فسانہ عجائب کا فنی مطالعہ

فسانہ عجائب کا فنی مطالعہ

"فسانہ عجائب” کی موضوعاتی تفہیم کی طرح، اس کے فن پر بھی بیشتر اہل نقد نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ "فسانہ عجائب ” کے فن پر سب سے زیادہ بحث ، اس کے اسلوب پر اٹھائی گئی ہے۔ فسانہ عجائب کے اسلوب پر بھی مشکل اسلوب کا ٹھپہ لگا کر بیشتر ناقدین نے اسے کمتر ثابت کیا ہے۔ بعض ناقدینِ ادب نے” فسانہ عجائب ” کے اسلوب کا دفاع کیا ہے۔

"فسانہ عجائب ” داستان کے فنی اجزاء: پلاٹ، کردار نگاری، جزئیات نگاری، اسلوب اور داستانوی فضاء کا عمدہ مرقع ہے۔ داستان کی بنیادی خصوصیت کایا کلپ کا بھی عمدہ اظہار کیا گیا ہے۔

فسانہ عجائب کا پلاٹ داستانوی ضرورت کے عین مطابق ہے۔ مرکزی کہانی کے ساتھ ذیلی کہانیاں اور واقعات کے دروبست کو فنی لحاظ سے نبھایا گیا ہے۔ ذیلی واقعات جزوی طور پر اضافی یا کہانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتے نظر آتے ہیں، مگر یہ طریقہ اُردو کی بیشتر داستانوں ، ماسوائے "باغ و بہار” میں موجود ہے

۔ ” باغ و بہار میں اس عصر کی نایابی وہ "خاص ہدایات ہیں جو میرا امن کو گل گرائسٹ سے ملی تھیں۔ وگرنہ داستانوں کا عمومی مزاج یہی ہے، جو "فسانہ عجائب” میں موجود ہے۔

فسانہ عجائب کے مختلف حصے یاذیلی کہانیاں اور واقعات مختلف فصلوں یا ابواب کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں اور ہر فصل یا بڑا واقعہ آخر میں مرکزی کہانی کے دھارے میں شامل ہو جاتا ہے۔ مرکزی کہانی کا دھارا نہ کہیں پر رُکتاہے، نہ بِدکتا ہے اور نہ ہی اصل کہانی کا رخ موڑتا ہے۔

ذیلی کہانیوں اور واقعات کی ضرورت یوں بھی فطری ہے، کہ داستان میں قصہ در قصہ کا مقصد پورا کرنا ہے۔ اسی طرح ہر ذیلی واقعہ یا فصل دراصل جانِ عالم کی ذہنی، جسمانی اور روحانی آزمائش کا نیا مرحلہ ہے۔ اسی طرح ہر ذیلی واقعہ اور کہانی زندگی کے اس روپ کو سامنے لاتی ہے ، جو رجب علی بیگ سرور دکھانا چاہتے ہیں۔ رنگارنگی کہانی کی ضرورت بھی ہے اور لکھنوی ثقافت کی علامتی نمائندہ بھی۔

یہ بھی پڑھیں: فسانہ عجائب کی کردار نگاری نوٹس | PDF

"فسانہ عجائب ” کے کرداروں کی بحث پر بھی بیشتر ناقدین نے اخذ و استفادے کی بحث اور کرداروں کے بے جان یا یک رنگے ہونے پر قلم اٹھایا ہے۔ بیشتر ناقدین "مہر نگار” کے کردار کے علاوہ دیگر کرداروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

کرداروں کی صنفی تقسیم کو مد نظر رکھیں تو مردانہ کرداروں میں جان عالم اور نسوانی کرداروں میں مہر نگار بلاشبہ نمائندہ کردار ہیں۔ باقی کردار اپنی اپنی جگہ اپنی حیثیت کے مطابق تشکیل دیئے گئے ہیں۔ جان عالم کا کردار ، فکری اور جسمانی طاقت کا نمائندہ ہے۔ کرداروں کے مطالعے میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ تمام کردار انسان کے ہیں، ماسوائے توتا(طوطا)، بندر کے مگر روح اس میں بھی جان عالم کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فسانہ عجائب کی کردار نگاری نوٹس | PDF

مردانہ کرداروں میں فیروز بخت ، وزیر زادہ، سودا گر ، مہر نگار کا باپ، انجمن آراء کا باپ، مرد پیر سبز پوش، چڑی مار شکاری زیادہ نمایاں کردار ہیں۔ داستان اور ماجرے کی ضرورت کے مطابق ہر کردار اپنے منصب کو مد نظر رکھتا ہے۔ اُمور روزمرہ سے لے کر بڑے فیصلوں تک اپنے مناصب کے مطابق کرداروں کی تشکیل کی گئی ہے۔ مثلا فیروز بخت بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ باپ بھی ہے۔

اس لیے اس کے عمل سے باپ اور بادشاہ کا رویہ صورت حال کے مطابق موجود ہے۔ یہی صورت حال، مہر نگار اور انجمن آرا کے والد کی ہے۔ وزیر زادہ خیر وشر کا امتزاج ہے، خیر کے نمائندے کے طور پر وہ جان عالم کا مکمل ساتھ دیتا ہ

ے اور جب شر کا نمائندہ بنتا ہے، تو اپنی طرف سے شر کی انتہا کرتا ہے۔ سوداگر اور چڑی مار عمومی رویے کے حامل ہیں، جو فیصلہ سازی اور عمل اور ردِعمل میں اپنے سے زیادہ سامنے والوں کی ترجیحات یا وقتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہیں۔

جان عالم بطور انسان پہلے اور بطور شہزادہ بعد میں کافی متحرک اور جان دار کردار نبھاتے ہیں۔ بطور انسان ان کا رویہ خوف، شش و پنج سے زیر بار ، اور احسان مندی کا عکاس ہے تو یہ طور شہزادے کی بہادری، فیصلہ سازی، احسان نہ لینے ، تن و تنہا مہم جوئی اور نصب العین کو ہر صورت پانے کا عکاس ہے۔

جان عالم حُسن پرست بھی ہے اور حسن کو نظر انداز کر کے معشوق کے حصول کی تڑپ بھی رکھتا ہے۔ وہ اپنے وفاداروں کے لیے جان بھی ہتھیلی پر رکھ سکتا ہے اور جفا جو ایسا کے سر بھی قلم کروا سکتا ہے ، وہ عیش و عشرت کا جویا بھی ہے اور عیش و عشرت کے قصد کا روادار بھی۔ وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور روحانی طاقتوں کا بھی دعوے دار ہے۔

لہذ ا جان عالم کا کردار کسی حوالے سے بھی یک رنگی یا مثالی کردار کی چھاپ پر پورا نہیں اترتا۔ جان عالم دوسروں کی دی ہوئی بادشاہت میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ اپنی بادشاہی کو لوٹنا چاہتا ہے اور لوٹ کر اپنی بادشاہت پر فائز ہوتا ہے۔ وہ وقتی طور پر آسودگی اور آسائشات سے خود کو ضرور فیض یاب کرتا ہے، مگر ان وقتی تعیشات کو نصب العینی مقاصد پر فوقیت نہیں دیتا۔ وہ بیک وقت رد، وعدے کا پابند اور احسان کرنے والوں کو یاد رکھنے والا ہے۔

وہ روحانی اور ثقافتی انسان کا امتزاج ہے۔ جان عالم کے کردار میں موجود کمزوریوں، جن کی طرف اُردو کے بیشتر ناقدین نے قلم اٹھایا ہے،جن سے اُسے ماورا ہونا چاہیے تھا ۔ یہ درست ہے کہ داستانوں میں شہزادوں کے کردار عمومی طور پر انسانی کمزوریوں سے ماورا ہوتے ہیں۔ جان عالم کی عمومی کمزوریاں ہی اس کی الگ شناخت کا مظہر ہیں۔.

"فسانہ عجائب ” کے نسوانی کرداروں میں ماہ طلعت، مہر نگار ، انجمن آرا زیادہ نمایاں ہیں۔ ان تینوں کرداروں میں سے ملکہ مہر نگار کو بیشتر ناقدین نے بہترین کردار گردانا ہے۔ اس کے برعکس انجمن آرا کو بہت پھیکا کردار ظاہر کیا ہے۔

یہ نکتہ اس صورت سُلجھ سکتا ہے، اگر انجمن آرا اور ملکہ مہر نگار کو ایک ہی کردار کے دو حصوں کے طور پر دیکھا جائے۔ در حقیقت انجمن آرا، شہزادی کی نو عمری اور دوشیزگی کی نمائندہ ہے۔ کہ اس کے پاس جسمانی خواص اور حسن کی دولت ہے۔ ابھی اسے زمانے کی سردوگرم کا پتہ نہیں اور وہ خود کو دنیا کی خوبرو عورت سمجھتی ہے۔

اسے اس امر کا احساس نہیں ہے کہ جسمانی حسن ڈھل جاتا ہے۔ وہ محبوبہ ہے۔ محبوبہ کو یہ احساس ہے کہ محب اس کی محبت میں دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت جھیل سکتا ہے ، اس بناء پر اس کے ہاں بے باکی اور قدرے ذہنی پختگی کا اثر موجود ہے۔ اس کے برعکس مہر نگار انجمن آرا کی جوانی اور حسن کے ڈھلنے کے مرحلے پر موجود ہے، وہ شہزادی سے ملکہ کا روپ دھار چکی ہے۔ وہ زمانے کے سردوگرم دیکھ چکی ہے۔

وہ حسن کی دولت کو بڑے مقصد کی خاطر ضائع ہوتے اور ڈھلتے دیکھ چکی ہے۔ اسے پتہ ہے کہ جسمانی حسن کے ساتھ ساتھ دنیا میں امور سلطنت چلانے کے لیے، ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشنا بہت ضروری ہے۔ شہزادی کو آخر کار ملکہ بننا ہے۔ ملکہ کا ذہنی مرتبہ بلند پایہ نہیں ہو گا، تو بادشاہ امور سلطنت چلانے میں تردّد کا شکار ہو گا۔ وہ محبوبہ کی بجائے محب ہے اور محب بھی ایسے شہزادے کی ، جو کسی اور کی لگن میں مگن ہے۔

در حقیت بیشتر ناقدین نے اس نکتے کو نظر انداز کیا ہے کہ سرور, انجمن آرا اور مہر نگار کی شکل میں عورت کے ارتقا کو حسن اور ذہن کے مراحل کی شکل میں دکھانا چاہتے ہیں۔ سرور اس طریقہ کار سے اپنے زمانے میں موجود صنفی امتیاز کو بھی چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ انجمن آرا جان عالم کے لیے جسمانی و قلبی سکون کی مظہر ہے تو مہر نگار ذہنی و جسمانی سکون کی۔

عورت کی عمر اور زندگی کے یہ دونوں مراحل مرد کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، نفسیاتی مطالعہ کی مدد سے انجمن آرا اور مہر نگار ایک ہی کردار ہیں۔ انجمن آرا ابتدائی مرحلے اور جسمانی حسن کی علامت ہے تو مہر نگار دوسرے محلے اور ذہنی صلاحیتوں کی نمائندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جان عالم ایک شب انجمن آرا کے ساتھ ہوتا ہے تو ایک شب مہر نگار کے ساتھ گزارتا ہے۔

ماہ طلعت داستان میں ایک ایسے کردار کی علامت ہے، جو خود پسندی کا شکار ہے۔ اسے جان عالم کی شکل میں شہزاده بطور شوہر بغیر کسی محنت کے میسر ہے۔ اس لیے اسے نفسیاتی طور پر خود پسندی لاحق ہو گئی ہے۔ داستان کے آخر تک وہ انجمن آرا اور مہر نگار سے مل کر اپنی حقیقت سے واقف ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

یہاں سرور نے کمال ہنر سے عورت کے نفسیاتی پہلوؤں کو تین نسوانی کرداروں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ بَظاہر یہی لگتا ہے کہ سرور نے ماہ طلعت کے کردار کو سماجی طور پر زیادہ پسند نہیں کیا، مگر انہوں نے اس کردار کی پیش کش سے اس کے سماجی وجود اور ہونے کو رد بھی نہیں کیا، اس امر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سرور سماجی زندگی کے بارے میں پسند و ناپسند تو رکھتے تھے ، مگر کسی ناپسندیدہ پہلو کو رد نہیں کرتے تھے۔

یہ نکتہ بطور انسان اور تخلیق کار سرور کی بڑائی میں اضافہ کرتا ہے۔ فسانہ عجائب کے غیرانسانی کرداروں میں توتا اور بندر بہت نمایاں ہیں اور ان کرداروں نے دانش اور سچ بولنے کی ہندوستانی روایت کو منعکس کیا ہے۔ "فسانہ عجائب ” کی کردار نگاری، کہانی کے تناظر میں خاصی جاندار اور پُرکشش ہے۔

فسانہ عجائب کا سب سے متنازعہ فنی پہلو ، اسلوب ہے۔ اسلوب کسی بھی فن پارے کے ابلاغ کا اہم ترین ذریعہ ہوتا ہے۔ اسلوب صنف، مصنف، زمانہ اور پس منظر کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اُردو داستان کا عمومی اسلوب علامتی اور رمزیہ ہی ہے ، ماسوائے ” باغ و بہار کے۔ "باغ و بہار کے اسلوب کو سہل اور آنے والے زمانوں کے مطابق ڈھالنے میں جو ہدایات میرامن کو ملیں، انہوں نے ان ہدایات کو مکمل طور پر نبھایا۔

مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ “باغ و بہار کا اسلوب داستانوں کے اسلوب کی نمائندگی نہیں کرتا۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ داستان اپنے واقعات اور کرداروں کی تشکیل میں خاص اسلوب کی متقاضی ہوتی ہے۔ باغ و بہار کے منظر عام پر آنے کے بعد ، اُردو ناقدین نے اسی داستان کے اسلوب کو ہی معیار بنالیا اور یوں پوری داستان کی روایت اسلوب کے اس معیار پر کم ہی پورا اُتر سکی۔.

"فسانہ عجائب ” کے دیباچے میں رجب علی بیگ سرور نے ” باغ و بہار ” کو اسلوب کی بنیاد پر ہی کم درجہ قرار دیا ہے۔ اس سے یہ امر واضح ہے کہ سرور، میرامن کے اسلوب سے مطمئن نہیں تھے۔ اس کے علاوہ دہلوی اور لکھنوی دبستانوں کی مسابقت میں موضوعات کے ساتھ ساتھ اسلوب ہی واضح فرق کرتا تھا۔

” فسانہ عجائب ” کے اسلوب کو رشید حسن خان نے دو تہوں والا اسلوب گردانا ہے۔ یہ تصور بہت حد تک درست ہے۔ فسانہ عجائب ” میں ان دو تہوں کو الگ الگ دریافت کیا جا سکتا ہے۔

"فسانہ عجائب کی پہلی پانچ فصلیں، کہ جہاں داستان کا متن شروع نہیں ہوتا، نہایت مقفیٰ و مسجعیٰ اسلوب کی حامل ہیں۔ خصوصاً جس فصل میں لکھنو شہر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں قافیہ پیمائی زوروں پر ہے۔ اسی طرح مفرس و معرب اسلوب کے نقش گہرے ہیں۔ بعض جگہ سنسکرت کے پرتو بھی ہیں۔ "فسانہ عجائب ” کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے، داستان کے متن کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔

داستان کے شروع ہوتے ہی چھٹی فصل کے پہلے دو صفحات کے بعد اسلوب کا رنگ ڈھنگ بدل جاتا ہے۔ اسلوب میں سادگی اور روزمرہ اور عمومی محاورہ بندی کا چلن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح قافیہ پیمائی اور شعری طرز تو موجود ہے، مگر وہ کسی طرح بھی قاری کی تفہیم کو مجروح نہیں کرتی ، نہ ہی کہانی کے تسلسل میں کوئی فرق آتا ہے۔

یہ سلسلہ فصل کے آخر تک بر قرار رہتا ہے۔ پھر ہر آنے والی نئی فصل کے شروع کے ایک آدھ صفحے پر تو مفرس اور مشکل اسلوب ملتا ہی ہے، مگر جونہی کہانی شروع ہوتی ہے، اسلوب اپنی سابقہ روش پر چل نکلتا ہے

۔ اسلوب کی یہ تہہ داری اپنی نسبت کے لحاظ سے اپنا تناسب برقرار رکھتی ہے۔ اہل نقد نے بیس فیصد اسلوب کی بنا پر "فسانہ عجائب ” کے اسلوب کو مشکل، گنجلک اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازا ہے۔

سرور کے اسلوب کی بنیادی وجہ سمجھنے کے لیے ” باغ و بہار کہ دہائی ، لکھنوی ثقافت کا مزاج اور سرور کو در پیش چیلنجز کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

اس حوالے سے یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ ہر فصل کے شروع میں اور پہلی پانچ فصلوں میں مخصوص اسلوب کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مصنف اپنی زبان والی اور لکھنوی شاہی نظام میں رائج القابات و خطابات کے ساتھ ساتھ رسوم و تمہید اور خطابات کو بروئے کار لانا چاہتا ہے۔

سرور کا یہ اسلوب ہی دراصل اسے باقی داستان طرازوں سے ممیز کرتا ہے۔ "فسانہ عجائب” کے اسلوب کی دوسری وجہ ، جسے عمومی طور پر آسان فہم گردانا جاتا ہے، بھی اپنے اندر خاص کشش رکھتی ہے۔ اس اسلوب میں قافیہ پیمائی کے ساتھ ساتھ جا بہ جا اشعار کے اضافے ہیں۔ اشعار کے اضافے نظر انداز بھی کر دیئے جائیں، تو اسلوب کے بہاؤ میں کوئی رخنہ نہیں پڑتا۔

اس شعری التزام کی بنیادی وجہ ، سرور کا خود کو شاعر سمجھنا ہے۔ اس اسلوب میں نمایاں ترین وصف، صورت حال کے مطابق اسلوب کی تشکیل ہے۔ شاہی محل میں اسلوب شاہی لوازمات کے ساتھ ملتا ہے۔ جان عالم اور کسی نسوانی کردار کے ملاپ پر اسلوب میں جنسی اور رومانوی رنگ چڑھ جاتا ہے۔

اسی طرح جنگلوں ، جادو کے قطعوں میں کرداروں کی گفتگو پر صورت حال کا رنگ غالب آ جاتا ہے۔ مایوسی، خوشی، عیش و عشرت اور خوف و بہادری کی کیفیات اسلوب سے ہی نمایاں ہوتی ہیں۔

غرض حتی المقدور رجب علی بیگ سرور نے اسلوب کو صورت حال، واقعات اور کرداروں کے مطابق تشکیل دیا ہے۔ یہی اسلوب ہے جو "فسانہ عجائب” کو داستانوں کی روایت میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ اس اسلوب کی مدد سےسرور نے لکھنو کی لسانی، ثقافتی اور ادبی رنگارنگی اور مزاج کو لوگوں تک پہنچایا ہے۔

اس اسلوب نے ہی رجب علی بیگ سرور اور فسانہ عجائب ” کو میر امن کی باغ و بہار ” سے الگ اور ممیز کیا ہے۔ اگر "فسانہ عجائب ” بھی باغ و بہار کے تتبع میں لکھی جاتی تو آج ” باغ و بہار کے مقابل اسلوب کا رنگ دیکھنے کے لیے کچھ بھی نہ ہوتا اور "فسانہ عجائب ” باغ و بہار کی نقل قرار پا کر اپنا اور اپنے لکھنو کا تشخص مٹی میں رول چکی ہوتی۔

اس اسلوب نے ہی قارئین اور ناقدین ادب کو” فسانہ عجائب ” کی انفرادیت کا احساس دلایا ہے۔متذکربالا فنی خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، فسانہ عجائب کی مجموعی فضا داستانوی ماحول کی بھرپور عکاسی کرتی ہے

داستان کی روایتی اجزا سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ قاری پر داستانوں کا سحر طاری کرتی ہے۔ آج کے قاری کو قدیم زمانے کی طرز زندگی سے لے کر قدیم ثقافتی و سماجی اقدار سے روشناس کراتی ہے۔ فسانہ عجائب اپنی مجموعی فضا کے حوالے سے اُردو کی منفرد اور نایاب داستان ہے۔

رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب نہ صرف اردو داستان کی روایت میں اپنے مجموعی تاثر کی بناء پر مقبول عام داستان ہے، بلکہ اپنے مخصوص تناظر میں مقامی سماج، ثقافت ، اقدار و رسوم اور لسانی پس منظر کی نمائندہ ہے۔ یوں فسانہ عجائب اُردو کی معیاری ترین داستانوں میں سے ایک ہے۔

(Proof Reader : محمد حمزہ )

حواشی

کتاب ۔ اردو داستان اور ناول: فکری و فنی مباحث
موضوع ۔ فسانہ عجائب کا فنی مطالعہ
صفحہ۔ 57 تا 63
کورس کوڈ ۔ 9011
مرتب کردہ۔ اقصٰی فرحین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں