فیض احمد فیض کی شاعری کا تنقیدی جائزہ نظم و غزل کے حوالے سے

فیض احمد فیض کی شاعری کا تنقیدی جائزہ | Faiz Ahmed Faiz ki shairi ka tanqeedi jaiza

نوٹ: یہ تحریر پی ایچ ڈی مقالے کے باب چہارم سے لی گئی ہے۔عنوان مقالہ: Mohammed Alvi Hayat O Khidmat

کچھ اس تحریر سے:

  1. فیض ترقی پسند تحریک میں شامل شاعروں میں سب سے زیادہ متحرک اور فعال تھے۔۔۔
  2. ۔۔۔اس لئے ابتداء میں فیض نے بھی عشق کے نغمے گائے۔۔۔
  3. وطن کی آزادی اور جفاکش طبقوں کے حقوق کی بازیافت اور سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہی اب ان کا خواب تھا۔۔۔
  4. فیض کو زندگی کی شکست و ذلت برداشت نہیں تھی ۔ ان کا نظریہ حیات عزم و حوصلہ اور مثبت طرز فکر پرمنی تھا۔۔۔
  5. فیض نے کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور غالب، میر اور اقبال سے فیض اٹھایا۔۔۔

فیض احمد فیض کی شاعری کا تنقیدی جائزہ

فیض ترقی پسند تحریک میں شامل شاعروں میں سب سے زیادہ متحرک اور فعال تھے۔

ان کی شاعری کی ابتداء 1934-1935 میں ہوئی تھی ۔ جب ترقی پسندی نے اردو ادب میں با قاعدہ تحریک کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ اس وقت اردو شاعری میں جوش کی ہنگامی اور رومانی نظموں کا شہرہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض کی شاعری از ثمنہ کنول

اصغر گونڈی کی صوفیانہ شاعری مقبول تھی اور جگر مراد آبادی اپنے منفرد اسلوب و انداز میں اردو شاعری کے افق پر جنگل گار ہے تھے۔

مجاز لکھنوی بھی نرم سروں میں عشق و انقلاب کے نغمے گار ہے تھے۔

فیض احمد فیض کی نظم نگاری

اس لئے ابتداء میں فیض نے بھی عشق کے نغمے گائے:

عشق دل میں رہے تو رسوا ہو

لب پہ آئے تو راز ہو جائے

عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض
کاش افشائے راز ہو جائے

لیکن رفتہ رفتہ فیض کا سماجی شعور بالیدہ ہوا اور انہوں نے زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔

فیض کو انگریزی ادب پر عبور حاصل تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے اثرات نے انگریزی شاعری پر جو اثرات ڈالے تھے ان کا اثر اردو شاعری پر بھی پڑنے لگا تھا۔

روس میں اشتراکیت کے غلبہ کے بعد بہت سے ممالک میں اشترا کی نقطہ نظر کو فروغ ہوا، اور ادب میں زندگی کے مسائل اور تلخ حقائق کو پیش کرنے کی روش چل پڑی تھی۔

فیض نے مغربی شعراء سے اثر قبول کیا ۔ انہوں نے روس کی اشتراکیت کو قبول کیا اور مارکس کے نظریے نے انہیں انقلابی رجحان عطا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: فیض احمد فیض کی نظم نگاری | pdf

فیض بنیادی طور پر رومان پرست شاعر تھے اور ان کی ابتدائی شاعری میں یہ رومانی انداز کا رنگ نمایاں تھا۔

لہذا جب وہ ترقی پسندی سے متاثر ہو کر انقلاب اور سماجی اصلاح کے پیغام کو اپنی شاعری میں سمونے لگے تو ان کی شاعری میں رومان
اور انقلاب کا ایک انوکھا امتزاج دیکھنے میں آیا:

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے

که تری مانگ ستاروں سے بھر ہوگی

چنک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے

کہ اب سحر تیرے رخ پر بکھر گئی ہوگی

ثار میں تری گلیوں کے )

اس کے بعد وہ پوری طرح ترقی پسند نظریات کے علم بردار بن گئے ۔

یہ بھی پڑھیں: جدید اردو شاعری پر فیض احمد فیض کے اثرات | PDF

وطن کی آزادی اور جفاکش طبقوں کے حقوق کی بازیافت اور سرمایہ دارانہ نظام کا زوال ہی اب ان کا خواب تھا۔

وہ ایک ایسے نظام کی تعمیر کا خواب دیکھنے گئے جہاں ظلم و ستم، نا انصافی ، عدم مساوات، انسانوں کا قتل و خون نہیں ہوگا۔

لیکن اب ظلم کے میعاد کے دن تھوڑے ہیں
ایک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

عرصہ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں

ہم کو رہتا ہے پر یونہی تو نہیں رہنا ہے

اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم

آج سہنا ہے ، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے

( چند روز اور میری جان !)

فیض احمد کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اشتراکیت سے متاثر اور اس سے وابستہ ہونے کے باوجود شاعری کو دیگر ترقی پسند شعراء کی طرح نعرے بازی اور پروپگنڈہ کی طرح استعمال نہیں کرتے ہیں۔

وہ شاعری میں فنی اور جمالیاتی عنصر کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔

وہ اپنی شاعری کو نظریات اور افکار کی ترسیل کا ذریعہ نہیں بناتے ۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کے پیغام کو تمام شعری لوازمات کے ساتھ نظموں اور غزلوں میں ڈھالنے کی کوشش کی۔

وہ اس بات سے واقف تھے کہ شاعری جمالیاتی شعور سے عبارت ہے۔

کامیاب شاعر وہی ہوتا ہے جس کے کلام میں حسن بیان اور حسن معنی دونوں یکساں مقدار میں موجود ہوں۔

اس لئے ان کی نظموں اور غزلوں میں ایک خاص قسم کی لطافت اور وقار ہے۔

ان کی شاعری عشق کا سوز بھی ہے اور سلاسل کی جھنکار بھی اور ایک انقلاب کی للکار بھی :

چشم نم، جان شوریدہ کافی نہیں

تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو

دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہر جاں چلو

( آج بازار میں پابجولاں چلو )

فیض احمد فیض کی پوری شاعری انقلاب اور تعمیر کا پیغام دیتی ہے۔

وہ مظلوم اور دبے کچلے ہوئے طبقے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور ظالم و جبر کی نظام سے ٹکر لینے کا حوصلہ دیتے ہیں۔

ان کے یہاں مایوسی کفر ہے اور ظلم سہنا بھی گناہ عظیم ہے۔

انہوں نے اپنی شاعری سے اپنے عہد اور سماج کو بہت فیض پہنچایا اور محروم طبقوں کو جینے کا حوصلہ دیا ہے

اور ظالم حکمرانوں کے خلاف صف آراء ہونے کی ترغیب دی ہے؟

ہر اک اولی الامر کو صدا دو

کہ اپنی فرد عمل سنبھالے

اٹھے گا جب جمع سر فروشاں

پڑیں گے دار و رسن کے لالے

کوئی نہ ہوگا کہ جو بچالے

جزا سزا سب یہں پی ہوگی

یہیں عذاب و ثواب ہوگا

یہں سے اٹھے گا شور محشر

یہں پہ روز حساب ہوگا

( تین آوازیں۔ ندائے غیب )

فیض سرمایہ دارانہ نظام میں غریبی ، فاقہ کشی ظلم و استحصال، عدم مساوات دیکھ کر مضطرب ہو جاتے ہیں اور
مجبور اور محروم انسانوں کو دلاسہ دیتے ہیں:
تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے

چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبض ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے

رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسار سحر

صبح ہونے ہی کو ہے اے دل بے تاب ٹھہر
ابھی زنجیر چھنکتی ہے پس پردۂ ساز

مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی
ساغر ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں

لغزش پا میں ہے پابندیٔ آداب ابھی
اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو

اپنے مے خانوں کو مے خانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوت اسباب بھی اٹھ جائے گی

یہ گراں بارئ آداب بھی اٹھ جائے گی
خواہ زنجیر چھنکتی ہی چھنکتی ہی رہے

(اے دل بیتاب ٹھہر !)

فیض کو زندگی کی شکست و ذلت برداشت نہیں تھی ۔ ان کا نظریہ حیات عزم و حوصلہ اور مثبت طرز فکر پرمنی تھا۔

وہ زندگی کے مصائب کو ایک مجاہد کی طرح برداشت کرنے کا جگر رکھتے تھے۔

یہ ان کا اعتقاد تھا کہ حق ہمیشہ سرخرو ہوتا ہے اور باطل سرنگوں ہوتا ہے۔

وہ تحفظ امن، بقائے باہم میں یقین رکھتے تھے۔

فیض کے کلام میں آفاقی مسائل اور موضوعات کو بھی جگہ ملی ہے۔

فیض ساری انسانیت کے غم خوار تھے اور ساری انسانیت سے دردمندی نے ان کی شاعری کے کینوس کو وسعت عطا کی۔

ان کی یہی آفاقیت انہیں اپنے ہم عصروں میں ایک ممتاز مقام پر سرفراز کرتی ہے۔

ان کی نظموں "میرے درد کو جو زباں ملے” اور "سفر نامہ” سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فیض کے دل میں انسان دوستی کا جذ بہ آفاقی تھا:

یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساتھ کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے

دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے
میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال

میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنان گلگوں
میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری

میرے مقدور میں ہے معجزۂ کن فیکوں

(سفرنامه پیکنگ)

فیض احمد فیض کی غزل گوئی

فیض نے جس طرح نظموں میں اپنی فکر اور فن کی بلندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس طرح اپنی غزلوں میں بھی انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کی ہے۔

ان کی غزلوں میں کلاسیکی غزل کا رچاؤ بھی ہے اور اس میں جدت اور ندرت بھی ہے۔

انہوں نے غزل کے روایتی استعاروں اور علامتوں کو نئے سیاسی اور سماجی معنوں میں استعمال کر کے غزل کو ایک نئی جہت عطا کی۔

ان کا اسلوب اور ان کا انداز بیان ترقی پسندوں میں کافی مقبول ہوا اور ترقی پسند شاعروں نے ان سے کافی اثر قبول کیا۔ وہ بجا طور پر کہتے ہیں:

ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں پکار

فیض گلشن میں وہی طرز فغاں ٹھہری ہے

ترقی پسند تحریک نے غزل کو پس پست ڈال دیا تھا۔ ان کے نزدیک غزل میں انقلابی اور ترقی پسند شاعری کے امکانات نہیں ہیں۔

اس لئے ترقی پسندوں نے نظموں کو ہی ترجیح دی اور اس دور میں صنف نظم کو کافی فروغ ہوا

مگر مجروح سلطانپوری کی طرح فیض کو غزل کے وسیع امکانات کا اندازہ تھا۔ اس لئے انہوں نے غزل کو نظر انداز نہیں کیا۔

فیض نے کلاسیکی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور غالب، میر اور اقبال سے فیض اٹھایا۔

انہوں نے جہاں روایتی غزل سے فائدہ اٹھا کر اپنے شعری لہجے کو شائستگی عطا کی ہے۔

وہیں بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے اسلوب میں جدت اور تازہ کاری کا رنگ بھی بھرا۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں اگر روایتی غزل کی تہذیبی لطافت جلوہ گر ہے تو دوسری طرف جدت اور ندرت بھی دامن دل کھینچتی ہے۔

ان کے چند اشعار نمونے کے طور پر پیش ہیں:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

دل نا امید تو نہیں نا کام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں

جیسے پچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں

نہ گل کھلے ہیں ، نہ ان سے ملے، نہ مے پی ہے

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

کر رہا تھا تم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں