افسانوی ادب ۔۔۔۔ 1
صحفہ نمبر ۔۔۔ 27 تا 30(فسانہ عجائب کا تعارف)
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔۔ عارفہ راز
فسانہ عجائب کا تعارف
فسانہ عجائب مرزار جب علی بیگ سرور کی وہ تصنیف ہے جو ان کی دائمی شہرت کی ضامن ہے۔ فسانہ عجائب کے علاوہ شگوفہ محبت ، گلزار سرور اور شبستان سرور بھی ان سے یادگار ہیں لیکن ان کی شہرت کا دارو مدار فسانہ عجائب پر ہے جو باغ و بہار کے سادہ اسلوب کے جواب میں مرصع اسلوب میں لکھی گئی ۔ دیباچے میں لکھتے ہیں ۔ اس کیچ میرز کو یہ یارا نہیں کہ دعوی اردو زبان پر لائے یا اس افسانے کو بنظر شماری
کسی کو سنائے ۔ اگر شاہجہاں آباد کے مسکن اہل زبان کبھی بیت السلطنہ ہندوستان تھا وہاں چندے بود و باش کرتا۔ فصیحوں کو تلاش کرتا تو فصاحت کا دم بھرتا جیسا میر امن صاحب نے چهار درویش کے قصے میں بکھیڑا کیا ہے کہ ہم لوگوں کے حصے میں زبان آئی ہیں۔ پتھر پڑے ایسی سمجھ پر ۔ یہی خیال انسان کا خام ہوتا ہے۔ مفت میں نیک بد نام ہوتا ہے ۔ بشر کو دھوئی
کب سزا وار ہے ۔ کاملوں کو بے ہودگی سے انکار بلکہ ننگ و عار ہے ۔ مشک آنست کہ
خود ببوید نه که عطا بگوید
دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی فارسی کی افراط مقلی و مسمع جملوں تشبیبہ و استعارہ کی بھر مار اور مبالغہ کے با وجود وہ بزعم خود یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے روزمرہ کا خیال رکھا ہے ۔ دیباچے کے آخر میں لکھتے ہیں ۔
نیاز مند کو اس تحریر سے نمود نظم و نثر جودت طبع کا خیال نہ تھا۔ شاعری کا استمال نہ تھا بلکہ نظر ثانی میں جو لفظ دقت طلب غیر مستعمل عربی فارسی کا مشکل تھا۔ اپنے نزدیک اسے دور کیا اور جو کہ سہل ممتنع محاورے کا تھا وہ رہنے دیا لیکن کتاب کی عبارت ان کے دعوی کی نفی کرتی ہے ۔ صرف چند سطروں کے بعد جب داستان شروع ہوتی ہے تو سہل متصنع کا یہ نمونہ ملتا ہے۔
گره کشایان سلسله سخن و تازه کنندگان فسانه کهن یعنی محرران رنگین تحریر و مورخان جادو تقریر نے اشہب جنده قلم کو میدان وسیع بیان با کرشمہ سحر ساز و لطیف ہائے حیرت پرواز گرم عنان و جولان یوں کیا ہے۔ اس عبارت کو دیکھ کر ڈاکٹر گیان چند جین حیرت سے پوچھتے ہیں۔
خدا یا وہ کون لوگ ہیں جو اشہب جندہ قلم و مسکن التہاب قلب کے محاورے میں گفتگو کرتے ہیں سرور نے نہ صرف دیباچے میں زبان دانی کے جوہر دکھائے ہیں بلکہ قصے میں بھی جا بجا تشبیہ و استعارہ اور ضلع جگت سے کام لیا ہے۔
فسانہ عجائب کے قصے کے بارے میں ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں ۔
فسانہ عجائب تصنیف کرتے وقت سرور کی نظر میں تمام رائج الوقت قصے تھے ۔ انہوں نے خاص طور پر گلشن نو بہار بہار دانش پر ماوت اور داستان امیر حمزہ سے اپنا چراغ روشن کیا
انہوں نے وضاحت کے ساتھ فسانہ عجائب کے مختلف اجزا کی رائج الوقت داستانوں سے مماثلت کی نشاندہی کی ہے البتہ تبدیلی قالب کے واقعہ کو وہ سراہتے ہیں ۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی اپنی کتاب سرور اور فسانہ عجائب میں کشمکش اور کلانگس کی طوالت کے اعتبار سے جان عالم کے بندر بننے اور واپس انسان کی جوت میں آنے کی سرگزشت کو فسانہ عجائب کا اہم ترین حصہ قرار دیتے ہیں ۔
فسانہ عجائب کی اہمیت
فسانہ عجائب کی اہمیت اس کی داستان میں نہیں بلکہ اس مرضع اسلوب میں ہے جو اب قصہ پارینہ بن چکا ہے اور بقول سید وقار عظیم جس نے فسانہ عجائب کے ایک خاص حصے کو اردو میں بیانیہ ادب کا شاہکار بنا دیا ہے۔
مصنف نے حمد ونعت اور شاہ وقت کو صرف چار صفحوں میں بیان کر کے لکھنو اور وہاں کے مردمان خجستہ رو کا جو حال لکھا ہے اس میں اختصار کی کوشش کے باوجو دسترہ صفحے صرف ہوئے ہیں ۔ کتاب کے یہ سترہ صفحات جہاں مصنف کے مشاہدے کی وسعت اور دقت نظر کے شاہد ہیں وہاں لکھنو کی زندگی کے گوناگوں پہلوؤں کی بڑی صحیح اور دلکش عکاسی کرتے ہیں۔ ان صفحوں میں مواد کی حقیقت اور صداقت اور بیان کے مبالغہ اور شعریت کا ایسا حسین امتزاج ہے جو اردو کے پورے داستانی ادب میں اور کہیں نہیں ملتا ۔
ہماری داستانیں ص 16 (315)
فسانہ عجائب اردو کے داستانی ادب میں عربی و فارسی تراکیب، تشبیہ و استعارہ اور رعایت لفظی پر مشتمل جس اسلوب کی بنا پر ممتاز ہے اس کا اظہار قصے سے زیادہ دیباچے میں ہوا ہے ۔ قصے کے مختلف اجزاء کی تمہید اور مناظر قدرت کے بیان میں بھی انہوں نے اسی مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے داستان کے حصے نہ صرف داستان سے الگ نظر آتے ہیں بلکہ قصے کی روانی میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں ۔ اس پر مستزاد اشعار اور غزلوں کی بھر مار ہے جس میں سے اکثر مصنف یا اس کے استاد کی تخلیق ہیں ۔ اگر قصے کے درمیان میں کہیں کہیں بات کی وضاحت کے لیے اشعار استعمال ہوتے تو شاید بھلے معلوم ہوتے۔ لیکن جگہ جگہ اشعار بلکہ پوری کی پوری غزلیں (اور وہ بھی غیر معیاری ) قصے کے حسن کو بری طرح مجروح کرتی ہیں تاہم قصے کا خاصا حصہ سادہ اور لکھنوی کے مطابق ہے یہ اور بات کہ اس زمانے کے لکھنو میں فقرہ بازی اور حاضر جوابی عام تھی اس لیے داستان میں بھی اس کے نمونے بکثرت ملتے ہیں ۔ بلکہ زرنگار اور جان عالم کی گفتگہ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ملاحظہ ہو۔
ملکہ
واہ صاحب ۔ تم بہت گرما گرم تند مزاج ، حاضر جواب ہو ۔ حال پوچھنے سے اتنا برہم ہو کر کڑا فقرہ سنایا کہ اس مردار کے ساتھ تھو تھو مجھ چھٹ سب کو پکھل پائیاں بنایا ۔
جان عالم
اپنا دستور نہیں کہ ہر کس و ناکس سے ہم کلام ہوں ۔ مردار سے بات حرام ہے۔ تمہارے نہ سے مردار نکلا ہم سمجھ گئے ۔
ملکہ
خوب یک نہ شد دو شد – صاحب چونچ سنجالو ۔ ایسا کلمہ زبان سے نہ نکالو ۔ کیا میرے دشمن درگور مردار خور ہیں ۔ آپ بھی کچھ منہ زور ہیں ۔ حضور کسی سمت سے رونق افروز ہوئے ۔ دولت سرا چھوڑے کتنے روز ہوئے اور قدوم میمنت لزوم سے اس دشت پر خار کو کیوں رشک لالہ زار کیا۔
جان عالم
چه خوش ‘ آپ در پردہ بناتی ہیں ۔ بگڑ کر طنز سے یہ بناتی ہیں ۔ ہم حضور کا ہے کو مزدور ہیں ۔ تم جیتے جی جو چار کے کاندھے چڑھی کھڑی ہو تم البتہ حضور ہو۔
لکھنوی معاشرت کا نمونہ
باغ و بہار کی طرح فسانہ عجائب کی بھی یہ خوبی ہے کہ اس میں لکھنوی معاشرت کے قابل قدر نمونے ملتے ہیں ۔ ہمارے دیگر داستان نگاروں کی طرح سرور بھی قصے تو حقن اور دمشق کے سناتے ہیں لیکن وہاں کے شہروں کی مناظر کشی لکھنو کے شہروں کے پیش نظر کرتے ہیں اور مختلف رسومات بھی لکھنوی کی بیان کرتے ہیں ۔ سرور نے لکھنوی رسم و رواج کو جس طرح اپنے قصے کا حصہ بنایا ہے اس کی ایک مثال انجمن آرا کی شادی کے مناظر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ سرور نے شادی کی مختلف رسموں کو جس تفصیل سے بیان کیا ہے وہ ان کے مشاہدے کی وسعت کی نماز ہے۔
مشکل وقت میں عورتوں کی منتیں ماننے کے حوالے سے داستان کا وہ حصہ پڑھیئے جہاں جان عالم اور اس کا لشکر جادو کے زور سے آدھا پتھر کا ہو جاتا ہے۔
کوئی کہتی تھی ہمار ا لشکر اس بلا سے جو نکلے گا تو مشکل کشا کا کھڑا دو نا دوں گی ۔ کوئی بولی میں سہ ماہی کے روزے رکھوں گی ۔ کونڈے بھروں گی ۔ صحنک کھلاؤں گی ۔ دودھ کے کوزے بچوں کو پلاؤں گی ۔ کسی نے کہا اگر جیتی چھٹی جناب عباس علیہ السلام کی درگاہ جاؤں گی ۔ چہل منبری کر کے نذر حسین سبیل پلاؤں گی ۔
لکھنوی معاشرت کے یہ حقیقی مرقعے نہ صرف غیر ضروری شعر بازی کی تلافی کر دیتے ہیں بلکہ فسانہ عجائب کو وہ اہمیت بخشتے ہیں جس کے باعث زبان کی غرابت کے باوجود آج بھی یہ داستان پڑھی جاسکتی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں