فسانہ آزاد میں لکھنوی معاشرت کی عکاسی
"فسانہ آزاد” کو ”رتن ناتھ سرشار“ کی بے مثال تخلیق کہا جاتا ہے۔ اس کو اردو ناول کی روایت میں ایک نیاموڑ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس ناول پر بات کرنے سے پہلے تھوڑا سا تعارف ناول نگار کا حق بنتا ہے۔
اس ناول کو جتنی شہرت حاصل ہوئی اور اس پر جتنا لکھا گیا اتنی توجہ رتن ناتھ سرشار کو نہیں دی گئی۔ اس لیے ڈاکٹر قمر رئیس سرشار کے حالات زندگی کو تشنہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن جو حالات زندگی اب تک سامنے آئے ہیں ان کا ذکر اختصار کے ساتھ کیسے دیتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں: رتن ناتھ سرشار ایک مطالعہ | pdf
رتن ناتھ سرشار کا خاندان کشمیر سے آکر لکھنو میں آباد ۔ ان کی تاریخ پیدائش بھی اختلافات کا شکار ہے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری کے خیال میں سرشار ۱۸۴۷ – ۴۸ میں پیدا ہوئے (۱) ۔
جب کہ ڈاکٹر قمر رئیس ۱۸۴۵- ۴۶ کو سن پیدائش قرار دیتے ہیں (۲)۔
سر شمار کے والد پنڈت بیج ناتھ کشمیری برہمن تھے اور کاروبار کے سلسلے میں لکھنو آکر آباد ہو گئے۔ سر شار لکھنو میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی والد کا انتقال ہو گیا اور والدہ نے ان کی تربیت کی۔
انہوں نے اس عہد کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کیننگ کالج لکھنو میں داخلہ لیا لیکن تعلیم مکمل کیے بغیر کالج چھوڑ دیا اور ضلع کھیری میں ملازمت اختیار کر لی۔
یہ بھی پڑھیں: رتن ناتھ سرشار اور ناول فسانہ آزاد | pdf
اس زمانے میں اردو زبان میں کئی مزاحیہ اخبار شائع ہو رہے تھے۔
انہوں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ تصنیف اور ترجمے کا کام شروع کر دیا۔ ان کے مضامین کی شہرت سن کر منشی نول کشور نے “ اودھ اخبار ” کی ادارت کی ذمہ داری انہیں سونپ دی۔ سہیل بخاری کے خیال میں انہیں یہ ملازمت ڈائریکٹر تعلیمات کی سفارش سے ملی (۳)۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ملازمت ان کی اہلیت پر ملی یا سفارش پر ۔
اسی اخبار کی ادارت کے دوران انہوں نے فسانہ آزاد لکھنا شروع کیا۔ ۱۸۷۸ سے ۱۸۷۹ تک یہ ناول اودھ اخبار میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ ۱۸۸۰ میں یہ ناول چار ضخیم جلدوں میں مطبع نول کشور سے شائع ہوا۔ ”فسانہ آزاد “کے علاوہ سر شار کے زیادہ تر معروف ناول اس اخبار میں شائع ہوئے۔
”فسانہ آزاد“ کے چھ ماہ بعد سرشار نے ”فسانہ جدید“ (جو نظر ثانی کے بعد جام پسرشار کے عنوان سے شائع ہوا) جولائی ۱۸۸۰ سے دسمبر ۱۸۸۰ تک اودھ اخبار کے ہفت وار ایڈیشن کے ساتھ بطور ضمیمہ شائع ہو تا رہا۔
۱۹۸۷ میں پنڈت مادھو سنگھ کے مشورے پر سرشار نے اس ناول کو از سر نو ترتیب دیا اور ۱۸۸۸ میں ”جام سرشار “کے عنوان سے شائع کرایا۔ ”فسانہ جدید“ اور”جام سرشار“ میں واقعات، کہانی، کردار اور پلاٹ کا بہت فرق ہے اس لیے اسے الگ ناول بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس کی بنیاد فسانہ جدید بنا اس لیے ناقدین کی اکثریت اسے ایک ہی ناول شمار کرتے ہیں۔
اس ناول میں تین بگڑے رئیس زادوں کی کہانی ہے۔ کہ کسی طرح عیش و عشرت میں پڑ کر انہوں نے اپنی حالت عبرت ناک بنا لی۔
فسانہ جدید کے خاتمے کے وقت سرشار نے قارئین کی پر زور فرمائش پر ”فسانہ آزاد“ کی طرز پر تیسرا ناول "فسانہ لطافت”, بار سیر کہسار ” تصنیف کیا۔ یہ ناول بھی اودھ اخبار میں قسط وار شائع ہوتارہا اور ۱۸۹۰ میں دو جلدوں میں طباعت پزیر ہوا۔
اس ناول کی تصنیف سے پہلے ہی سرشار اودھ اخبار کی ایڈیٹر شپ سے الگ ہو گئے تھے اس لیے اس ناول کے واقعات اور پلاٹ پر زیادہ توجہ دی گئی۔ اس ناول میں بھی ایک ایک رئیس نواب عسکری کی عیش پرستی اور جنس زدگی کو پیش کیا ہے۔
۱۸۹۰ کے بعد سرشار کا اودھ اخبار سے تعلق ختم ہو جاتا ہے اور وہ اپنا اگلا ناول "کامنی ” کے عنوان سے ہی ”گھوش ایند کمپنی“ ، لکھنو کے لیے لکھتے ہیں۔ پہلے تین ناولوں میں سرشار نے زیادہ تر مسلم معاشرت کی عکاسی کی۔ ایک طبقہ ان سے ہندو معاشرت کی عکاسی کا تقاضا کر رہا تھا۔
انہوں نے وقت ، قاری اور پبلشر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندو تہذیب و معاشرت میں راجپوتوں کو کہانی کا موضوع بنایا۔
کامنی کے بعد ۱۸۹۴ اسے ”خمکدہ “سر شار نامی رسالے میں ہر پندرہ روز بعد سرشار کا ایک مختصر ناول شائع ہونے لگا۔ ستمبر ۱۸۹۴ سے نومبر ۱۸۹۴ تک ان کے پانچ ناول ” کڑم دھم، بچھڑی ہوئی دلہن، پی کہاں ، ہشو، طوفان بے تمیزی ” سامنے آئے۔
اس کے بعد سر شار حیدر آباد تشریف لے گئے۔ قیام حیدر آباد کے دوران انہوں نے ایک ناول گور غریباں کے عنوان سے لکھا جو باوجوہ سامنے نہیں آسکا (۴) حیدر آباد کے قیام کے دوران مہاراجہ کشن پرشاد نے دو ادبی پرچے دبد بہ آصفی اور محبوب الکلام شروع کیے جن کی ادارت کی ذمہ داری سر شاد کو دی گئی۔
دبدبہ آصفی میں "چنچل نار ” کے عنوان سے ایک ناول مہاراجہ کے کشن پر شاد کے نام سے قسط وار شائع ہونا شروع ہوا۔ سرشار اور مہاراجہ کے تعلقات خرابی کی وجہ سے اس ناول کی اشاعت روک دی گئی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یہ ناول بھی سر شار لکھ رہے تھے۔
سرشار کی وفات کے بعد یہ ناول مہاراجہ نے امیر مینائی کی مدد سے مکمل کیا اور شائع کرایا۔ سر شار بے حد ذہین ، صاحب مطالعہ ، اور خوش طبع انسان تھے۔ زندہ دلی ، آزاده روی، وسیع المشربی، شوخی اور بانکپن ان کے مزاج میں شامل تھا۔ یہی سب خوبیاں ان کے ناولوں میں روح کی طرح سرایت کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔
شر شار کی زندگی بے اعتدالی اور مالی پریشانیوں کا شکار رہی۔ مے نوشی میں کوئی اعتدال نہیں تھا۔ یہی مے نوشی ان کی زندگی کے خاتمے کا باعث بنی اور یہ عظیم ادیب ۱۹۰۲ میں محض ۵۵ یا ۵۶ سال کی عمر میں اس دنیا کو چھوڑ کر پر لوک سدھارا ۔
رتن ناتھ سرشار متنوع تخلیقی جہات کی حامل شخصیت تھے۔ وہ ناول نگار ، شاعر ، مضمون نگار ، اور مترجم کی حیثیت سے اردو ادب میں منفر د مقام رکھتے ہیں۔ یہاں صرف ان کے ایک ترجمے کا ذکر کرنا ضروری ہے جو ان کی ناول نگاری میں بہت اہم مقام رکھتا ہے ،
خاص طور پر فسانہ آزاد پر اس ترجمے کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سپینش ناول نگار میگوئل ڈی سروینٹس کے ناول کا ڈان” سکوکرئنٹ” "(۱۲۰۵) کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جو "خدائی فوجدار” کے عنوان سے شائع ہوا۔
یہ حقیقت سب ناقدین اور اردو ادب کے قارئین نے تسلیم کی ہے کہ تمام تر ناول اور تراجم کے باوجود جو شہرت ان کے ناول "فسانہ آزاد ” کو ملی وہ ان کی اور کسی تصنیف کو نصیب نہیں ہوئی۔
اگلے صفحات میں فسانہ آزاد کے موضوع، فن، تخلیقی محرکات اور اثرات کو زیر بحث لایا جائے گا۔ سرشار اردو کے پہلے ناول نگار ہیں جنہوں نے ناول نگار ہونے کا دعوی کیا اور اپنی تصنیف کو ناول لکھا۔ جیسے کہ کہا جا چکا ہے کہ یہ اودھ اخبار میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔
جلد ہی اس کی مقبولیت کے پیش نظر ضمیمہ کی صورت میں شائع کیا جانے لگا۔ ابتدا میں ان اقساط کا کوئی عنوان نہیں ہوتا تھا۔ دسمبر ۱۸۷۹ میں اس کے لیے ناول "آزاد فرخ نہاد ” لکھا جانے لگا۔
۱۸۸۰ میں جب اسے شائع کرنے کا ارادہ کیا گیا تو موزوں اور مناسب نام (عنوان) کی تلاش شروع ہوئی۔ اخبار میں با قاعدہ مناسب عنوان کے لیے اشتہار دیا گیا اور قارئین سے مدد مانگی گئی۔ یوں تجویز کردہ ایک عنوان میں معمولی ترمیم کے بعد "فسانہ آزاد ” کا عنوان دیا گیا اور شائع ہونے والی اقساط کو بھی موضوع کی مناسبت سے عنوانات دیے گئے۔
اس ناول کو شعوری طور پر ناول کہا گیا اور سرشار نے جلد سوم کے دیباچے میں اسے ایشیائی طرز کے دیگر افسانوں سے مختلف اور انگریزی ناولوں کے ڈھنگ پر لکھا گیا ناول قرار دیا۔ سر شار نہ تو کوئی اصلاحی ناول لکھنا چاہتے تھے نہ تاریخی ناول اور نہ ہی وہ ناول کے ذریعے سماجی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔
اور یہ ناول بھی اخبار کی ترسیل کو بڑھانے کی غرض سے لکھا گیا۔ اس لیے سماجی ناول ہی ان تقاضوں کو پورا کر سکتا تھا۔ کیونکہ نذیر احمد کے اصلاحی ناول مسلمانوں کے ایک خاص طبقے کو مد نظر رکھ کر لکھے گئے تھے۔ آزاد کا دائرہ فرد نہیں سماج تھا اس لیے ان کے ناول کا کینوس وسیع ہے۔
اور چونکہ یہ کسی خاص پلاٹ کو ذہین میں رکھ کر نہیں لکھا گیا تھا، اور اس کی مقبولیت کے پیش نظر طوالت بھی دی گئی اس لیے ناول کے روایتی فنی معیارات کو بھی مد نظر نہیں رکھا گیا۔
فسانہ آزاد پر دو بڑی تصانیف کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ ایک کا ذکر کسی حد تک کیا جا چکا ہے اور وہ ہے سروانٹس کا ناول ڈان سکو کرئنٹ ۔ اور دوسرا اثر ان پر رجب علی بیگ سرور کی تصنیف "فسانہ عجائب ” کا نظر آتا ہے۔
"ڈان سگو کرنٹ” سے انہوں نے فسانہ آزاد کا موضوع اور تخلیق میں مدد لی جب کہ فسانہ عجائب نے ان کی زبان پر گہرے اثرات مرتسم کیے، جو فسانہ آزاد میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے تو سرشار نے رچرڈسن فیلڈنگ، ڈکنس، اور تھیکرے کے انگریزی ناولوں کا بھی مطالعہ کیا ہوا تھا اور ان ناولوں کے اثرات بھی فسانہ آزاد پر آئے۔
اس لیے فسانہ آزاد کی ابتدائی اقساط پر نہ صرف ان ناولوں کے اثرات نظر آتے ہیں بلکہ یوں احساس ہوتا ہے جیسے انہوں نے کوئی با قائدہ منصوبہ بندی کے بغیر ڈان کو سکہ منٹ کے کرداروں ڈان سکوکرئنٹ اور سانکو پانزا” کی طرز پر “ میاں آزاد اور خوجی ” دو کردار بنائے اور اسی طرز میں موضوعاتی مضامین لکھنا شروع کر دیا۔ ان مضامین میں لکھنوی تہذیب کے مختلف عناصر کو پیش کیا گیا۔
لوگوں کا خیال یہ تھا کہ دس بیس مضامین کی اشاعت کے بعد یہ سلسلہ رک جائے گا۔ مگر سرشار کے پیش نظر شاید یہ ناول کا ہی آغاز تھا۔ جس طرح انہوں نے کردار بنائے اور جس طرح ان کرداروں کو لے کر چلے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آزاد کے ذہن میں شروع سے ہی دونوں کرداروں کا خاکہ موجود تھا۔
ابتدائی طور پر اگر قارئین کی پسندید گی شامل نہ ہوتی تو شاید یہ سلسلہ منقطع ہو جاتا مگر جس طرح پہلی قسط میں کرداروں اور مختلف سماجی طبقات کی زندگی اور دلچسپیوں کو پیش کیا گیا ہے اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں انگریزی ناول کے فن کا علم تھا اور دوسرا وہ اس طرز پر ناول ہی لکھنا چاہتے تھے۔
ابتدائی کچھ مضامین کے بعد انہوں نے ڈان سکو کرئنٹٹ کے اثرات سے جان چھڑالی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ڈان سکو کرئنٹٹ ابتدائی صنعتی عہد کی تخلیق ہے جب جاگیر دارانہ نظام اور صنعتکارانہ نظام کی کشمکش شروع ہو چکی تھی اور سماج اس کشمکش سے متاثر ہو رہا تھا۔
اس کے مقابل فسانہ آزاد کا زمانی ، مکانی اور تہذ یبی دائرہ کار ڈان سکوکرئنٹ کے عہد سے بالکل مختلف تھا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سرشار جلد ہی ڈان سکوکرئنٹ کے داستانی اور تخیلاتی دنیا کے اثر سے باہر لکھتے ہیں اور اپنے عہد کی زندگی کی زیادہ حیقیقی اور کچی تصویر سامنے لاتے ہیں۔
پروف ریڈر(شانزہ مشعل)
حواشی
موضوع ✨✨۔فسانہ آزاد کی تخلیق اور لکھنوی معاشرت کی عکاسی
کتاب کا نام ۔🍀🍀🍀اردو داستان اور ناول فنی فکری مباحث
کورس کوڈ⚡⚡⚡⚡ 9011
صفحہ🌿 ۔96تا 100
مرتب کردہ 🪶🪶🪶🪶فاخرہ جبین