اردو زبان کا آغاز و ارتقاء ۔۔
مختلف نقادوں کے مختلف نظریات۔۔۔
ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نظریہ۔۔۔۔۔۔
مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔ منظور احمد
کتاب کا نام۔۔۔ تاریخ اردو ادب کوڈ۔۔۔5601
پیج۔ 48—-50
ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نظریہ
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے "اردو زبان کا ارتقاء "اور "داستان زبان اردو میں اردو کے آغاز میں جو کچھ لکھااس کے بموجب :
” آج جس زبان کو ہم اردو کہتے ہیں وہ آریا قبائل کے ہم رکاب پاک و ہند آنے والی پراکرت کے کسی قدیم روپ کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ زبان کی عام فطرت کے مطابق یہ زبان کبھی ایک حالت پر قائم نہیں رہی ، برابر ادلتی بدلتی اور زمانے کے ختم نہ ہونے والے بہاؤ کے ساتھ ساتھ آگے کی طرف بہتی رہی۔”
وہ اس سے قبل اردو زبان کا ارتقاء میں یہ لکھ چکے تھے : داستان زبان اردو کراچی 1987ء ص : 200)
اردو ہندوستانی یا کھڑی قدیم دیدک بولیوں میں سے ایک بولی ہے جو ترقی کرتے کرتے یا یوں کہیے کہ ادلتے بدلتے پاس پڑوس کی بولیوں کو کچھ دیتے کچھ ان سے لیتے اس حالت کو پہنچی جسے ہم آج دیکھتے ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ میر ٹھے اور اس
کے نواح میں بولی جاتی تھی”۔
اردو زبان کا ارتقاء ڈھاکہ 1956 ء ص : 84)
ڈاکٹر شوکت سبزواری کے مموجب :
پالی اس کی ترقی یافتہ ادبی اور معیاری شکل ہے اور اردو اور پالی دونوں کا منبع ایک ہے۔
پالی ادب، فن اور فلسفے کی زبان ہے اور ہندوستانی روزانہ بول چال لین دین اور کاروبار کی ۔ پالی اعلیٰ درجہ کو پاکر ٹھہر گئی لیکن ہندوستانی عوام کو زبان ہونے کی وجہ سے اور بازار باٹ میں بولے جانے کے باعث برابر تر شتی تر شتاتی اورچھلتی چھلاتی رہی "۔
87 : ايضا
مندرجہ بالا اقتباس کے ضمن میں یہ واضح رہے کہ ڈاکٹر شوکت سبزواری جیسے "ہندوستانی” کہہ رہے ہیں وہ اردو ہی ہے۔ تو یہ ہے مختصر الفاظ میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نظریہ لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ ” داستان زبان اردو” کے پیش لفظ میں انہوں نے اس امر کی تردید کر دی کہ وہ "پالی کو اردو زبان کی اصل”
قرار دیتے ہیں ان کے بقول :
” اپنی طرف سے میں نے کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا اور نہ اس کی ضرورت تھی”
داستان زبان اردو ص :4)
ڈاکٹر شوکت سبزواری کے نظریہ میں کیونکہ پالی زبان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اس لئے پالی کے بارے میں مختصر ابیان کیا جاتا ہے۔ سنتی کمار چیڑ جی نے ہند آریائی اور ہندی میں الی زبان کے بارے میں لکھا ہے :
” پالی وسطی علاقہ کی پرانی زبان پر مبنی ادمی زبان تھی۔ بعد میں چینیوں نے اس قدیم مشرقی بولی میں ترمیم کی اور اسے کافی بدل ڈالا لیکن مجموعی طور پر اپنی مقدس تحریروں میں وہ اس کے پابند رہے اور وہاں اس کو "اردھ ماگدھی” کہا جاتا ہے …..
پالی ایک ایسی قدیم ہند آریائی بولی تھی جس میں بودھی صحیفے مہاتما بدھ کی اپنی مشرقی بولی سے ترجمہ کئے گئے اس پالی کو غلطی سے مگدھ یا جنوبی بہار کی قدیم زبان تصور کیاجاتا ہے اس کے بر خلاف یہ وسطی علاقہ متھر اسے اجین تک) کی بولیوں پر مبنی ادمی زبان تھی۔ دراصل یہ مغربی ہندی کی صورت تھی، وسطی علاقہ کی زبان کی حیثیت سے پالی آج تک ہندی یا ہندوستانی کی مانند تھی۔ یہ آریہ ورت یا آریائی سر زمین کے مرکز یا قلب کی زبان تھی، ارد گرد کے مشرق مغرب شمال مغرب جنوب اورجنوب مغرب کے لوگوں کے لئے اس کو سمجھنا مشکل نہیں تھا۔ بدھ تعلیمات کا یہ پالی ترجمہ اور بعد میں سنسکرت ترجمہ) مشرقی بولی کی اصل تعلیمات سے بھی سبقت لے گیا۔ پالی بدھ مت کے تھیرواد (Thervad) مکتب فکر کی ادمی زبان بن گئی” ہند آریائی اور ہندی زبان ، ص : 155)
اشوک نے بدھ مت کی تبلیغ کے لئے پالی زبان کا انتخاب کیا تھا اس کی مشہور لاٹوں پر بھی پالی ہی میں احکام کندہ کئے گئے تھے۔
"رگ وید ہندوستان کی قدیم ترین اور آریاؤں کی وہ پہلی کتاب ہے۔ جو ہم تک پہنچی ہے چنانچہ اس میں اردو الفاظ کی موجودگی یہ ثابت کر رہی ہے کہ ہماری زبان ویدک کال سے بھی پہلے اس علاقے میں بھاشا کے طور پر کام آرہی ہے۔ ان الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہماری بول چال کی آوازوں میں ہزاروں سال سے آج تک زیروزبر پیش کا بھی فرق نہیں آیا ہے اور اس طرح کے ماخذ اور اشتقاق سے متعلق اب تک کی تمام غلط فہمیاں اور تمام نظریات از خود باطل ہو جاتے ہیں”
(مقاله مطبوعه ، نقوش (لاہور) سالنامہ 1967ء
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں