فردوس پریں کی کردار نگاری
جاندار اور پُراثر کردار کی تخلیق کسی بھی ناول نگار کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتی۔ کمزور پلاٹ اور کہانی کی کمی کو کافی حد تک ایک جاندار کردار پورا کر سکتا ہے۔
موضوعات کی فہرست
فردوس بریں میں حسین اور زمرد کے علاوہ بھی کئی ذیلی کردار ہیں، جیسے: منقو خان، ہلاکو خان، بلغان خاتون، خور شاہ، اور سب سے بڑھ کر شیخ علی وجودی، جو فرقۂ باطنیہ کا روحِ رواں ہے۔ کرداروں کی تشکیل اور پیشکش میں ناول نگار نے فنی چابک دستی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ شرر کا تعلق اردو ناول نگاروں کی اُس نسل سے ہے جنھوں نے داستان سے براہِ راست اثر قبول کیا۔
یہ بھی پڑھیں: عبد الحلیم شرر اور ناول فردوس بریں | pdf
یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں خیر و شر کی تقسیم بہت واضح ہے۔ ہیرو اور ولن کا تصور یہاں بہت نمایاں ہے۔ ہیرو اچھائی اور ولن برائی کی علامت ہوتا ہے۔ ہیرو کٹھن مراحل سے گزرتا ہے، ولن اسے بار بار زچ کرتا ہے، لیکن بالآخر کامیابی ہیرو کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فردوس بریں کا خلاصہ مکمل تفصیل
حسین
حسین اس ناول کا مرکزی کردار ہے، جو زمرد سے بے پناہ عشق کرتا ہے۔ وہ اس کی خواہش پر گھر سے حج کے لیے نکلتا ہے، اس بات سے بے خبر کہ زمرد کس ارادے سے اسے اپنے ساتھ لے جارہی ہے۔ پورے ناول میں حسین ایک عاشق کے طور پر نمایاں ہے۔
اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف زمرد کا حصول ہے، اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس کی ثابت قدمی پورے ناول میں دیدنی ہے۔ زمرد کے غائب ہوجانے کے بعد وہ اس کی قبر پر مجاور بن کر بیٹھ جاتا ہے،
اور تب تک وہاں سے نہیں اٹھتا جب تک زمرد کی طرف سے غائب سے آنے والے خطوط کا سلسلہ شروع نہیں ہوجاتا۔ زمرد کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے وہ فرقۂ باطنیہ کے رہنما، شیخ علی وجودی، سے ملتا ہے۔
شیخ علی وجودی بلاشبہ ایک شاطر اور ذہین کردار ہے، جو انسانی نفسیات سے کھیلنا خوب جانتا ہے۔ وہ حسین کی مجبوری سے آگاہ ہے، سو وہ زمرد سے ملاقات کی قیمت پر اُسے مشہور عالم، امام نجم الدین، کے قتل پر آمادہ کرتا ہے۔ اس دوران شیخ اور حسین کے درمیان گہرے مکالمے بھی ہوتے ہیں۔ حسین کے ذہن میں جگہ جگہ شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں،
لیکن اُسے روک دیا جاتا ہے۔ زمرد سے اگلی ملاقات اور اس کے بیان کردہ حالات کے بعد، اور اپنی اندرونی کشمکش کے نتیجے میں حسین اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جس سازش کا وہ حصہ بن رہا ہے، وہ سب غلط ہے۔ اپنی نادانی کے باوجود حسین ایک متحرک کردار ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی سے گزرتا ہے۔
وہ ایک طاقتور کردار کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ زمرد سے بے پناہ محبت کے باوجود اُس کا شعور مفلوج نہیں ہوتا، بلکہ وہ جابجا اس کا استعمال کرتا ہے، صحیح اور غلط کو پہچانتا ہے، اور فرضی جنت و دوزخ اور فرقۂ باطنیہ جیسے فتنہ کی بیخ کنی میں کردار ادا کرتا ہے۔
زمرد
زمرد اس ناول کا دماغ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اعصابی طور پر سب سے مضبوط کردار ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اپنی متانت اور قوتِ ارادی کی بنا پر وہ آغاز سے ہی قاری کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس کی حسین سے محبت کسی بھی شک و شبہے سے بالا ہے،
لیکن وہ گھر سے صرف محبت کے لیے نہیں نکلی، بلکہ اپنے بھائی موسیٰ کی پر اسرار گمشدگی کا راز معلوم کرنے کے لیے نکلی ہے۔ وہ اپنے بھائی کے دوست یعقوب کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے کوہ البرز کی پہاڑیوں میں اس کی قبر تلاش کر لیتی ہے۔
اسی دوران پریوں کا ایک غول آتا ہے، جسے دیکھ کر وہ دونوں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ جب حسین کو ہوش آتا ہے تو زمرد غائب ہوتی ہے؛ وہ فرقۂ باطنیہ کی بنائی جنت میں پہنچ چکی ہوتی ہے۔
وہاں سے وہ حسین کو خطوط لکھ کر رہنمائی کرتی ہے، اور یوں اس فتنے کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے۔ زمرد، باوجود اس جنت میں موجود ہونے کے، اپنے حواس پر قابو رکھتی ہے۔ وہ جس مشن پر گھر سے نکلی تھی، اُس میں کامیابی حاصل کرتی ہے۔
حسین جب جذباتیت کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ اُسے صبر کی تلقین کرتی ہے۔ پورے ناول میں کہیں بھی زمرد کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ "فردوس بریں” میں موجود ہوتے ہوئے بھی اُس کی حکمتِ عملی مشکوک نہیں ہوتی۔ شیخ علی وجودی سے حسین کی ملاقات بھی زمرد کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
وہ حسین کو فرقۂ باطنیہ کا کارندہ اس لیے بنواتی ہے تاکہ کسی کو اُس کے مقصد پر شک نہ ہو۔ وہ ایک ماہر جاسوس کی طرح دشمنوں کے درمیان رہتی ہے، اور جب مکمل معلومات حاصل کر لیتی ہے تو بلغان خاتون کو خط لکھتی ہے، جو اپنے بھائی ہلاکو خان کے ذریعے فردوس بریں پر حملہ آور ہوتی ہے، اور ملحدین کا قلع قمع کر دیا جاتا ہے۔
شیخ علی وجودی
شیخ علی وجودی ناول کا تیسرا اور سب سے اہم کردار ہے۔ وہ فرقۂ باطنیہ کا روحِ رواں، انتہائی ذہین، شاطر اور علم والا شخص ہے۔ وہ فقہ، مذہب، اور قرآن و حدیث کی گمراہ کن تعبیریں کرکے سادہ لوح افراد کو اپنے چنگل میں پھنساتا ہے۔ جب حسین اُس سے پہلی بار ملتا ہے تو وہ اُس کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ شیخ کچھ یوں گفتگو کرتا ہے:
"اے بحرِ وجود اور دریائے وحدت کے ذلیل اور ناپاک قطرے! تیرا کیا حوصلہ ہے کہ اس وجودِ غیر موجود اور لاہوتِ غیر متنوع کے معنی سمجھ سکے۔”
یہ گفتگو حسین جیسے سادہ انسان کے لیے ناقابلِ فہم ہوتی ہے، اور وہ اسی الجھن میں شیخ کی راہ پر چل پڑتا ہے۔
شیخ قتل کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور اپنے خفیہ کارندوں کو دلیلوں کے سحر میں مبتلا رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کے ماننے والوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے اس نے ان کے جوابات پہلے ہی تیار کر رکھے ہوتے ہیں۔
حسین کئی بار شیخ کے سامنے احتجاج کرتا ہے، لیکن شیخ ہمیشہ اُسے اپنے جلال اور مدلل گفتگو سے قائل کر لیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر، آخری وقت میں یہی شیخ نہایت بزدل ثابت ہوتا ہے۔ وہ شخص جس نے کئی علما کو قتل کروایا، موت کے سامنے گڑگڑاتا ہوا نظر آتا ہے۔
ان تین مرکزی کرداروں کے علاوہ کوئی بھی کردار ایسا نہیں جو دیرپا اثر چھوڑ سکے۔ کردار لمحہ بھر کو آتے ہیں، تعارف کراتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ باطنیوں میں شیخ کے سوا خور شاہ کا کردار موجود ہے،
مگر وہ علی وجودی کے برعکس بہت بے جان ہے۔ البتہ بلغان خاتون ایک یاد رہ جانے والا کردار ہے، جو اپنے بھائی ہلاکو خان کی مدد سے فرقہ باطنیہ کا خاتمہ کرتی ہے۔ زمرد اور بلغان گو کہ زنانہ کردار ہیں، مگر اپنی دانائی اور قوتِ فیصلہ کے باعث مرد کرداروں سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
پروف ریڈر [طیبہ]
حواشی
موضوع: فردوس بریں کے کردار،کتاب کا نام: اردو داستان اور ناول: فنی اور فکری مباحث،کورس کوڈ: 9011،صفحہ نمبر: 129 تا 132،مرتبہ: فاخِرہ جبین