افسانوی ادب ۔۔۔۔1
صحفہ نمبر ۔۔۔۔۔ 72 تا 74
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔۔ عارفہ راز
فردوس بریں کا خلاصہ
فردوس بریں کا قصہ مختصر یوں ہے کہ شہر آمل کا ایک نوجوان حسین اپنی منگیتر زمرد کے ساتھ حج کرنے کی نیت سے گھر سے روانہ ہوا۔ دونوں کا ارادہ تھا کہ وہ قزوین پہنچ کر عقد نکاح کر لیں گے ۔
جب وہ طالقان کے پہاڑوں میں پہنچے تو زمرد نے اصرار کیا کہ وہ اپنے بھائی موسی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جائے گی جو ان پہاڑوں میں گھری ایک وادی میں پریوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
دونوں موسی کی قبر ڈھونڈتے ہوئے اس وادی میں جا نکلے انہوں نے قبر ڈھونڈ لی اور فاتحہ پڑھی۔ اس دوران شام ڈھل چکی تھی وہ دونوں ابھی موسی کی قبر پر ہی موجود تھے کہ اچانک پریوں کا ایک قول نمودار ہوا جسے دیکھ کر دونوں بے ہوش ہو گئے۔
حسین کو ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی لیکن زمرد وہاں سے غائب تھی ۔ اس نے اسے وہاں ہر طرف تلاش کیا مگر کہیں نہ پایا۔ موسی کی قبر پر نظر پڑی تو اسے اس میں کچھ تبدیلی نظر آئی اور ساتھ ہی کتبے پر موسی کے ساتھ زمرد کا نام بھی لکھا نظر آیا ۔
اس نے جان لیا کہ زمرد مر چکی ہے اور موسی کے ساتھ قبر میں دفن کر دی گئی ہے ۔ زمرد کی ناگہانی موت اس پر غم کا پہاڑ بن کر ٹوٹی ۔ اور وہ اس کی قبر کا مجاور بن کرو نہیں رہنے لگا۔
اسی حالت میں اسے چھ ماہ گزر گئے وہ اس بات کا منتظر رہا کہ کہیں پھر سے پریوں کا غول دکھائی دے اور پریاں اسے بھی زمرد کے پاس پہنچا دیں ۔
لیکن اس کا یہ انتظار ہے سو درہا۔ آخر ایک دن زمرد کی قبر پر اسے ایک محط پڑا ملا جو زمرد کی طرف سے تھا اور اس میں اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے وطن واپس جائے اور عزیز رشتے داروں کو زمرد کی
معصومیت اور موت کی خبر دے اور اس کی پاکدامنی کا یقین دلائے کیونکہ ان کے الزامات اسے دوسری دنیا میں بے چین رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ زمرد نے لکھا کہ وہ جس جگہ ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے وہ پریوں کی سیر گاہ ہے لیکن چونکہ ابھی حسین کی زندگی کے دن پورے نہیں ہوئے ۔
اس لئے پریاں اس سے اپنی سیر گاہ خالی کرانے کے لئے اسے قتل بھی نہیں کر سکتیں انہوں نے اس طرف کو آنا چھوڑ دیا ہے۔ حسین یہ خط پڑھ کر بھی وہاں قیام پذیر رہا۔
ایک ماہ بعد اسے دوسر الخط ملا جس میں زمرد نے اس سے شکایت کی تھی اور اسے ہدایت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر وہ اس سے ملاقات کا آرزومند ہے تو اس کے لئے بڑی سخت آزمائشوں سے گزرنا ہوگا ۔
اس کی قبر کا مجاور بن کر بیٹھنے سے وہ اپنی مرادنہیں پا سکتا بلکہ اس کے لئے اسے کوہ جودی کے اس مقدس غار میں جا کر چلہ کشی کرنی چاہیے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ریاضت کی تھی ۔ اس کے بعد وہ شہر خلیل کے تہہ خانوں میں جا کر چلہ کشی کرے جہاں حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کے جنازے رکھے ہوئے ہیں اور پھر شہر حلب میں پہنچ کر شیخ علی وجودی کے مریدوں میں شامل ھو کر ان کا حکم بجالائے۔
حسین نے زمرد کے اس مخط پر عمل کیا اور ان تمام مراحل سے گزر کر شیخ علی وجودی کے پاس جا پہنچا۔ وہ گیارہ ماہ شیخ کی خدمت میں رہا جس نے اسے فرقہ باطنیہ کا مکمل پیروکار اور معتقد بنا دیا ۔
جب وہ اپنے شیخ کی اطاعت کے ذریعے فنانی شیخ کے مرتبہ پر پہنچ گیا تو اسے اپنے چا اور اس زمانے کے مشہور عالم باعمل شیخ نجم الدین نیشا پوری کو قتل کرنے کا حکم ملا۔ اس مذموم کام کی تکمیل پر حسین کو بطور انعام فرقہ باطنیہ کی جنت ( فردوس بریں ) کی سیر کرائی گئی جہاں وہ زمرد سے بھی ملا۔
فرقہ باطنیہ کی جنت کی سیر کے بعد جب وہ دوبارہ طلب پہنچا تو اسے امام نصر بن احمد کے قتل کا حکم ملا۔ اپنے اپنے شیخ کے کہنے پر اس جرم قبیح کا ارتکاب کیا اور پھر زمرد سے ملنے کی آرزو کی ۔
شیخ علی وجودی کی لے کر وہ ایک بار پھر قلعہ الموت پہنچا جہاں وہ زمرد سے فردوس بریں میں ملاقات سے پہلے باطنیوں کے امام و مقتدا سے ملا تھا اس مرتبہ حسین کی بیتابی و بے قراری نے باطنیوں کے امام رکن الدین خور شاہ کو برہم کر دیا اور اسے قلعہ الموت سے باہر نکال دیا گیا۔
حسین مایوسی کے عالم میں پھر زمرد کی قبر پر جا بیٹھا۔ ایک ماہ بعد اسے وہاں زمرد کے دو خط ملے ایک خط اس کے نام تھا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ دوسرا خط کھولے بغیر تاتاریوں کی شہزادی بلغان خاتون تک پہنچائے ۔
بلغان خاتون چنگیز خان کے بیٹے چغتائی خان کی بیٹی تھی جسے باطنیوں نے قتل کر ڈالا تھا۔
حسین زمرد کا خط لے کر بلغان خاتون کے ہاں قراقرم جا پہنچا اور خط بلغان خاتون کو پہنچا دیا۔ زمرد نے خط میں لکھا تھا کہ اس کے باپ کا قاتل قلعہ الموت میں باطنیوں کی فردوس بریں میں عیش کر رہا ہے ۔ وہ اگر زمرد کی ہدایات کے مطابق عمل کرے تو اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لے سکتی ہے۔
شاہزادی بلغان اپنے چازاد منقو خان جو تاتاریوں کا خاقان تھا سے اجازت لے کر پانچ سو سواروں کے ساتھ قلعہ الموت کو روانہ ہوئی اور اپنے بھتیجے ہلاکو خان کو پیغام بھیج کر مرد کیلئے پہنچے کو کہا۔
رود با دالموت میں پہنچ کر شہزادی اپنے تین آدمیوں کے ہمراہ حسین کی رہنمائی میں زمرد کی قبر پر گئی جہاں اسے پہلے خط کی ہدایات کے مطابق زمرد کا ایک دوسرا خط ملا جس میں فرقہ باطنیہ کی جنت تک پہنچنے کا راستہ بتلایا گیا تھا۔ شہزادی اس خط کی ھدایات پر عمل کرتے ہوئے حسین کے ساتھ جنت میں جا پہنچی زمردان کی منتظر تھی ۔ شہزادی فردوس بریں کے رستے میں مختلف
مقامات سے اپنے تین ساتھیوں کو واپس بھیجتی رہی تھی تا کہ وہ باقی سپاہیوں کو لے کر ان کے پیچھے پہنچ سکیں ۔ زمرد نے انہیں فرقہ باطنیہ کے تمام فریب اور ان کی مصنوعی جنت کے رازوں سے آگاہ کیا حسین یہ سب
جان کر حیران رہ گیا ۔ اسی دوران حلا کو خان بھی اپنے ساتھ ایک بڑا لشکر لے کر شہزادی کے سپاہیوں سے آملا تاتاریوں کے ٹڈی دل نے قلعہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ہلاکو خان اپنے پانچ ہزار سپاہیوں کے ساتھ باطنیوں کی جنت میں داخل ہوا ۔ زمرد کی رہنمائی میں وہ محل سرا کے راستے قلعہ الموت میں پہنچ گئے قلعہ میں عید کا جشن منایا جا رہا تھا ۔
تاتاری ان پر عذاب الہی بن کر نازل ہوئے اور ان کا حملہ اسقدر اچانک تھا کہ قلعہ بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہو گیا ۔ ہلاکو خان کے حکم سے باطنیہ کے تمام قلعے مسمار کر دیئے گئے ۔ ان کا امام و مقتدا رکن الدین خور شاہ کو گرفتار کر کے بحر خزر کے پار ترکستان کے علاقے میں بھجوا دیا گیا اور اس طرح یہ فتنہ عظیم اپنے انجام کو پہنچا۔ زمرد اور حسین کی شادی ہو گئی اور وہ دونوں فریضہ حج ادا کرنے کے بعد اپنے وطن میں کچھ وقت گزارنے کے بعد باخان خاتون کے پاس قراقرم چلے گئے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں