موضوعات کی فہرست
ڈاکٹر سلیم اختر: نفسیاتی تنقید کے علمبردار
ڈاکٹر سلیم اختر کا تعارف
ابتدائی زندگی اور علمی سفر
ممتاز نقاد، محقق، افسانہ نگار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سلیم اختر ١٩٣٤ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد فوج میں ملازم تھے۔ لہٰذا تبادلوں کی وجہ سے بچپن کا زمانہ بمبئی، پونا، انبالہ اور پٹیالہ میں گزارا۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے والد کا تبادلہ راولپنڈی ہو گیا۔ انھیں بچپن ہی میں کہانیاں اور نظمیں وغیرہ لکھنے کا شوق تھا۔ اسی دور میں انھیں افسانہ لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے ۱٩٦۱ء میں ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا اور ۱۹٦۲ء میں لیکچرار ہوکر ملتان چلے گئے ۔ ۱۹۷۰ء میں تبدیل ہو کر لاہور آ گئے اور ١٩٩٤ میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔
۱۹۷۸ء میں انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی ان کی تصانیف میں تنقید پر سترہ، اقبالیات پر گیارہ، نفسیات پر آٹھ اور افسانوں کے چار مجموعے شامل ہیں۔ ایک کتاب طنز و مزاح پر اور ایک ناولٹ بھی لکھ چکے ہیں۔
مختلف کتابوں پر انھیں کئی ایوارڈ ز بھی ملے ۔ گلڈ ایوارڈ ، اور داؤ د ادبی انعامات ملے ۔ وہ فلم سنسر بورڈ کے رکن بھی رہے۔ ١٩٩٦ میں بزم اقبال کے صدر نشین مقرر ہوئے۔ تادم تحریر وہ زندہ و سلامت ہیں اللہ تعالیٰ انھیں درازی عمر عطا فرمائے ۔ ہمارا سرمایہ ادب ہیں۔
تاریخ ساز شخصیت
بڑے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں کچھ لوگ تاریخ بنتے ہیں اور کچھ لوگ تاریخ بناتے ہیں۔ کچھ خود تاریخ ہوتے ہیں اور کچھ تاریخ ساز … اسے اگر ہم اہل قلم کے حوالے سے دیکھیں تو کچھ لوگ تاریخ لکھتے ہیں اور کچھ اس لکھت کا حصہ ہوتے ہیں
لیکن ایسے لوگ کم کم ہوتے ہیں جو تاریخ لکھتے بھی ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔ یعنی وہ دونوں خوبیاں ان کے ہاتھ کی لکیر ہوتی ہیں جو انھیں یادگار زمانہ بنا دیتی ہیں اور ایسے ہی لوگوں میں ڈاکٹر سلیم اختر بھی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر اور نفسیاتی تنقید
نفسیاتی پہلو کا نمایاں کردار
ڈاکٹر سلیم کی تنقید میں نفسیاتی پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ سلیم اختر کا وصف ہے کہ وہ تخلیق کار بھی ہیں اور نقاد بھی۔ انسانی ذہن کا اعجاز اور اختراع تخلیق کو سمجھنے کے لیے پہلے دانش وروں ، فلاسفروں اور اب نفسیات دانوں کی ایک بڑی تعداد ص ۲۷۰ کوشاں ہے۔
فرائڈ ، ژونگ اور ایڈلر کے تصورات و خیالات نے پہلے پہل مغرب میں اور پھر اردو میں تنقید کو جس طرح نفسیاتی اسلوب سے روشناس کرایا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر اسی کڑی کو حال سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرائڈ ، ژونگ اور ایڈلر کے نظریات و خیالات نے اہل مغرب کو جس طرح متاثر کیا انھیں خیالات و نظریات کو سلیم اختر نے اردو ادب میں منطبق کر کے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے جہاں تک اردو میں تنقید کے نفسیاتی دبستان کی تشکیل کا تعلق یا واسطہ ہے تو امراؤ جان ادا کے مرزا محمد ہادی رسوا نے سب سے پہلے نفسیاتی نقطہ نظر سے بات کی۔ موجودہ صدی کی دوسری دہائی سے ادبی جرائد میں نفسیاتی تنقید پر مقالات مل جاتے ہیں۔
جنسیات اور ڈاکٹر سلیم اختر کی جرات
ڈاکٹر سلیم اختر نفسیات کے آدمی ہیں ۔ انھوں نے جتنا ادب بھی تخلیق کیا اس میں وہ جنس سے باہر نہیں نکلے ۔ یہ جنس شاید ان کے مطالعہ کا حصہ ہے۔ جو فرائڈ اور یونگ نے انھیں دیا۔
جس ماحول اور معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں یہاں ایسی بات کرنا گناہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اگر ایسی سوچ کی بھنک بھی کسی کو پڑ جائے تو فتوی صادر ہو جاتا ہے۔
لیکن میں داد دیتا ہوں ڈاکٹر سلیم اختر کو ۔ کہ انھوں نے نہ صرف سوچا بلکہ جس پر کھل کر بات بھی کی۔ انھیں پذیرائی بھی ملی اور وہ اپنی تحریروں کے باعث انفرادیت بھی اختیار کر گئے۔
نفسیاتی تنقید کی تعریف اور دائرہ کار
اردو میں کی جانے والی نفسیاتی تنقید کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم نفسیاتی تنقید کے نظری پہلو کی وضاحت کر دیں کیونکہ اس کے بغیر کسی تحریر کے رد و قبول کا جواز نہیں رہتا۔ تنقید کا وہ طریقہ کار جو ادبی تخلیق کے تجزیے اور تفہیم کے لیے نفسیات کے نظریات سے استفادہ کرتا ہے، نفسیاتی تنقید کے نام سے موسوم ہے۔
نفسیاتی تنقید کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ اس میں ہم تخلیق، تخلیق کار تخلیقی عمل اور قارئین پر ادب کے اثرات کا مطالعہ کر سکتے ہیں ان چاروں کے مطالعہ کے دوران نفسیاتی تنقید تجزیاتی طریقہ، تاریخی طریقہ اور وضاحتی طریقہ سے استفادہ کرتی ہے۔
اردو نفسیاتی تنقید میں ایک بڑا نام ڈاکٹر سلیم اختر کا بھی ہے جنھوں نے تخلیق میں مخفی نفسیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں کمال فن حاصل کیا ہے ۔ انھوں نے تخلیق پاروں کی زیریں سطح پر جا کر ان نفسیاتی پہلوؤں کو مس کیا ہے۔ اور یہ ایک بہت بڑا کمال ہے جو تنقید میں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ ص ۲۷۱
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اُردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاه
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 270-271
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مبشرہ منیر احمد