احتشام حسین کی تنقید نگاری | Ehtesham Hussain ki tanqeed nigari
احتشام حسین کی تنقید نگاری
کتاب کا نام ۔۔۔اردو تنقید ۔کورس کوڈ۔۔۔9028
——————————————مصنف نمبر۔۔1.. احتشام حسین
احتشام حسین اردو کے سماجی اور مارکسی تنقید کے سب سے اہم نقاد ہیں۔ ان کو اشترا کی نقادوں میں سب سے زیادہ فاضل اور صاحب مطالعہ نقاد کہا جا سکتا ہے۔ مطالعے کی وسعت کا اندازہ ان کے مضامین کے موضوعات سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ غالبا وہ پہلے نقاد ہیں جن کے ہاں ایک مخصوص نظریہ سے تعلق رکھنے کے باوجود گیرائی اور گہرائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: احتشام حسین ایک مطالعہ pdf
ان کے اہم مجموعے درج ذیل ہیں: ادب اور سماج ہکس اور آئینے ، روایت اور بغاوت ، افکار و مسائل، تنقیدی جائزے عملی تنقید، اعتبار نظر، ذوق ادب اور شعور۔ پہلا مجموعہ تنقیدی جائزے ۱۹۴۴ء میں منظر عام پر آیا، اگرچہ تصنیفی زندگی کا آغاز ۱۹۳۲ء سے ہو گیا تھا۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہونے کی حیثیت سے آپ میں بھی اپنی روایت سے عدم اطمینان کی لہر موجود تھی۔
اس لیے وہ فورا ہی ترقی پسند تحریک کے زیر اثر آئے لیکن ایک چیز جو انھیں نمایاں کرتی ہے یہ ہے کہ احتشام حسین نے عام ترقی پسندوں کے برعکس گذشتہ ادوار کے ادب کو سرے سے قلم زد کرنے کی بجائے نئے علوم اور نئے تہذیبی و معاشرتی تصورات کی روشنی میں اسے ایک نئی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی ۔“
یہ بھی پڑھیں: اردو تنقید اور سید احتشام حسین | pdf
انھوں نے اپنی تنقید میں خصوصاً سماجی علوم کو بطور پس منظر استعمال کیا۔ اصول تنقید اور تنقید کی ضرورت ، اہمیت اور ماہیت پر آپ نے قریباً درجن بھر مضامین لکھے۔ دیگر ترقی پسند ناقدین کی طرح ان کی عمومی خامی بہر حال یہی ہے کہ وہ ادب کو ایک سماجی دستاویز سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ اس تضاد کی طرف ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی اشارہ کرتے ہیں:
احتشام حسین ادبی تنقید کی روایت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ تنقید کا دائرہ کار کیا ہے اور تنقید کے نام سے لکھی جانے والی کون کون سی باتیں تنقید کے دائرہ کار میں نہیں آتیں ، مگر ان کی مشکل صرف یہ ہے کہ وہ ان بنیادی تعریفوں اور اصولوں میں بھی اپنی سماجی وابستگی کا ذکر ضرور کرنا چاہتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصول، اصول نہیں رہ جاتے ، تعریف تعریف نہیں رہ جاتی، پوری کی پوری تنقید یا ادب کی تفہیم یا پرکھ کے تمام
نظریات سماجیات کا لاحقہ بن کر رہ جاتے ہیں ۔
(احتشام حسین کے تنقیدی رویے، مشمولہ ایضاً، ص ۱۴۷، ۱۴۸)
بہر حال تنقید میں احتشام حسین کی شکل میں ایک توازن قائم ہونے کا آغاز ہوتا ہے، مثلاً ترقی پسند نقاد ہونے کے باوجود انھوں نے اختر شیرانی ، اکبرالہ آبادی اور جگر کی شاعری پر قلم اٹھایا ہے اور انھیں سراہا ہے۔ کلیم الدین احمد کا یہ بیان بینی بر انصاف معلوم نہیں ہوتا کہ احتشام صاحب کوئی نئی بات نہیں کہتے یعنی وہ وہی کہتے ہیں جو دیگر ترقی پسند نقاد بھی کہتے ہیں۔
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں