اہمیت

اردو داستانیں اور دو نثر کے تدریجی ارتقاء کی آئینہ دار ہیں۔ ان داستانوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اردو نشر کس طرح پاؤں پاؤں چلتی ہوئی ارتقاء کی منزلیں طے کرتی چلی گئی ” سب رس” کی زبان خاصی گنجلک اور بوجھل ہے۔ نوطرز مرصع کی زبان "سب رس” کے مقابلے میں بہتر ہونے کے باوجود فارسی آمیز ہے۔ فورٹ ولیم کالج کی داستانیں ایک خاص مقصد کے تحت لکھی گئیں ۔ ” باغ و بہار کی زبان آسان اور روزمرہ کے مطابق ہے ۔ یہی حال آرائش محفل” اور دیگر داستانوں کا بھی ہے ۔ اگر چہ ان میں بھی کہیں کہیں قافیہ اور عربی و فارسی تراکیب مل جاتی ہیں لیکن ان کے اسلوب میں فطری پن زیادہ ہے۔ انشا کی رانی کلیکی کی کہانی عربی و اسے خالی ہے ۔ ” سلک گوہر غیر منقوط ہونے کی وجہ سے قابل فہم نہیں رہی لیکن ‘ رانی کھیکی کی فارسی کے الفاظ کہانی کی طرح اردو نثر میں ایک انوکھا تجربہ ضرور ہے۔ فسانہ عجائب“ چونکہ ” باغ و بہار کے جواب میں لکھی گئی اس لئے لکھنوی معاشرت کے تکلف اور تصنع کی آئینہ دار ہے اس میں شمع وقافیہ کی بھر مار ہے اس کے باوجود اس کا اسلوب بھی مقبول ہوا ۔ ” سروش سخن کی عبارت رنگین و شگفتہ ہے جب کہ طلسم حیرت میں ضلع جگت کی بھر مار ہے ۔ ” داستان امیر حمزہ ” اور ” بوستان خیال” کے تراجم میں ہر طرح کی انشا کے نمونے ملتے ہیں۔ چنانچہ ان داستانوں کے مطالعہ سے نہ صرف اسلوب میں تبدیلی کا علم ہوتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کا عام مذاق کیسا تھا کیونکہ جیسا ذوق ہوتا ہے ویسا ہی اسلوب مقبول ہوتا ہے۔

تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی کے لحاظ سے بھی داستانوں کی خاصی اہمیت ہے ۔ نہ صرف طبع زاد بلکہ ترجمہ شدہ داستانوں میں بھی دہلی اور لکھنو کی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔ ترجمہ شدہ داستانوں میں کردار تو عرب و فارس یا کسی اور نا دیدہ ملک کے ہیں لیکن ان کا رہن سہن اور طور طریقے ہندوستانی ہیں ۔ شکنتلا مادھونل کامکندلا – بتیال پھی“ اور ”سنگھاسن بتیسی میں قدیم ہندوستان کا دو مالائی عہد سانس لیتا نظر آتا ہے۔ جب کہ باغ و بہار سروش سخن اور گل بکاولی“ وغیرہ میں مغل بادشاہوں کی دہلوی تہذیب اور فسانہ عجائب” طلسم حیرت داستان امیر حمزہ وغیرہ میں لکھنوی بادشاہوں کے عہد کے مسلمانوں کی معاشرت کے نمونے ملتے ہیں۔

دہلوی اور لکھنوی زبان و تہذیب کی بہترین نمائندگی باغ و بہار“ اور ”فسانہ عجائب میں ملتی ہے۔ اگلے یونٹ میں آپ ان دونوں داستانوں کا مطالعہ کریں گے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں