فیض احمد فیض کی نظم نگاری کی خصوصیات
فیض احمد فیض اردو شاعری کے وہ معتبر نام ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنی تخلیقات کے ذریعے ادب کے میدان میں انمٹ نقوش چھوڑے بلکہ اپنی عملی زندگی سے بھی جدوجہد، استقامت اور اعلیٰ انسانی اقدار کی مثال قائم کی۔ فیض کی شخصیت کئی جہات کی حامل تھی—وہ ایک حساس شاعر، ایک فعال صحافی، ایک زیرک مفکر اور ترقی پسند تحریک کے مؤثر ترین ترجمان تھے۔ ان کی شاعری انسانی مسائل، طبقاتی جدوجہد اور عالمی بھائی چارے کا مرقع ہے، اور وہ اپنی تخلیقات میں ایک ایسے سماج کی تشکیل کا خواب دیکھتا ہے جو مساوات، انصاف اور محبت کی بنیاد پر قائم ہو۔
فیض احمد فیض کا تعلق اس دور سے ہے جب برصغیر کی ادبی، سماجی، اور سیاسی فضا میں تبدیلی کی لہر جاری تھی۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر، فیض کی شاعری نے جبر، استحصال اور استعماری قوتوں کے خلاف احتجاج کی ایک نئی راہ متعارف کروائی۔ مگر یہ احتجاج محض نعروں کا مجموعہ نہ تھا، بلکہ جمالیات اور معنویت سے آراستہ ایک تخلیقی تجربہ تھا۔ فیض نے لفظوں کے ذریعے وہ طلسم تخلیق کیا جو دلوں کو بیدار کرتا ہے اور ذہنوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔
فیض کی زندگی بھی ان کی شاعری کی طرح رنگا رنگ اور متنوع تجربات سے عبارت ہے۔ وہ ادب کی دنیا کے معتبر چراغ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عملی زندگی کے نمائندہ بھی رہے۔ ان کی زندگی میں ترقی پسند نظریات کی پیروی اور سماجی انصاف کے لیے جدو جہد کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ سیاسی وابستگیاں، صحافتی ذمہ داریاں، قید و بند کی سختیاں، اور عالمی سطح پر انسانی مسائل کے حوالے سے ان کی فکرمندی ان کے تخلیقی اظہار میں واضح طور پر جھلکتی ہے۔ یہ سب تجربات ان کے لیے محض واقعات نہیں تھے بلکہ ان کے شعری شعور کے بنیادی محرک بنے۔
فیض کی شاعری اس بات کی غماز ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کس قدر پختہ عزم کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ان کی تخلیقات میں جہاں محبت کا سوز اور جمالیاتی لطافت ملتی ہے، وہیں انقلابی جوش اور سماجی شعور کی گہری چھاپ بھی نظر آتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فیض کی نظم نگاری ایک ایسے طرزِ اظہار کی نمائندہ ہے جو زندگی کے پیچیدہ اور متنوع تجربات کو جمالیاتی قالب میں ڈھال کر ایک نئی معنویت عطا کرتی ہے۔ فیض کی شاعری ان کی زندگی کے تجربات کا عکس ہی نہیں بلکہ ان کے عہد کے شعور اور انسانیت کے خوابوں کی داستان بھی ہے۔
فیض کی نظم نگاری کے کئی پہلو اتنے پھر پور اور متنوع و وسیع ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا انتہائی مشکل کام دکھائی دیتا ہے۔ ان کے ادبی خدمات نے نہ صرف بر صغیر بلکہ دنیا بھر کے عوام کو متاثر کیا۔ ان کی نظموں کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے ان کی فکری رجحانات کا تفصیلی تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اس تحریر میں فیض احمد فیض کی نظم نگاری کی درجہ ذیل چند خصوصیات پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
نرمی اور دھیما پن
رومانوی بغاوت
تصورِ عشق و محبت
تصورِ محبت و جدوجہد
انفرادیت
موضوعاتی و اسلوبیاتی ہم آہنگی
تصورِ حسن و محبت
تصورِ نفرت و بد صورتی
قنوطیت و رجائیت
بین الاقوامیت
(1)
فیض احمد فیض کی نظم نگاری کا سب سے نمایاں اور دلکش پہلو ان کے اسلوب کی دھما پن اور نرمی و لطافت ہے۔ یہ خاصیت نہ صرف ان کی نظموں کی تہہ داری میں جھلکتی ہے بلکہ ان کی شخصیت کی سکون آمیز کیفیت کا بھی آئینہ دار ہے۔ ان کے اشعار میں جو نرمی اور دھیما پن نمایاں ہوتا ہے، وہ ان کے طبعی مزاج اور ان کے رومانوی احساسات کا عکاس ہے۔ فیض کی تخلیقی دنیا میں ہنگامہ آرائی، شوریدگی، یا تند و تیز لہجے کے بجائے ایک غیر محسوس سکون اور نرمی کی کیفیت ملتی ہے جو ان کے کلام کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
مجھے دے دے
رسیلے ہونٹ، معصومانہ پیشانی حسیں آنکھیں
کہ میں اک بار پھر رنگینیوں میں غرق ہو جاؤں!
مری ہستی کو تیری اک نظر آغوش میں لے لے
ہمیشہ کے لیے اس دام میں محفوظ ہو جاؤں (حسینئہ خیال سے!)1
نظم میں ان کا اندازِ اظہار، استعاروں کی ندرت اور تشبیہوں کی انفرادیت کے ذریعے خیالات کو نمایاں کرتا ہے۔ لفظوں کے انتخاب میں حسن اور ترنم کی رعایت ان کی فطری ترجیح معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں تغزل کی آمیزش اور رمزیت کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کا یہ مخصوص طرزِ بیان انقلابی شاعری کے عام شوریدہ لب و لہجے سے یکسر مختلف ہے۔
فیض احمد فیض بنیادی طور پر رومانوی مزاج کے حامل تھے، اور یہ ان کی تخلیقی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو ان کی نظموں کو ایک مخصوص نرم خوئی اور جذباتی گہرائی عطا کرتا ہے۔ ان کے ابتدائی احساسات اور خیالات، جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں، ایک خاص نوعیت کے رومانوی سکون میں لپٹے ہوئے تھے:
"اس زمانے میں کبھی کبھی مجھ پر ایک خاص قسم کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، جیسے یکایک آسمان کا رنگ بدل گیا ہے۔” 2
یہ کیفیت ان کی نظموں میں بھی پوری شدت سے جھلکتی ہے، جہاں دنیا ایک پردۂ تصویر کی مانند دکھائی دیتی ہے اور قاری کو طلسماتی ماحول کا احساس ہوتا ہے۔
فیض کے لہجے کی یہ نرمی اور لطافت ان کے انقلابی بیانیے میں بھی ایک منفرد انداز پیدا کرتی ہے۔ وہ شورش پسند یا روایت شکن نہیں تھے، بلکہ سکون اور تحمل ان کے مزاج کا حصہ تھا، جیسا کہ مرزا ظفر الحسن نے لکھتے ہیں کہ:
"فیض کا مزاج اب جیسا ہے طالب علمی میں بھی ویسا ہی تھا۔ نرمی، مٹھاس، کم آمیزی اور کم سخنی۔ نہ فساد کر سکیں، نہ دوسروں کے پیدا کردہ فساد میں کوئی دلچسپی لیں۔”3
(2)
یہ سکون اور نرمی ان کی شاعری کو ایک ایسا روپ عطا کرتی ہے جو انقلابی نعروں اور جوشیلہ شاعری کی سختی سے یکسر مختلف ہے۔ ان کی نظموں میں رومانوی باغیانہ انداز نظر آتا ہے، جو ان کے نظریاتی اور جذباتی کشمکش کا مظہر ہے۔
یہ کشمکش ان کے شعری بیانیے میں اکثر جھلکتی ہے، جیسا کہ ان کی نظم "کچھ عشق کیا کچھ کام کیا” میں نظر آتا ہے۔ یہاں وہ خود اس کشمکش کا اعتراف کرتے ہیں:
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا
کام، عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آ کر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا (کچھ عشق کیا کچھ کام کیا) 4
یہ اشعار نہ صرف ان کی داخلی کیفیت کا بیان ہیں بلکہ ان کے طرزِ اظہار کی اس دھیما پن والی خصوصیت کا بھی مظہر ہیں جو ان کے کلام کو دیگر انقلابی شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کے اشعار میں دھیما پن محض الفاظ کی نرمی نہیں بلکہ خیالات کی ایک گہری تہذیب اور جمالیاتی احساس کا حصہ ہے، جو ان کی شاعری کو بے مثال بناتا ہے۔
(3)
فیض احمد فیض کی نظم نگاری میں عشق و محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ان کے اشعار کی روح میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ ان کی نظموں میں عشق نہ صرف ذاتی جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ایک آفاقی مظہر کے طور پر بھی ابھرتا ہے، جو انسانیت کے دکھ درد اور محرومیوں کے گرد ایک گہرے تعلق کا استعارہ بن جاتا ہے۔ فیض کے ہاں محبت کی وسعت اور گہرائی اس قدر نمایاں ہے کہ یہ کبھی فردِ واحد کی دیوانگی کی حدوں کو چھوتی ہے، تو کبھی کائنات کی لا محدود وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔
یہ عشق کبھی دھیمی دھیمی لو کی طرح سلگتا ہے اور کبھی انسانیت کے درد و کرب میں ڈوب کر احتجاج کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ان کے اشعار میں عشق کے رنگ ہزار جہات میں بکھرتے ہیں۔ فیض کی شاعری کی یہ خصوصیت انھیں دیگر شعراء سے ممتاز کرتی ہے، جہاں ان کے کلام میں عشق و محبت صرف ایک رومانوی تجربے تک محدود نہیں رہتا بلکہ معاشرتی ناانصافیوں اور طبقاتی تفریق کے خلاف ایک بھرپور آواز بن جاتا ہے۔ ان کا جذبہِ محبت صرف محبوب کی زلفوں اور آنکھوں میں مقید نہیں رہتا بلکہ یہ ان کے وسیع تر انسانی شعور کا مظہر بن کر دلوں میں نئی امید پیدا کرتا ہے۔
فیض کی شاعری میں محبت اور درد کی لہریں ایک دوسرے کے ساتھ گہرے تعلق میں نظر آتی ہیں۔ یہ محبت کبھی ایک شخص کے تصور کی دلکشی میں ڈھلتی ہے اور کبھی یہ ایک آفاقی جذبے کی صورت میں تمام انسانیت کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ وہی محبت ہے جسے وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا (مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ )5
یہاں محبت ایک ایسی علامت بن کر ابھرتی ہے جو صرف ذاتی تجربے تک محدود نہیں بلکہ انسانیت کے اجتماعی دکھوں کی تشریح کرتی ہے۔ فیض کی شاعری کے مختلف ادوار میں محبت کے اس آفاقی تصور کو مختلف رنگوں اور انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس سے ان کی نظموں میں نہ صرف گہرائی بلکہ ایک وسیع تر اثر بھی پیدا ہوا ہے۔
فیض کی یہ محبت ان کے وجود کا خمیر تھی لیکن اس کا اظہار ان کے کلام میں تدریجاً ہوا۔ ان کی زندگی کے تجربات اور دنیا کے دکھی انسانوں کے ساتھ تعلق نے ان کی محبت کو مزید وسیع اور گہرا بنا دیا۔ وہ کہتے ہیں:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے (لوح و قلم )6
(4)
فیض کے ہاں محبت اور جدوجہد ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نظر آتی ہیں۔ یہ جذبہ نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ ان کے شعری اظہار کا بھی ایک لازمی عنصر ہے۔ ان کے ہاں عشق و محبت جدوجہد کا نام ہے، جس میں تہمت لگنا ایک لازمی شرط ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں خاک بر سر، پا بہ جولاں، دست افشاں چلنا ہی مقدر ٹھہرتا ہے:
چشمِ نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو (آج بازار میں پا بہ جولاں چلو )7
فیض کی نظم نگاری میں محبت و جدوجہد کے اس جذبے کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ فرد کی ذاتی کیفیت کو انسانیت کے اجتماعی تجربے سے جوڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام آج بھی دنیا بھر کے انسانوں کے دلوں کو متاثر کرتا ہے اور محبت کے ایک آفاقی پیغام کے طور پر زندہ ہے۔
(5)
فیض احمد فیض کی نظم نگاری کا ایک اور منفرد پہلو ان کے کلام کی انفرادیت ہے جو نہ صرف موضوعاتی گہرائی سے عبارت ہے بلکہ اسلوبیاتی ہم آہنگی کا اعلیٰ نمونہ بھی پیش کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں خیالات اور اندازِ بیان کا ایسا امتزاج پایا جاتا ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ فیض نے مروجہ شعری اسالیب سے انحراف کرتے ہوئے بھی وہ شعری کیفیت اور تاثیر برقرار رکھی جو ایک اچھے شاعر کی پہچان ہے۔ ان کے کلام کا جمالیاتی پہلو اس قدر نمایاں ہے کہ قاری کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کسی تجربے یا ہئیتی تبدیلی کا سامنا کر رہا ہے۔
فیض کی انفرادیت کا راز ان کے افکار کی گہرائی اور زبان کی لطافت میں پوشیدہ ہے۔ وہ تجربے کو محض انفرادیت پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتے بلکہ اسے اظہار کے ناگزیر تقاضوں کے تحت بروئے کار لاتے ہیں۔ ان کے یہاں اسلوب موضوع کے تابع ہوتا ہے، نہ کہ موضوع اسلوب کے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انحرافی تجربات بھی قاری کے لیے بوجھ نہیں بنتے بلکہ شاعری کے فطری بہاؤ کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ان کی نظم "بول” میں دیکھا جا سکتا ہے:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے (بول )8
یہ اشعار ایک واضح انقلابی پیغام کے ساتھ اظہار کی آزادی کی طاقت کو بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں کوئی غیر ضروری اسلوبیاتی تجربہ شامل نہیں جو اس پیغام کی اثرپذیری کو کمزور کرے۔
(6)
فیض کی نظموں کا ایک اور نمایاں پہلو ان کے کلام میں موجود موضوعاتی اور اسلوبیاتی ہم آہنگی ہے۔ وہ جذباتی اور ذہنی موضوعات کو اس مہارت سے پیش کرتے ہیں کہ قاری نہ صرف ان موضوعات کو قبول کرتا ہے بلکہ ان سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ ان کے کلام میں ایک ایسی جمالیاتی کشش ہے جو ہر ذہنی سطح کے قاری کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔ وہ ان تجربات کے بھی قائل ہیں جن کا مقصد صرف تجربہ کرنا نہیں بلکہ کلام کو معنیاتی گہرائی اور فکری وسعت عطا کرنا ہے۔ جیسا کہ ان کی نظم "مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ” میں ملتا ہے:
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے (مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ )9
یہ اشعار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ فیض کے نزدیک شاعری کی اصل طاقت اس کی شعری تاثیر میں پوشیدہ ہے، نہ کہ محض اسلوبیاتی نیاپن میں۔
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آئے
جیسے صحراوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے (قطعہ)10
فیض کے کلام کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے اس انفرادی رویے کو مدنظر رکھا جائے جو شاعری کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ ان ذہنی اور جذباتی موضوعات کو اپناتے ہیں جو عام طور پر انسانی تجربے کا حصہ ہوتے ہیں، اور ان پر ایسے اسلوب میں بات کرتے ہیں جو قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔ یہی انفرادیت ہے جو ان کی نظم نگاری کو ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے اور ان کی شاعری کو ادب کے اعلیٰ معیار پر فائز کرتی ہے۔
(7)
فیض احمد فیض کی شاعری میں حسن و محبت کا جو تصور نمایاں ہے، وہ ان کی نظموں کا مرکزی موضوع اور فکری بنیاد ہے۔ فیض صاحب نے حسن کو محض جمالیاتی یا روحانی قدر کے طور پر نہیں، بلکہ سماجی، اخلاقی اور تخلیقی کسوٹی کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے ہاں حسن کا تصور ایک وسیع کائناتی تجربہ ہے، جس میں زندگی کے جملہ رنگ، غم و الم، خوشی و سرور اور سماجی مسائل کے عناصر شامل ہیں۔ یہ حسن ان کے خیال میں ایسا اثاثہ ہے، جو انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے اور اسے زندگی کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا شعور دیتا ہے۔
فیض کی شاعری کا حسن صرف فطرت یا محبت کے جمال میں محدود نہیں، بلکہ انسانی وقار اور آزادی کی جستجو میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کے اشعار میں حسن کی تعریف سماجی اور اخلاقی اقدار کے دائرے میں کی گئی ہے۔
فیض کا فلسفہِ حسن و محبت اپنی ذات میں انقلاب کا پیغام ہے۔ ان کی شاعری انسانیت سے محبت اور سماجی انصاف کے خوابوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کے ہاں محبت محض ذاتی خواہش نہیں بلکہ ایک آفاقی سچائی ہے، جو انسانی روح کو بلند کرتی ہے اور ظلم و استبداد کے خلاف مزاحمت کی ترغیب دیتی ہے۔
(8)
فیض کی شاعری میں حسن کے مثبت پہلو کے ساتھ ساتھ اس کے منفی پہلو کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ ہر اس عنصر کو بدصورتی اور نفرت کے لائق سمجھتے ہیں، جو زندگی کے حسن کو داغدار کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی استحصالی قوتیں، غلامی کا تصور، انسانی آزادی کی پامالی، اور تخلیقی اظہار کی راہیں محدود کرنے والے عوامل، سب ان کے نزدیک حسن اور محبت کے دشمن ہیں۔ فیض کی نظر میں محبت اور حسن صرف ذاتی خوشی کا وسیلہ نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کی تعمیر و ترقی کا جوہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سماجی ناانصافیوں، جنگی حالات اور انسانی حقوق کی پامالی پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔
یہ اشعار ان کے دل کی اس کیفیت کا آئینہ ہیں، جو ذاتی غم اور اجتماعی مسائل کو یکساں طور پر اپنے دائرۂ اثر میں لیتی ہے۔ ان کے نزدیک محبت ایک ایسی قوت ہے جو نہ صرف فرد کی زندگی کو سنوارتی ہے بلکہ سماجی نظام کو بھی بہتر بنانے کا محرک بن سکتی ہے۔
فیض کی نظموں میں حسن و محبت کا امتزاج نہ صرف ان کے فکری عمق کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے دنیا میں حسن اور محبت کی حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔ ان کی نظمیں زندگی کے حسن کو دریافت کرنے کی کوشش ہیں اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کا پیغام دیتی ہیں۔وہ ہر اس عمل سے نفرت کرتا ہے جو محبت کو پامال کرے، اور ہر اس عنصر کو بد صورت قرار دیتا ہے جو فطری حسن کی تخریب کاری کرے۔ یوں ان کی شاعری فرد اور سماج دونوں کے لیے ایک نئی امید اور جستجو کی علامت بن جاتی ہے۔
(9)
فیض کی نظموں میں قنوطیت اور رجائیت کے امتزاج نے انھیں اردو ادب کے منفرد افق پر جگہ دی ہے۔ ان کی نظموں میں قنوطیت کا رنگ زندگی کی تلخیوں، معاشرتی ظلم اور نا انصافی کے خلاف ایک دردناک احتجاج کے طور پر ابھرتا ہے۔ یہ وہ جذبات ہیں جو ان کے عہد کی سیاسی اور سماجی بے حسی کی تصویر کشی کرتے ہیں، جہاں امید کی روشنی مدھم نظر آتی ہے:
بربط دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر و عمل!
بزمِ ہستی کے جام ٹوٹ گئے (یاس )11
گزر رہا ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ زیست ہے آزردۂ بہار ابھی (انتظار )12
ہیں لبریز آہوں سے ٹھنڈی ہوائیں
اداسی میں ڈوبی ہوئی ہیں گھٹائیں
محبت کی دنیا پہ شام آچکی ہے
سیہ پوش ہیں زندگی کی فضائیں (انجام )13
دوسری جانب، فیض کی شاعری رجائیت کی ایک گہری جھلک بھی پیش کرتی ہیں، جو مشکلات کے درمیان ایک نئی صبح کی امید جگاتی ہے۔ وہ دکھ اور جدجہد کو شکست تسلیم نہیں کرتا، بلکہ ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے:
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے (آج کی رات )14
اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
اس کنج سے پھوٹے کی کرن رنگِ حنا کی
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
اس راہ پہ پھیلے گی شفق تیری قبا کی (دو عشق )15
(10)
فیض احمد فیض کی نظمیں اپنی وسعت اور آفاقیت کے باعث اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ وہ محض اپنے وطن کے عوام کی ترجمانی تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے تیسری دنیا کے محکوم و مظلوم انسانوں کی آواز بن کر ایک ایسی بین الاقوامی حیثیت اختیار کی جو اردو شاعری میں ایک نادر اضافہ ہے۔ فیض کی نظموں میں یہ بین الاقوامیت ان کے اس شعوری رویے کا مظہر ہے جو تعصبات سے آزاد اور انسان دوستی پر مبنی ہے۔ وہ قومی و جغرافیائی حدود کو عبور کرتے ہوئے انسانیت کے اجتماعی درد کو اپنی شاعری میں سمو دیتے ہیں۔
فیض کی شاعری میں بین الاقوامیت کے عناصر ان کے ہم عصر سیاسی، سماجی، اور تاریخی پس منظر سے براہ راست متاثر ہیں۔ لیکن یہ کہنا قطعاً غلط ہوگا کہ انہوں نے اپنی نظموں کو واقعات کا محض بیانیہ بنایا۔ بلکہ فیض نے زمانے کی روح کو اپنے اندر جذب کر کے اسے ایک جمالیاتی تجربے میں ڈھال دیا۔ ان کی نظموں میں واقعات محض حوالہ بن کر رہ جاتے ہیں جبکہ ان کے بنیادی مقاصد انسانیت کے وسیع تر دکھوں، امنگوں اور جدوجہد کو گویائی دینا ہے۔ ان کی نظم "دیر نہ کرنا” ان کی بین الاقوامیت کا ایک نادر نمونہ ہے، جہاں وہ عالمی سطح پر ظلم اور استحصال کے خلاف مزاحمت کی علامت بن جاتے ہیں۔
فیض کا یہ انسانی درد کسی محدود قومی یا سماجی شعور کی پیداوار نہیں بلکہ وہ کائناتی وسعت کا حامل ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو نہ صرف وطن کی آزادی کے گیت گاتا ہے بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کی چیخ و پکار کو بھی اپنی آواز بناتا ہے۔ افریقی حریت پسندوں سے لے کر ایرانی طلبا کی تحریک تک، ہر جگہ فیض نے اپنے قلم کے ذریعے ان مظلوموں کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔
یہ کون جواں ہیں ارضِ عجم
یہ لکھ لٹ
جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے (ایرانی طلبا کے نام )16
آ جاؤ نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آ جاؤ مست ہو گئی میرے لہو کی تال
” آ جاؤ ایفریقا” ( افریقہ کم بیک )17
فیض کی نظم "سر وادیٔ سینا” میں یہی بین الاقوامیت پوری قوت کے ساتھ جلوہ گر ہے:
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادئ دینا
پھر رنگ پہ ہے شعلئہ رخسار حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدار حقیقت (سرِ وادئ سینا )18
فیض کی انسان دوستی نسل، رنگ، اور ملت کے تعصبات سے پاک ہے۔ وہ مظلوموں کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ جب امریکی حکام ایتھل اور جولیس روزن برگ کو تختہ دار پر چڑھاتے ہیں، تو فیض ان کی یاد میں ایک ایسا مرثیہ تخلیق کرتے ہیں جو انقلابی شاعری کی تاریخ میں اپنی نظیر آپ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں
در کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے (ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے )19
یہ شاعری نہ صرف ایک جدوجہد کی داستان سناتی ہے بلکہ فیض کے اس عزم کی بھی غماز ہے جو جبر و استبداد کے خاتمے کے لیے ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں بین الاقوامیت اس طرح موجود ہے کہ وہ ظلم اور بغاوت کو مقامی دائرے سے نکال کر ایک عالمی شعور میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اپنے عہد کی حدود کو عبور کرتے ہوئے ہمیشہ زندہ رہنے والی حقیقت بن جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی، فیض صاحب فلسطین کو اپنا دوسرا وطن مانتے ہیں۔ ان کی متعدد نظموں میں براہ راست فلسطین اور اس پر ڈھائے گئے مظالم کا ذکر ملتاہے:
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
(فلسطینی بچے کے لیے لوری )20
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زھق الباطل
فرمودہِ ربِ اکبر
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایہ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے (ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے )21
میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری الفت تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم (فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے )22
فیض نے عالمی تحریکوں سے اپنی شاعری کو ایک ایسا آفاقی رنگ دیا جو صرف اردو ادب تک محدود نہیں بلکہ انسانی شعور کی بلند ترین سطح پر جا کر اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کی بین الاقوامیت، جو انسان دوستی اور عالمی انصاف پر مبنی ہے، ان کی شاعری کو نہ صرف ان کے ہم عصروں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشنی کا مینار بنا دیتی ہے۔
اختتام
فیض احمد فیض کی نظم نگاری اردو ادب میں ایک ایسا روشن باب ہے جو نہ صرف اپنی فکری گہرائی اور جمالیاتی لطافت کے لیے ممتاز ہے بلکہ اپنے عہد کے شعور اور انسانی جدوجہد کے نمائندہ پہلوؤں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ ان کی نظموں کی خاصیت یہ ہے کہ وہ محبت، درد، اور انقلاب کو ایک ایسے ہم آہنگ انداز میں پیش کرتی ہیں جو دلوں کو چھو لیتا ہے اور ذہنوں میں دیرپا اثر چھوڑتا ہے۔ فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف اردو ادب کو وسعت دی بلکہ اسے عالمی سطح پر ایک مؤثر آواز بھی بنایا۔
ان کی تخلیقات میں ترقی پسند نظریات، جمالیاتی خوبصورتی، اور انسانی جذبات کی عکاسی ایک ایسی ہمہ جہتی کے ساتھ موجود ہے کہ ان کی شاعری ہر دور میں تازگی اور معنویت کا احساس دلاتی ہے۔
وہ اپنے الفاظ کے ذریعے مظلوموں کی امید بنے، محبت کا استعارہ بنے، اور جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بنے۔
فیض کی نظم نگاری کی خصوصیات ان کی منفرد آواز، انسانی کرب کے احساس، اور آفاقی پیغام میں پوشیدہ ہیں۔ یہی وہ خصوصیات ہیں
جو ان کی شاعری کو ہر دلعزیز بناتی ہیں اور ادب کے افق پر ہمیشہ کے لیے زندہ رکھتی ہیں۔ فیض کی نظمیں نہ صرف ان کے عہد کی کہانی سناتی ہیں بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی روشنی کی مشعل کا کام کرتی ہیں، یہی ان کی شاعری کا کمال ہے اور ان کا سب سے بڑا ادبی ورثہ۔
آخر میں” فیض کی یاد میں”، نظم سے حبیب جالب کا مطلع پیش ہےکہ:
فیض اور فیض کا غم بھولنے والا ہے کہیں
موت پہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں
حوالہ جات
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم : حسینئہ خیال سے!، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 22۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، شامِ شہریاراں، عہدِ طفلی سے عنفوانِ شباب تک، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 14۔
مرزا ظفر الحسن، عمر گزشتہ کی کتاب، (کراچی: ادارہ یاد گارِ غالب، 1978ء)، ص 49۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، شامِ شہریاراں، نظم: کچھ عشق کیا کچھ کام کیا، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 76۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم: مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 69۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، دستِ صبا، نظم: لوح و قلم، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 23۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، دستِ تہِ سنگ، نظم: آج بازار میں پا بہ جولاں چلو، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 44۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم: بول، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 73۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم: مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 69۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، قطعہ، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 03۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم: یاس، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 39۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم: انتظار، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 30۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم: انجام، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 14۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، نقشِ فریادی، نظم: آج کی رات، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 41۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، دستِ صبا، نظم: دو عشق، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 47۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، دستِ صبا، نظم: ایرانی طلبا کے نام، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 59۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، زنداں نامہ، نظم: افریقہ کم بیک، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 88۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، سرِ وادئ سینا ، نظم: سرِ وادئ سینا، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 53۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، زنداں نامہ، نظم: ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 76۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، مرے دل مرے مسافر، نظم: فلسطینی بچے کے لیے لوری، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 52۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، غبارِ ایام، نظم: ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 12۔
فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، مرے دل مرے مسافر، نظم: فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے، (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1992ء)، ص 50۔
فیض احمد فیض کی نظم نگاری کی خصوصیاتتحریر: سید عبدالوحید فانی (طالبِ علم اردو ادب میقات چہارم، گورنمنٹ ڈگری کالج پشین، بلوچستان)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں