موضوعات کی فہرست
ارسطو کا نظریہ تنقید
بوطیقا اور تنقیدی افکار
ادب پاروں کے متعلق اس کے محاکمے اس کے نظریات کا ٹھوس انطباق ہوتے ہیں۔ اس کے ذہن میں نہ تو مثالی ناقد کا کوئی تصور ہے اور نہ ہی وہ ماہرین کی آرا پر کوئی اعتماد کرتا ہے۔ ادبی شہ پاروں کے متعلق ارسطو سب سے زیادہ وقیع ان تعلیم یافتہ اہل ذوق حضرات کی رائے کو سمجھتا ہے جو فن پارے کے کسی ایک عنصر پر رائے دینے کے بجائے پورے فن پارے پر رائے دیتے ہیں ۔ اس لیے اس کی نظر میں ایسے ہی اہل ذوق حضرات تنقید کا معیار پیش کر سکتے ہیں۔ (۸)
یورپ میں سب سے قدیم تنقیدی کتاب ارسطو کی ” بوطیقا” ہے۔ اس کے پانچ حصے ہیں۔ اس کتاب سے ارسطو کے تنقیدی خیالات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں :
ارسطو کتاب الشعر میں محض شاعری ہی سے بحث نہیں کرتا بلکہ اس کا موضوع بحث پورا ادب ہے ۔ وہ شعر کہہ کر ادب مراد لیتا ہے ۔ نثر کو وہ علیحدہ جگہ اس لیے نہیں دیتا کہ اس وقت تک یونان میں نثر بہت کم لکھی گئی تھی۔ (۹)
ارسطو کے سامنے رزمیہ، المیہ اور طربیہ نظمیں تھیں ۔ جن پر وہ بحث کرتا ہے۔ اس کا زیادہ زور المیہ پر ہے اور کہتا ہے کہ المیہ بہتر صنف سخن ہے۔ ڈرامہ اس دور میں مقبول صنف تھی۔ اس لیے ارسطو ڈرامے پر بھی بحث کرتا ہے اور ڈرامے کی ساخت کے متعلق وحدت عمل (Unity of Action) کا پہلا اصول دریافت کرتا ہے۔
تزکیہ نفس کا نظریہ
ارسطو نے تزکیہ نفس (Katharsis) کا نظریہ پیش کیا اور المیے کی اہمیت کو واضح کیا۔ ارسطو شعر کی بنیاد، شعر کی ماہیت اور موضوع کو سمجھتا ہے، ہیئت اور الفاظ کو نہیں۔ اس کا یہ خیال آج تک اہمیت کا حامل ہے۔
روما عہد کے نقادین
لانجائنس اور نظریہ ترفع
اس کے بعد ادبی تنقید کا ایک بڑا نام روما عہد میں نظر آتا ہے ۔ وہ نام ہے لانجائنس (Longinus) (۰۲۱۳ – ۲۷۲ء)۔ اس عہد میں چند اور نام بھی لیے جا سکتے ہیں جن میں سسرو (Cicero) (۲۷۲-۰۲۱۳)، ہوریس (Horace) (۶۵-۸ ق م) اور کونٹولین (Quintilian) (۱۰۰-۳۵ ق م ) شامل ہیں۔
افلاطون اور ارسطو نے کہا تھا کہ ادب، ترغیب دینے، مسرت بہم پہنچانے اور تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے جبکہ لانجائنس نے ان نظریات کو رد کیا اور کہا کہ ادب میں ایک ایسی جمالیاتی طاقت ہوتی ہے جو آدمی کو اعلیٰ و ارفع سطح پر لے جاتی ہے اور اس کی ذات کو متاثر کرتی ہے وہ قوت ” ترفع “ ہے۔ لانجائنس عظیم ادب کا علم بردار تھا ۔ اس کے یہاں رومانوی رجحان اور کلاسیکی رجحان دونوں یک جا ہیں اور اسی طرح ادب میں عظمت ان دونوں رجحانات کے ہم آہنگ ہونے سے ہے۔
تیسری صدی سے تیرہویں صدی تک تنقید
دانتے کا تنقیدی کردار
تیسری صدی عیسوی سے تیرہویں صدی عیسوی تک ہمیں یورپ سے تنقیدی مواد بالکل دستیاب نہیں ہے ۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ہمیں دانتے (Dante) (۱۲۶۵ء ۔ ۱۳۲۱ء) ایک شاعر نظر آتا ہے جس نے شاعری اور ادب کے لیے موضوع فکر اور مواد کو ضروری قرار دیا۔ اس نے موضوع کو زبان پر فوقیت دی ہے۔
جدید یورپی تنقید کے اہم نقادین
بحث کو سمیٹتے ہوئے چند مفکروں کا ذکر کیا جاتا ہے جنھوں نے تنقید کو سمجھنے اور اس کو نئی راہیں متعین کرنے کی کوششیں کی ہیں ان میں سر فلپ سڈنی (Sir Philip Sydney) (۱۵۵۴ – ۱۵۷۶ء ) ، ڈرائیڈن (Dryden) (۱۶۳۱ – ۱۷۰۰ء) ورڈزورتھ (۱۷۷۰ء – ۱۸۵۰ء) ، کولرج (۱۷۷۲ء ۱۸۳۴ء) میتھیو آرنلڈ (۱۸۳۲ء ۱۸۸۸ء)، کروچے (۱۸۶۶ ۱۹۰۲ء)، اور ٹی ایس ۔ ایلیٹ (T.S. Eliot) (۱۸۸۸ء ۔ ۱۹۴۰ء) وغیرہ شامل ہیں ۔
تنقیدی نظریات اور ادب کا مقصد
مختلف ادوار میں ادب کا مقصد
دستیاب مواد کے مطابق تنقید جس کا آغاز ہومر نے تقریباً ساڑھے آٹھ صدیاں قبل مسیح کیا تھا ۔ آج تقریباً ساڑھے اٹھائیس صدیاں گزر جانے کے باوجود نقاد کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہو سکے۔ تنقید کی تعریف سے قطع نظر اگر یہ دیکھا جائے کہ مختلف ادوار میں ادب یا شاعری کا مقصد یا وظیفہ کیا سمجھا جاتا رہا ہے تو وہ بھی مختلف نظریات ملتے ہیں۔
پانچویں صدی ق م سے قبل ہومر کے دور میں ادب یا شاعری کو مسرت بہم پہنچانے کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا، زیادہ وسیع معانوں میں شاعری کا مقصد مسرت اور غم کے جذبات بیدار کرنا تھا۔ افلاطون نے کہا کہ فن تاثر پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور انسانی بصیرت کو تیز تر کرتا ہے۔ ارسطو کے خیال میں شاعری مسرت بہم پہنچاتی ہے اور خصوصاً المیہ تحلیل نفسی ۔ تزکیہ نفس (Katharsis) کرتا ہے ۔ عہد روما میں ہوریس (Horace) نے شاعری یا ادب کو درس دینے اور مسرت بہم پہنچانے کا وظیفہ سونپا لانجائنس ( تیسری صدی عیسوی) فن پارے کے روحانی ” ترفع ” کا قائل ہے جس کا مطلب ہے ادب انسان کو عالم وجد میں پہنچا دیتا ہے۔
سر فلپ سڈنی ( سولہویں صدی عیسوی) کے نزدیک شاعری اشیاء کو اس سے بہتر طور پر پیش کرتی ہے۔ جیسی کہ وہ فطرت میں موجود ہوتی ہیں یا پھر ان ہیئتوں کو جنم دیتی ہے جو فطرت میں نہیں ہوتیں۔ ڈرائیڈن (Dryden) شاعری کو مسرت بخشنے کا وظیفہ سونپتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن (Dr. Johnson) (اٹھارویں صدی نصف ابتدائی ) کہتا ہے کہ ادب یا شاعری عام انسانی فطرت کا نمائندہ ہو اور مسرت بہم پہنچائے ۔
ورڈزورتھ (Wordsworth) (انیسویں صدی کا آغاز ) ادب کا مقصد شاعری کے ذریعہ درس دینا سمجھتا ہے کولرج (Coleridge) کے نزدیک بھی شاعری کا فوری مقصد مسرت بخشنا ہے ۔ ایڈگر ایلن پو (Edgar Allan Poe) ( بیسویں صدی ) نے فن برائے فن کا نظریہ پیش کیا ، فرانسیسی نقاد طین (Taine) نے تصور پیش کیا کہ انسانی معاشرے کی تخلیقی قوتوں کا اظہار ادب ہے یا ادب ادیب کی شخصیت کا اظہار ہے ۔ میتھیو آرنلڈ (Matthew Arnold) شاعری کو تنقید حیات تصور کرتا ہے۔
رسکن (Ruskin) شاعر کو معلم اخلاق سمجھتا ہے ۔ واٹر پیٹر (Walter Pater) کے مطابق ادب خود ایک مقصد ہے یعنی یہ کسی اعلیٰ مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ۔ کروچے (Croce) فن کو محض اظہار سمجھتا ہے اس کی نظر میں ابلاغ کا عنصر نہیں ہوتا۔ اور ٹی ایس ایلیٹ (T.S. Eliot) (۱۸۸۸ء ۱۹۶۴ء) کہتا ہے شاعری شخصیت اور جذبات کا اظہار نہیں بلکہ ان سے فرار ہے ۔ (غیر شخصی تصور شاعری )
موجودہ دور میں ادب کا فریضہ
تنقیدی نظریات پر اس سرسری نظر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مختلف ادوار میں ادب یا شاعری کے بارے میں مختلف نظریات موجود رہے ہیں کہیں پہلے سے موجود نظریات کو رد کیا گیا اور کہیں انہی میں اضافہ اور بہتری کی کوشش کی گئی کہیں ادب کو مسرت بہم پہنچانے کا ذریعہ سمجھا گیا تو کہیں تزکیہ نفس کہا گیا ، اسی طرح ادب کو ترفع بخشنے کا وظیفہ بھی سونپا گیا اور کبھی یہ کہا گیا کہ ادب بجائے خود ایک مقصد ہے ، اشیاء کو بہتر پیش کرنے کا نظریہ بھی پیش کیا گیا ، اظہار ذات ، یا محض اظہار بھی سمجھا گیا، کہیں فن پارے کو تخلیق کار سے الگ رکھ کر پرکھا گیا اور کہیں فن پارے کے پس پشت تخلیق کار اور ان حالات کو بھی مد نظر رکھا گیا جن حالات کے تحت وہ فن پارہ وجود میں آتا ہے۔
موجودہ دور میں اگر ادب پر نظر ڈالی جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ موجودہ ادب معاشی ناہمواریوں اور معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف شدید احتجاج ہے۔ اس میں نہ تو رومانوی عنصر واضح شکل میں نظر آتا ہے اور نہ ہی ترقی پسندی کی توسیع ملتی ہے بس ظلم اور نا انصافی کے خلاف سراپا احتجاج ادب ملتا ہے۔
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70 کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاہ
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 13،14
- آپ تک پہنچانے میں معاون: آینزہ سلیم
