مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ڈاکٹر وزیر آغا اور امتزاجی تنقید اردو ادب میں ایک نیا رویہ

ڈاکٹر وزیر آغا کا تعارف اور حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی

ڈاکٹر وزیر آغا آغاز سے ہی حلقہ ارباب ذوق کے اراکین میں شامل تھے۔ اراکین شاخ لاہور کے ۱۹۴۰ء کے ارکان کی فہرست میں ڈاکٹر وزیر آغا کا نام شامل ہے۔ اس طرح آخری اراکین کی فہرست جو کہ ڈاکٹر یونس جاوید نے درج کی ہے وہ ۹۸ – ۱۹۹۹ ء کی ہے۔ اس میں بھی ڈاکٹر وزیر آغا کا نام اراکین کی فہرست میں شامل ہے۔

یوں دیکھا جائے تو ڈاکٹر وزیر آغا شروع سے لے کر آخر تک حلقے میں شامل رہے۔ انھوں نے صدارتی خطبات بھی دیئے ۔ حلقے کے پلیٹ فارم سے نظموں کے مجموعے میں نظمیں بھی لکھیں اور حلقے کی مجالس میں مختلف فن پاروں پر تنقیدی آراء بھی دیتے رہے۔

اس طرح ڈاکٹر وزیر آغا کو کسی ایک دہائی میں شامل کرنا نا انصافی ہوگا وہ کئی دہائیوں تک حلقے سے منسلک رہے ہیں اور ان کی تنقیدی آراء بھی حلقے کے لیے اہمیت کی حامل رہی ہیں۔

ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقیدی کتب اور امتزاجی تنقید

تنقیدی فکر کا مجموعی جائزہ

ہم یہاں ان کی مجموعی تنقیدی فکر کا جائزہ لیں گے جو کہ ان کی مختلف کتابوں اور رسائل و جرائد سے ملتی ہیں "تنقید اور احتساب"، "تخلیقی عمل"، "نئے تناظر"، "دائرے اور لکیریں"، "تنقید اور جدید اردو تنقید"، "انشائیہ کے خدو خال"، "ساختیات اور سائنس"، "اردو ادب میں طنز و مزاح"، "اردو شاعری کا مزاج"، "غالب کا ذوق تماشا"، "معنی اور تناظر"، "نظم جدید کی کروٹیں"، "امتزاجی تنقید کا سائنسی و فکری تناظر” اور "تنقید اور مجلسی تنقید” ان کی تنقیدی کتب ہیں۔

"اوراق” میں بھی ان کی تنقیدی آراء شامل ہوتی رہی ہیں اس کے علاوہ متعدد جرائد و رسائل میں ان کے تنقیدی مضامین کئی عشروں تک شامل ہوتے رہے ہیں ان کی تنقیدی آراء کا جائزہ کسی ایک رخ سے نہیں لگایا جا سکتا البتہ مجموعہ طور پر دیکھا جائے تو وزیر آغا امتزاجی تنقید کے حق میں نظر آتے ہیں۔ ایک لحاظ سے وہ اردو میں اس طرز تنقید کے بنیاد گزار ہیں۔

اردو میں مختلف تنقیدی مکاتب میں سے ایک امتزاجی تنقید بھی ہے۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی میں جو مختلف تنقیدی (۱۹۸) نظریات سامنے آئے ان میں ساختیاتی تنقید ، اختراعی تنقید ، قاری اساس تنقید اور بین المتونیت تنقید شامل ہیں ۔

ان مختلف تنقیدی نظریات نے اردو شعریات و نثر کو متاثر کیا اور ادب کو ایک خاص ڈگر پر لانے کی کوشش کی ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کئی دہائیوں کے مطالعہ کے بعد امتزاجی تنقیدی مکتب کے حامی نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

"ذاتی طور پر احتراجی تنقید کا حامی ہوں ۔ پچھلے ایک برس کے دوران مختلف نظریوں کی حامل تنقید کا رواج رہا ہے۔ مثلاً نفسیاتی ، اسطوری، مارکسی ، وجودی، ساختیاتی ، اور پس ساختیاتی تنقید کی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ احتراجی تنقید جو اصلاً لا تحریک تنقید ہے کسی بھی تنقیدی مکتب کو مسترد نہیں کرتی۔

یہ صرف اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ فقط ایک نظریے یا تحریک کی حامل تنقید، تخلیق کے محض ایک پہلو پر خود کو مرتکز کر کے تخلیق کے دیگر ابعاد سے روگردانی کی مرتکب ہوتی ہے۔ (۳)

رویہ اور نظریہ: امتزاجی تنقید کی نوعیت

احتراعی تنقید دراصل مختلف تنقیدی نظریات کا مرکب ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ جس کی وجہ سے یہ باقی تنقیدی نظریات سے بہتر ہے اور یہی اس کا امتیاز بھی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں یہ ایک رویہ ہے نظریہ نہیں ہے۔ رویہ اور نظریہ دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔ جن کی اپنی اپنی حدود ہیں ۔

رویہ دراصل انفرادی سوچوں اور مختلف افعال سے ترتیب پاتا ہے۔ جبکہ نظریہ مجموعی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ رویہ لچکدار ہوتا ہے جبکہ نظریہ اصول و قوانین کا ایک پلندہ ہوتا ہے۔ رویہ ایک طرز عمل ہے جو ذہنی وقوعات کے سلسلے میں اختیار کیا جاتا ہے جبکہ نظریے میں جبریت کا عنصر واضح ہوتا ہے۔ نظریہ دراصل انگریزی لفظ تھیوری (Theory) کا ہم معنی ہے۔ تھیوری سماجی ، ثقافتی اور ادبی علوم کے علاوہ سائنسی علوم میں استعمال کی جاتی ہے۔

نظریہ میں مختلف اصول و قوانین موجود ہوتے ہیں جو کہ غیر لچک دار ہوتے ہیں۔ نظریہ جامد و ساکن خطوط پر استوار ہوتا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا امتزاجی تنقید میں کسی نظریے کو حتمی اور قطعی قرار دیا جا سکتا ہے۔؟ بالکل نہیں ، اسی لیے ڈاکٹر وزیر آغا اس کو نظریہ کی بجائے صرف رویہ کہتے ہیں۔

تنقیدی اجتہاد کی اہمیت

بیسویں صدی میں ہر نظام فکر امتزاج کے ذریعے ہی نمو پاتا رہا ہے۔ (۱۹۹) فن پارہ اپنے بطون میں اترنے کے لیے جن انتقادی رویوں کا متقاضی ہو، انہی رویوں کو بروئے کار لانا ایک امتزاجی ناقد کا کام ہے۔ اس سے مراد تمام مروج تنقیدی رویے نہیں کہ ایک فن پارہ اس کا حامل ہو بھی نہیں سکتا لیکن تحریک پانے والے رویے سے یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ اس کا اشارہ مختلف تنقید کے عناصر کی طرف ہے یا دبستان کے لیے۔ (۱۴)

امتزاجی تنقید: مصنف، متن اور قاری کا امتزاج

قاری اساس تنقید یا بین المتونیت کے بجائے امتزاجی تنقید میں مصنف ، متن اور قاری کو برابر اہمیت حاصل ہے ان تینوں کے ملنے سے ایک فن پارہ وجود میں آتا ہے۔

اس نے نفسیاتی تنقید اور سوانحی و تاریخی تنقید سے مصنف کے بارے میں سب کچھ حاصل کیا، ہیئتی تنقید سے متن کے بارے تصورات لیے اور قاری اساس تنقید سے قاری کے خیالات اور تصورات کو اخذ کیا۔ اس طرح تینوں مصنف ، متن اور قاری کے امتزاج سے ایک نیا تنقیدی نظام وجود عطا کیا۔

امتزاجی تنقید اور مابعد جدیدیت

ما بعد جدیدیت کسی نظریے کو حتمی نہیں مانتی اور مختلف نظریات اور ادب کو پرکھتی ہے۔ اس طرح ہر نظریے کو نمو پانے کا موقع فراہم کرتی ہے، ہر نظریہ کسی دوسرے نظریے سے الگ اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے اپنا راستہ تلاش کرتا چلا جائے گا۔

وہ امتزاجی تنقید اور مابعد جدیدیت میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے کیونکہ ان دونوں کی حدود اور مزاج میں کافی عناصر مشترک پائے جاتے ہیں۔ ناصر عباس نیئر لکھتے ہیں:

"والی تنقید کو اہمیت مابعد جدید تنقیدی تناظر میں ہی ملنا شروع ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے ۔کیونکہ ان دونوں کے حدود ومزاج میں کافی عناصر مشترک پائے جاتے ہیں ۔ ناصر عباس نیر لکھتے ہیں امتزاجی تنقید کو اہمیت مابعد جدید تنقیدی تناظر میں ہی ملنا شروع ہوتی ہے ۔

مابعد جدیدیت ہر قسم کی ادعائیت ، مطابقت ، حتمیت اور قطعیت کے خلاف ہے یہ کسی ایک نظریے کو مطلق صداقت کا علمبردار اس لیے نہیں ٹھہراتی کہ اس کا لازمی مطلب باقی نظریات کا رد ہے جیسا جبکہ ہر نظریہ تھوڑی بہت سچائی کا حامل ضرور ہوتا ہے۔ اور عین یہی موقف امتزاجی تنقید کا ہے۔ امتزاجی تنقید کی رو سے کسی ایک تنقیدی نظریہ پر بطور واحد مطلق صداقت کا اقرار ہر گز (۲۰۰)

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں