اردو زبان کا آغاز و ارتقاء ۔۔
مختلف نقادوں کے مختلف نظریات۔۔۔
ڈاکٹر سہیل بخاری کا نظریہ۔۔۔۔۔۔
مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔ منظور احمد
کتاب کا نام۔۔۔ تاریخ اردو ادب کوڈ۔۔۔5601
پیج۔ 50—-52
ڈاکٹر سہیل بخاری کا نظریہ
ڈاکٹر سہیل بخاری نے اپنے ایک مقالہ بعنوان "اردو زبان کا آغاز ” میں ایسا نظریہ پیش کیا جس کی رو سے حافظ محمود شیرانی، نصیر الدین ہاشمی سید سلیمان ندوی اور دیگر ماہرین لسانیات کے تمام نظریات ان کے بموجب از خود باطل ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سہیل بخاری کی متعدد کتابوں میں سے لسانی نظریہ سازی کے لحاظ سے اردو کا روپ (لاہور : 1971ء) اور اردو کی کہانی (لاہور :1975ء) حوالہ کی چیز قرار پا چکی ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری کے انتقال کے بعد طبع ہونے والی کتاب نظامیات اردو(لاہور :1989ء) ہے۔اس امر کے باوجود کہ یہ نظریہ بے حد نزاعی ہے اور ماہرین لسانیات نے بالعموم اس کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا۔
ڈاکٹر سہیل بخاری کے استدلال کے بموجب :
ہر زبان کا نام نسبتی ہوتا ہے جو اس کے علاقہ پر رکھا گیا ہے چنانچہ ہماری اردو زبان کا اصلی اور قدیم نام کھڑی بولی ہے اور اردو کا دوسرا نام ہے جو عہد شاہجہان میں یا اس کے بعد رکھا گیا تھا۔ کھڑی کا نام بھی نسبتی ہے جو علاقہ کھر سے اپنا تعلق ظاہر کر رہا ہے چنانچہ کھڑی کا مطلب ہو ا علاقہ کی بولی یعنی لفظ کھڑی میں یائے نسبتی ہے۔ کھر غالباً اڑیسہ کے جنوب میں سمندر کے قریب واقع ایک کٹا پھٹا علاقہ ہے ۔
کیونکہ کھڑ کے متبادل الفاظ کھنڈ اور کاٹ ہیں …. میرے اندازے کے مطابق می اس کھڑی بولی کی جنم بھوی ہے جس کی فارسی پین میں قلم بند کی ہوئی ایک شکل کو ہم اردو کہتے ہیں اور دیوناگری پس میں قلم بند کی ہوئی دوسری شکل کو ہندی کے نام سے پکارتے ہیں”۔
(مقالہ بعنوان اردو زبان کا آغاز وار نقاء ، مشمولہ اردو زبان کی تاریخ مرتبہ مرزا خلیل احمد بیگ، علی گڑھ 1955ء ص : 116) اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ متنازعہ نظریات کا سلسلہ ختم ہو گیا تو ایسا نہیں کیونکہ عین الحق فرید کوئی تو سہیل خاری سے بھی ماضی میں پیچھے چلے گئے اتنے پیچھے کہ شاید مزید پیچھے جانے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ عین الحق فرید کوٹی کے بموجب قدیم زمانہ یعنی قبل مسیح میں آریہ قبائل کی آمد سے بھی قبل شمالی ہندوستان میں دراوڑی نسل آباد تھی اور ان سے بھی پہلے منڈانسل کے مختلف قبائل آباد تھے جب یہ آریہ آئے تو انہوں نے دراوڑوں اور دیگر نسلوں کے افراد کو جنوب کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا چنانچہ اب بالعموم یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جنوبی ہند کی بعض معروف زبانیں جیسے تامل، ملیالم ، کنٹری اور تلگو در اصل دراوڑی زبان کے روپ ہیں۔ اس ضمن میں سینتی کمار چیڑ جی ہند آریائی اور ہندی میں لکھتے ہیں کہ :
ایرانی خاندان کی پشتو اور بلوچی زبانوں اور ہند آریائی سندھی کے درمیان یا ان کے قرب وجوار میں بلوچستان کے کوئٹہ کے ارد گردبر اہوی بولی جاتی ہے جو دراویدی کی الگ تھلگ زبان ہے "۔
(ہند آریائی اور ہندی ، ص : 62)
سینتی کمار چیٹرجی دراوڑی کے ضمن میں لکھتے ہیں :
لفظوں اور ان کی شکلوں میں مادوں اور فقروں کی انداز میں در ادیدی قریب یا بعید کے کسی بھی خاندان سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی۔
ايضا ص : 42)
اور عین الحق فرید کوٹی نے اسی دراوڑی زبان کو اردو اور ساتھ ہی پنجابی زبان کا بھی کما خذ قرار دیا ہے "وہ اردو زبان کی قدیم تاریخ میں اس خیال کا اظہار کرتے ہیں :
جب ہم اردو زبان کی صرف و نحو کا پنجابی اور برج بھاشا کی صرف و نحو سے موازنہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ جہاں اردو اور پنجابی کے در میان گہرا رشتہ موجود ہے۔ وہاں اس کے برج بھاشا کے ساتھ اختلافات کی خلیج وسیع ہے۔(ص : 80) جب ہم اردو زبان کے لغوی سرمائے اور صرف و M نجو کا موازنہ بر صغیر کی موجودہ زبانوں سے کرتے ہیں تو جو زبان اس کے سب سے زیادہ نزدیک نظر آتی ہے وہ پنجابی ہے (ص : 93) آریاؤں کی آمد کے وقت وادی سندھ میں دراوڑی قبائل کو بالا دستی حاصل تھی …… منڈ ا قبائل بر صغیر کے قدیم ترین باشندے ہیں اور دراوڑوں کی آمد سے قبل یہاں آباد تھے۔(ص : 96) آج سے کوئی چھ ہزار سال قبل یا اس سے بھی پہلے یہاں منڈا گروہ کی زبانوں کا چلن تھا (ص : 125) آریاؤں کی آمد سے قبل وادی سندھ میں دراوڑ اور منڈا اقوام کا دور دورہ تھا اور ہر پہ و موہنجو داڑو کی گلیوں اور بازاروں میں انہی گروہوں سے تعلق رکھنے والی زبانیں بولی جاتی تھیں (ص : 171) اور عین الحق فرید کوٹی کے بموجب یہی دراوڑی اردو اور پنجابی کی ماخذ ہے۔