فسانہ عجائب کا خلاصہ اور فنی و فکری جائزہ

فسانہ عجائب کا خلاصہ اور فنی و فکری جائزہ | Fasana e Ajayab Ka Khulasa Awar Jaiza

فسانہ عجائب کا متنی تجزیہ

فسانۂ عجائب “ کل بتیس (32) فصلوں پر مشتمل داستان ہے۔ پہلی پانچ فصلیں داستان کے متن کا حصہ نہیں ہیں، اس طرح آخری تین فصلیں بھی داستان کے متن میں شامل نہیں ہیں۔

فصل چھ (6) سے فصل انتیس (29) تک داستان کا متن ہے، جبکہ ابتدائی پانچ فصلیں حمدیہ ، نعتیہ ، مدح در غازی الدین حیدر ( والیٔ لکھنو) ، کیفیتِ شہر بے نظیر لکھنو اور وجہ تالیف "فسانہ عجائب ” پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح آخری تین فصلیں "فسانہ عجائب ” کی تو اریخِ تكمیل کے پس منظر كے بیان میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: باغ و بہار اور فسانہ عجائب کا تنقیدی مطالعہ | pdf

عمومی طور پر داستان کی ہر فصل مکمل ماجرے کا تاثر دیتی ہے۔ بعض فصلیں گذشتہ فصل کے ماجرے سے پیوستہ ہیں۔

فسانہ عجائب کا فنی تجزیہ

”فسانہ عجائب “ اپنے متن، کرداروں، داستانوی فضا اور اسلوب کے حوالے سے کم اور ” باغ و بہار“ کی سادگیٔ زبان کے حوالے سے زیادہ زیر بحث لائی جاتی ہے۔ اردو کے نامور مدوِّن رشید حسن خان نے ”باغ و بہار“ کی طرح اس كے متن کو بھی مدوَّن کیا ہے، اور ڈاکٹر قمر جہاں نے ”فسانہ عجائب“ کے انتخابِ متن کی بنیاد پر نہایت عمدہ ملخَّص تیار کیا ہے۔ داستان کی طوالت اور طالب علموں کی تدریس کے پیش نظر ڈاکٹر قمر جہاں کا ملخَّص نہایت اہم ہے۔

” فسانہ عجائب “ اپنی کہانیوں،کرداروں، داستانوی فضا، مقفَّى ومسجَّع اسلوب، جزئیات نگاری اور مقامی زندگی کی تخیلاتی پیشکش کے حوالے سے نہایت اہم داستان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فسانہ عجائب کا تعارف مختصر نظر

فسانہ عجائب کا خلاصہ

”فسانہ عجائب “ انسانی رویّوں، زندگی کی مشکلات اور ان کے حل، اعتقادات و تصورات اور رنگینی و آسائشات کا عمدہ نمونہ ہے۔

اتفاق کی بات ہے کہ داستان کا آغاز ”باغ و بہار“ کی طرح اولادِ نرینہ کی خواہش سے ہوتا ہے۔ مگر یہ خواہش باغ و بہار کے بر عکس داستان کے شروع میں ہی پایۂ تکمیل پاتی نظر آتی ہے۔

جان ِعالم وہ اولاد ِنرینہ ہے، جس کی خواہش اس کے باپ فیروز بخت نے کی۔جانِ عالم کی پیدائش کے وقت نجومیوں سے پوتھیاں نکلوائی گئیں ، اور یوں آنے والے تمام خطرات سے بر وقت بادشاہ کو آگاہ کر دیا جاتا ہے۔

یہاں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ہندوستانی ثقافت میں نجومی اپنے علوم کی بنیاد پر کتنے معتبر تصور ہوتے تھے کہ مسلمان بادشاہ اور امرا بھی ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے ، اور ان کے بنائے گئے زائچوں پر مکمل یقین رکھتے تھے۔

فیروز بخت(بادشاہ) کے ہاں جب ساٹھویں من میں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو نجومیوں اور رمَّالوں کی باہمی مشاورت اور زائچہ سازی کے بعد اس کا نام جانِ عالم تجویز کیا جاتا ہے۔

جان عالم روایتی طور پر خوبرو اور حسن ور عب کا پیكر ہے۔ نجومیوں نے پیش گوئی كی كہ جانِ عالم اپنے پندرھویں سن میں ایک پکھیرو کی وساطت سے دیس بدیس کشٹ کا ٹتا ہوا اور منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا آخر کار گوہر مراد پا کر واپس راج پاٹ پر حکمرانی کرے گا۔

اس پیش گوئی نےہر باپ کی طرح فیروز بخت کو بھی پریشان کر دیا، مگر ہنوز دلی دور است کے مصداق فیروز بخت جان عالم کی شہزادوں جیسی روایتی تربیت پر جت گیا۔ شہزادہ جان عالم دن دگنی اور رات چوگنی افزائش کے ساتھ ذہنی و جسمانی نمو پانے لگا۔

چودھویں سن تک پہنچتے پہنچتے جانِ عالم ان تمام صلاحیتوں میں یکتا ہو چکا تھا، جو ایک شہزادے اور مستقبل کے بادشاہ کے لیے ضروری تھیں۔ دستورِ زمانہ اور بادشاہی روایت کے مطابق اسی برس جان عالم کی شادی تجویز ہوئی۔

جان عالم کی شادی شاہی روایات اور اقدار کے مطابق ماہ طلعت سے بخیر و خوبی انجام پائی۔ بعد از شادی و ملاپ شہزادہ اجازتِ شاہی سے سیر و سیاحت اور شکار کے لیے عازم ہوا۔ دوران مہم ایک پیرِ نحیف سے سبز پوش اور حسن و گفتار میں یکتا تو تا خرید ا، یہاں سے نجومیوں کی پیش گوئی کا آغاز ہوا۔

تو تا محل میں آتے ہی اپنی گفتار اور کہانیوں سے جانِ عالم کی جان بن گیا۔ شہزادے کی غیر موجودگی میں توتا ماہ طلعت کے سپرد ہوتا۔

ادھر ماہ طلعت پہلے ہی اس توتے سے نالاں اور ناخوش ، ادھر ایک دن بارہ سنگھار کیے توتے سے اپنے حسن کے بارے میں پوچھ بیٹھی، تو تا اپنی تمام تر سمجھداری اور کہانی ساز ہونے کے باوجود ماہ طلعت کے حسن کی وہ تعریف نہ کر سکا جو ماہ طلعت سننا چاہتی تھے۔ یوں جان عالم کے آتے آتے تو تے اور ماہ طلعت میں خوب ٹھن چکی تھی۔

جان عالم کے آتے ہی دونوں نے شکایات کیں، جان عالم کے لیے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، ایک طرف بیوی اور دوسری طرف عقلمند توتا۔آخر کار جان عالم نے روایتی شوہروں کی طرح بیوی کو توتے کی کم عقلی اور ماہ طلعت کے حسن کے بے مثال ہونے کے دعوے کیے۔

مگر آئینے میں بال آچکا تھا، اس بحث میں توتے نے جان عالم کو دنیا کی خوبرو حسینہ انجمن آراء کے حسن کی اطلاع دی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ شہزادہ منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا ایک دن اس بقعۂ نور تک پہنچ جائے گا۔ یہ الگ بات کہ اس گوہر ِمراد کے حصول میں کیا کیا بلائےناگہانی دیکھنی پڑیں گی۔

داستان کے روایتی طریقہ کار کے تحت شہزادے کے دل و دماغ میں اس حسنِ جہاں کو پانے کا جذبہ اور تجسس کو پابہ زنجیر لانے کا جذبہ ، دونوں جذبات نے باہم مل کر شہزادے کو عازم سفر کیا۔ سفر پر دیگر تو شۂ سفر کے ساتھ ساتھ، وزیر زادہ ( جو کہ شہزادے کا ہم نوالہ تھا) ہم راہ ہوا۔

پہلے مرحلے میں ایک نا مختتم اور سرسبز و دلر با دشت سے واسطہ پڑا اور یہیں سے جادو نگری اور طلسمات کا در کھلا۔ شہزادے اور وزیر زادے دو ہرنوں کے تعاقب میں جدا ہوئے اور پھر یہ جدائی داستان کے بیشتر سفر میں جاری رہی۔

ہرن کے تعاقب میں شہزادہ طلسم زدہ ہوا اور پھر اسی طلسم کے زیر اثر ایک سبز عمامہ پوش درویش سے ملاقات ہوئی۔ وقتی طور پر شہزادے کو ر اہ راست ملی، مگر پھر ایک طویل سلسلہ بلائے ناگہانی جاری رہا۔

اس دشت میں ساحرہ ( جن کی بیٹی) سے ملاقات ہوئی، اور اس سے نہ چاہتے ہوئے بھی تعلق کی استواری ہوئی ، ساحرہ کے سحر سے شہزادہ درویش کے بتائے ہوئے اسم كے ذریعے آزاد ہوگیا۔ ساحرہ کے سحر سے آزادی تو ملی، مگر ساحرہ نے اسے دل پرلے لیا اور ہمیشہ کے لیے شہزادے کو قابو کرنے کے جتن کرنے لگی۔

شہزادہ وہاں سے جان چھڑوا کر اپنے نصب العین کی طرف رواں دواں تھا کہ راستے میں ملکہ مہر نگار آن پڑی۔ مہر نگار کا حسن، محبت اور صحبتِ خوش گوار نے جان عالم کو عارضی طور پر اپنے سفر سے دور کر دیا۔ مگر شہزادہ جانِ عالم چند دن کی عیش کوشی کے بعد اگلے سفر پہ بضد ہوا۔

مہر نگار نے آخر کار شہزادے کی محبت کے آگے ہتھیار ڈال دیا اور وعدۂ فردا پر اسے آگے جانے کی اجازت دے دی۔ ملکہ مہر نگار کے کہنے پر شہزادہ ملکہ کے والد بزرگوار سے ملا اور والد بزرگوار کی خوشنودی لے کر اور لوح خاص لے کر عازم سفر ہوا۔ادھر شہزادہ ملکہ مہر نگار سے دور ہو تا رہا، ادھر ملکہ ہجر ِہم جنس میں تڑپتی رہی۔

غرض شہزادہ منزلوں پر منزلیں مارتا، ایک روز چار گھڑی دن زر نگار ملک کے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ایک نئی مصیبت تیار کھڑی تھی۔ پورا ملک اور شہر ، خاموش، اداس اور عالم سوگ میں ہے۔ شہزادہ گرتا پڑتا اور عالم بے خبری میں مقرب خاص بادشاہِ زرنگار سے ہمکلام ہوا۔

اس مقرب خاص خواجہ سرا محبوب علی خان نے پورا ماجرا کہہ سنایا، پتہ چلا کہ شہزادے کی آمد سے قبل ایک جادو گر شہزادی زرنگار کو اٹھا کر لے گیا۔ جس کی وجہ سے پوری سلطنت سیاہ پوش ہے۔

جان عالم کو فورًا زر نگار کے والدِ گرامی سے ملوایا گیا۔ شہزادے کی محبت اور کشٹ سے بادشاہ زرنگار بہت متاثر ہوا، مگر بیٹی کے غم میں نڈھال بادشاہ اس مسافر شہزادے کو مزید مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ مگر شہزادہ جان عالم اب منزل کے اتنے قریب آکر خالی ہاتھ کیسے لوٹ جاتا۔ لہذا اپنے مستقبل کے خسر ِنامدار کو راضی کرنے میں دیر نہ لگائی۔

غرض انجمن آراء شہزادی زر نگار کو جادوگر کے قبضے سے چھڑوانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ قافلہ تیار ہوا۔ زادہ راہ تیار کیا گیا۔ سمت کا تعین ہوا اور رات بمشکل کاٹنے کے بعد صبح دم شہزادہ اپنی شہزادی زرنگار کو جادو گر سے چھڑوانے کی مہم پر روانہ ہوا۔

جادو گر نے شہزادی کو قبضے میں رکھنے کے لیے آگ کے قلعے کا جادوئی حصار قائم کر رکھا تھا۔ جانِ عالم تیرو تلوار سونتے آگ کے قلعے پر پہنچا تو یکایک آگ سے ہرن نکلا۔ جان عالم کو پیرِ مرد کا دیا ہوا اسم اور لوح یاد آئی، اسم پڑھ کر ایسا تیر مارا کہ ہرن دو پاش ہوا اور ساتھ ہی آگ کا قلعہ گردو غبار میں ڈھل گیا۔

اگلے مرحلے میں ایک اور معلق قلعہ نظر آیا جو زمین سے چار گزاوپر لٹکا ہوا۔ اسی لمحے شہزادے نے لوح دیکھی، تو یاد آیا کہ لوح کو قلعے کی دیوار سے چپکانا ہے، شہزادے نے لپك کر لوح قلعے سے لگائی تو نہ قلعہ رہااور نہ کوئی دیوار ، ریت کا ٹیلہ سرکنڈوں سے اٹا ہوا نظر آیا اورشہزادی پژمردہ سی نظر آئی۔

غرض جان عالم اور جہاں آرا کا پہلا ملاپ ہوا۔ ادھر ہر کارے دوڑے دوڑے بادشاہ زرنگار تک پہنچے ہر طرف مبار کیں، سلامتیں، اور نذر نیاز کا دور چلا۔ بادشاہ سپاہِ خاص کے ساتھ موقع پر پہنچا، بیٹی اور مسافر شہزادے کو گلے لگا یا اور خوشی خوشی محل روانہ ہوئے۔

پورا ملک انجمن آرا کی بازیابی اور جانِ عالم کی بہادری کی خوشی میں لہکنے لگا۔ قدرت کے فیصلے اٹل، محل میں پہلے سر گوشیوں میں اور پھر با آواز بلند جانِ عالم اور انجمن آرا کے دائمی ملاپ و وصل کی باتیں ہونے لگیں۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، بادشاہ اور ملکہ زرنگار یہی چاہتے تھے۔

غرض رسمی رکاوٹوں اور شرم و حیا کے حیلوں کے بعد شادی طے ہو گئی۔ شہزادوں اور شہزادیوں کے ملاپ کے مروجہ طریقوں کے مطابق شادی ہوئی اور جان عالم اور انجمن آراء یک جان دو قالب میں ڈھل گئے۔

کچھ دن تو وصل کے مزے لینے اور دنیا ومافیا سے بے خبر رہنے کا سلسلہ جاری رہا، مگر جان عالم آہستہ آہستہ واپسی کے سفر کے بارے میں سوچنے لگا۔ یہ اطلاع کہ جانِ عالم واپس اپنے وطن جانا چاہتا ہے، بادشاہ اور ملکہ پر برق بن کر گری۔ لاکھ کوشش کی کہ جان عالم کو ہی اپنا ولی عہد بنا کر بادشاہی اس کے حوالے کریں۔ مگر جان عالم بیگانی بادشاہی کو کیوں لیتا، اس کی اپنی بادشاہی اس کے انتظار میں تھی۔ آخر کار بادشاہ اور ملکہ زر نگار نے ہار مانی اور بیٹی اور داماد کو جانے کی اجازت دی۔

پھر قافلے تیار ہوئے اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ادھر جب سے جان عالم مہر نگار کو چھوڑ کرآیا تھا۔ وہ اپنے شہزادے کے انتظار میں تڑپتی اور سلگتی تھی، قدرت نے اس کی سن لی۔ واپسی کے سفر میں جانِ عالم کا قافلہ ملکہ مہرنگار کے دیس میں پڑاؤ پذیر ہوا۔

ملکہ تک خبر پہنچی۔ گویا ملکہ خزاں سے بہار ہوئی۔ نکاح ہوا اور شہزادہ ایک شب انجمن آرا اور ایک شب ملکہ کے ساتھ گزارتا۔ کچھ زمانہ وہاں گزرا اور پھر جان عالم نے وطن کی طرف واپسی کی طرف کا ڈھول پیٹیا۔

اسی پڑاؤ میں وزیر زادہ، بھولتا بھکتا آن پہنچا۔ وزیر زادے کی آمد جان عالم کے لیے خوشی کا پروانہ ہوئی۔ مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ قدرت نے کچھ اور لکھ رکھا ہے۔ وزیر زادہ آیا تو انجمن آرا کو دیکھ کر شیطانی وسوسے کا شکارہوا، اور اس کے حسن کو دیکھ کر حیلے بہانے سوچنے لگا۔

ایک دن موقع پا کر دغا باز نے دغا کیا اور جان عالم کو عالم مدہوشی میں دیکھ کر جان عالم کے بتائے اسم اور جادو کے ذریعے جان عالم کی جان جنگل میں موجود مردہ بندر میں ڈال دی اور اپنی جان، جان عالم میں ڈال کر اپنی ہوس مٹانے کو بے تاب ہوا۔ اب جان عالم بندر بنا اور وزیر زادہ جان عالم۔

اس کا یا کلپ نے داستان کو نیا رخ دے دیا۔ وزیر زادہ جان عالم کے روپ میں جب انجمن آرا اور مہر نگار کے پاس پہنچا، تو ان دونوں کو حرکات و سکنات سے شک گزرا۔

ادھر جان عالم بندر کے روپ میں پہلے ایک چڑی مار شکاری اور پھر ایک نامور سوداگر کے پاس پہنچا۔ غرض کئی دفعہ قتل ہوتے ہوتے بچا۔

اب بندر اپنی نامور تقریر کے ذریعے علم و دانش کا منبع ٹھہرا۔ادھر وزیر زادہ اندر ہی اندر اس بندر کو ٹھکانے لگانے کا ہنر کرنے لگا۔ انجمن آراء اور مہر نگار کو جب بندر کی دانش کا پتہ چلا تو ان کو کہانی سمجھ آگئی۔

الغرض ایک بڑے مجمعے میں جب بندر نے تقریر کی تو ملکہ مہر نگار جو اسماء اور جادو گریوں سے واقف تھی جان عالم کو پہلے بندر سے توتے کے قالب میں لائی اور پھر چالاکی سے وزیر زادے کے دیئے ہوئے بکری کے بچے کی گردن مروڑ كر وزیر زادے کی روح کو بکری کے بچے میں ڈالا اور جان عالم کی روح توتے سے واپس اس کے حقیقی بدن میں ڈالی۔ یوں مہر نگار ، انجمن آرا اور جان عالم باہم واصل ہوئے۔

کبھی خوشی کبھی غم کے مصداق ابھی واپسی کے کئی مراحل باقی تھے۔ ساحرہ (جن کی بیٹی) نے اپنا بدلہ لینے کے لیے پورا لشکر نصف پتھر بنا دیا۔ لازم تھا کہ یہ لشکر یو نہی اپنے انجام کو پہنچتا، مگر غیبی مدد کے طور پر مہر نگار کا باپ آیا اور ایك خوف ناک جنگ کے بعد آخر کار جان عالم اور اس کے لشکر کی جان بخشی ہوئی، اور مہر نگار کے والد نے سارے لشکر کو پند و نصائح کے ساتھ وطن کو رخصت کیا۔

آخر میں جان عالم اپنے محل پہنچا۔ ماں باپ کی زیارت کی۔ فیروز بخت نے بیٹے کو پا کر تخت چھوڑا اور گوشہ نشیں ہوا۔ جان عالم بادشاہ بنا، ماہ طلعت سے انجمن آرا اور مہر نگار کی ملاقات ہوئی۔ توتے نے اپنا کہادہرایا اور ماہ طلعت ندامت سے پانی پانی ہوئی۔ آخر کار تینوں سوتنیں ایک دوسرے کو قبول فرما زندگی گزارنے لگیں۔

جان عالم اب بادشاہی کرنے لگا۔ وزیر زادے کی تکہ بوٹی جلاد نے کی اور جس نے وزیر زادے کا انجام سنا حیرت زدہ رہا۔ جان عالم اب بادشاہ بن کر اپنی سلطنت کی خبر گیری اور خیر خواہی کرنے لگا۔ اور نظامِ بادشاہت دوبارہ چلنے لگا۔

(پروف ریڈر (مصحِّح متن): محمد عمَّار زاہد معجز بن مفتی عبد الكریم زاہد، معہد عثمان بن عفَّان، كراچی)

حواشی

موضوع: فسانہ عجائب کا جائزہ
کتاب: اردو داستان اور ناول: ( فکری و فنی مباحث)
کورس کوڈ : 9011
مرتبہ: رخشندہ عنبرین

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں