اردو زبان کا آغاز و ارتقاء ۔۔
مختلف نقادوں کے مختلف نظریات۔۔۔
ڈاکٹر مسعود حسین خان کا نظریہ۔۔۔۔۔۔
مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔ منظور احمد
کتاب کا نام۔۔۔ تاریخ اردو ادب کوڈ۔۔۔5601
پیج۔ 46—-48
__________________________________________2-
ڈاکٹر مسعود حسین خان کا نظریہ
ڈاکٹر مسعود حسین خان لسانی محققین میں خاصی شہرت کے حامل ہیں انہوں نے اردو لسانیات کے ساتھ ساتھ زبان کے بارے میں تازہ تر مغربی تصورات کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ زبان کے ضمن میں وہ اسلوبیاتی تصور کے قائل ہیں اور اس کی روشنی میں انہوں نے بعض معروف شعراء کی شاعری کا اسلوبیاتی مطالعہ بھی کیا۔
جہاں تک ان کی لسانی کاوشوں کا تعلق ہے تو ان کی معروف تالیف "مقدمہ تاریخ زبان اردو ” ( لاہور 1966ء) خصوصی تذکرہ چاہتی ہے جس میں انہوں نے حافظ محمود شیرانی، نصیر الدین ہاشمی اور مولانا محمد حسین آزاد کے نظریات کی تردید کرتے ہوئے اردو کے آغاز کے سلسلہ میں نیا تصور پیش کیا۔
” تشکیل ایک نئے لسانی نظریہ کی ” کا عنوان قائم کر کے ڈاکٹر صاحب نے اپنا موقف ان الفاظ میں پیش کیا :
زبان دہلوی "ترکوں اور مسلمانوں کی قیادت میں جمنا پار کے جاٹ اور گوجر لے جاتے ہیں۔ شہر دہلی چار بولیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ جمنا پار مہربانی اور میواتی بولیاں رائج ہیں شمالی مشرق میں کھڑی اور جنوب میں برج کا علاقہ ہے۔ اردو کے ارتقاء میں ان تمام بولیوں کے اثرات مختلف زبانوں میں پڑتے رہے ہیں۔ دکن کی زبان کا محاورہ سلاطین دہلی کے عہد کی یاد گار ہے۔ جبکہ اگرہ کی برج کے اثرات ہنوز نہیں پڑے تھے۔ دہلی میں بولیوں کی آنکھ مچولی کی داستان تفصیل سے بیان کرنانا ممکن ہے اس لئے کہ اس عہد کا تحریری مواد تقریباً مفقود ہے۔ البتہ صوفیاء کے اقوال اور ملفوظات میں جو جاجا ہندی اور ہندوی کے بپھرے ہوئے فقرے ملتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جائوں اور گوجروں کی زبان کا محاورہ اس زمانے میں غالب تھا میں سطح دکن میں پہنچتی ہے ۔ چونکہ ہر پانی اور پنجابی میں بہت سے عناصر مشترک ہیں اس بنا پر پروفیسر شیرانی رکن کے لسانی مواد کا مقابلہ پنجابی سے کر کے سلسلہ اس سے ملا دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خسرو کی ” زبان دہلوی” میں ایک سے زیادہ پولیوں کا محاورہ لسانی ارتقاء کی جولان گاہ میں آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ دکن میں بھی ایک سے زیادہ بولیاں پہنچی ہیں اس لئے اردو کی ابتداء کے سلسلہ میں نئے نظریہ کی تشکیل اس طور پر کی جاسکتی ہے۔ کہ ہم نواح دہلی کی تمام بولیوں کا تقابلی مطالعہ کریں اور دکنی زبان کی خصوصیات کو پنجابی کی بجائے ان میں پہنچانے کی کوشش کریں ایسا کرتے وقت ان بولیوں کے جدید روپ ہی پیش نظر نہ رہیں بلکہ ان قدیم نمونوں کا بھی جائزہ لیں جو دستیاب ہیں۔ مذکورہ بالا تقابلی مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں ” قدیم اردو کی تشکیل براہ راست ہریانی کے زیر اثر ہوئی ہے اس پر رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے اثرات پڑے ہیں اور جب پندرہویں صدی میں اگرہ سلطنت بن جاتا ہے اور کرشن دی گنتی تحریک کے ساتھ برج بھاشا مقبول ہو جاتی ہے تو سلاطین دہلی کے عہد کی تشکیل شدہ زبان کی نوک پلک برجی محاورے کے ذریعہ درست ہوتی ہے اصلاح زبان کا سلسلہ لکھنو تک جاری رہتا ہے۔”ص(182-83)
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اگرچہ متعدد علمی اور ادبی موضوعات و مسائل پر قلم اٹھایا مگر ان کی اصل شهرت ایک نظریہ ساز لسانی محقق کے طور پر ہے اس سلسلہ میں ان کی یہ چار کتابیں معروف ہیں۔
داستان زبان اردو ( کراچی : 1960)
اردو لسانیات (کراچی : 1966)
لسانی مسائل (کراچی : 1963)
اردو زبان کا ارتقاء (ڈھاکہ : 1956ء)
ان میں سے اول الذکر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے ان کا تحقیقی مقالہ تھا انہوں نے 1953ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مزید تفصیلات کے لئے راقم کی، ڈاکٹر شوکت سبزواری کی منتخب کتابیات مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد 1992ء کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے)۔