اردو کے مختلف نام اور ان کی وجہ تسمیہ

اردو کے مختلف نام اور ان کی وجہ تسمیہ

Abstract

**Abstract (English)**The topic **”اردو کے مختلف نام اور ان کی وجہ تسمیہ”** (Different Names of Urdu and Their Etymology) sparked an engaging discussion in the WhatsApp group. Various participants, including **نفیسہ نذیر**, **حسنہ**, **عشبہ پروین**, **تمثیلہ یوسف**, **ربیعہ نور**, **شاہ زیب**, **ملائکہ نوید**, **اسما تور**, **سید اعجاز حسین**, **فرہان احمد**, **سعدیہ شعیب**, **ثامیہ**, **اریبہ کلثوم**, **سارہ سحر فاروقی**, and **سیرت فاطمہ**, contributed their insights on the origins and meanings of the different names associated with the Urdu language. This post summarizes their collective understanding of the history and significance behind each name.

اردو زبان ابتدا سے مصحفی کے زمانے تک مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا۔۔ کبھی ہندی ،ہندوی، ہندستانی،گجراتی،دکنی ،دکنی،،،گجراتی ہندی،،ہندوستانی.. وعیرہ….ہر علاقے نے اپنے علاقے کے مناسبت سے اردو کو نام دیا۔
اردو کی کہانی

کوئی ساڑھے سات سو برس پہلے اُردو نے ہندوستان کے ایک درویش فنکار امیر خسرو کے آنگن میں آنکھ کھولی تو اس بھلے انسان نے اس ننھی منی گڑیا کو ہندوی کا نام دیا پھر اسے اپنی پیار بھری پہیلیوں کا پہناوا پہنایا، اسکے گلے میں گیتوں کی مالا ڈالی، بانہوں میں دوہے کے کنگن، ماتھے پہ مثنوی کا ٹیکا،

کانوں میں قصیدے کی بالیاں اور یہ سجی سجائی لاڈلی غزل کی اوڑھنی اوڑھے پیار کی لوریاں سنتی، کہہ مکرنی کے جھولے جھولتی، بابل کے محل میں ہر سو اٹھکیلیاں کرتی پھرتی تھی- لیکن سنگدل آسمان کتنے دن اسکی خوشیوں پہ چپ رہتا؟

ادھر امیر خسرو نے آنکھ موندی تو اس ننھی منی گڑیا کو اپنے ننھال حیدر آباد دکن جانا پڑا، ننھال میں یہ دکھنی کے نام سے پکاری جانے لگی- لیکن ابھی پہلے صدمے سے ہی نہ سنبھلی تھی کہ ننھال سے محرومی کے باعث گجرات کا سفر درپیش ہوا جہاں اسے گوجری کے نام سے یاد کیا جانے لگا- مقدر نے اسکے لئے کچھ ایسی ہی سختیاں لکھ دی تھیں کہ ٹکڑوں میں بٹی زندگی اٹھائے اس نوعمر بچی کو ایک بار پھر شمالی ہند واپس آنا پڑا۔ اکبر اعظم کا دور حکومت تھا دل والوں نے اسکی حالت زار کو ریختہ کا نام دیا۔

مقدر کی ستم رانیاں بڑھتی چلی گئیں اور یہ یتیم بچی شاہجہانی بازار میں کسمپرسی کے دن کاٹنے لگی۔ کسی نے کچھ بھی عطا کیا اسے ہنس کر قبول کرنا پڑا۔

مشرق وسطی کے کسی تاجر نے عربی کے الفاظ خیرات کردیے، اصفہان سے آئے کسی امیر نے فارسی بندشیں جھولی میں ڈال دیں، کسی ہندو بنیے نے ترس کھا کر بھاشا کا بھوجن عنائت کیا، کسی نے کشکول میں سنسکرت کے سکے پھینک دیے، کسی نے پنجابی کی تشبیہیں پکڑا دیں، کسی نے ترکی تراکیب بخش دیں، کسی نے گورمکھی کا محاورہ دیا، کسی نے کشمیری استعارہ اچھالا۔ حتی کہ آتے جاتے گورے بھی ترس کھا کے کبھی پرتگالی، ولندیزی اور انگریزی کے حروف و الفاظ اسکے پلو میں ڈال جاتے۔

غرض جہاں سے جو ملا اس بدنصیب نے مسکینی کا صلہ سمجھ کے لے لیا۔ پس لشکریوں نے اسکا نام ہی اردو رکھ دیا –

بے شک اس یتیم اور مسکین بچی نے اپنی غربت دکن، گجرات، دہلی، آگرہ اور لکھنو کی دربدری میں گزاری تھی لیکن جونہی جوانی میں قدم رکھا تو زبان دانی کی دنیا میں بڑی بڑی منچلی شریف زادیاں اسکے سامنے ماند پڑ گئیں۔

جب یہ پور پور محاورے کی مہندی رچائے، گلے میں بلاغت کی مالا لٹکائے، کلائیوں میں روزمرہ کے کنگن کھنکاتی، کانوں میں اعجاز کے جھمکے چمکاتی، اسکے عارض دریائے لطافت کی بہار، ابرو مثنوی گلزار نسیم کی تلوار، انکھڑیوں میں اشعار، میر کے کجرے کی دھار، مژگاں میں فکر غالب کے تیر، لب لعلیں معانئ مومن کےنخچیر، سلاست کا سرمہ مسی، فصاحت کے زر و زیور، تلمیحات کی کنگھی چوٹی، دزدیدہ نگاہ میں لف و نشر کے فسانے، ماتھے پہ بندیا، مانگ میں تمثیلات کی افشاں، ناک میں نازک خیالی کی نتھنی، پیشانی پہ تشبیہ کا جھومر، غزلوں کے غمزے، ایجاز کے عشوے، جب یہ سندرتا کے سب ہتھیاروں سے لیس اشعار کی گلناری پوشاک پہنے، نثر کی جھلملاتی چُنریا اوڑھے اظہار کی چلمن سے نکلتی تو بڑے بڑے زبان دان انگلیاں دانتوں میں دبائے کھڑے رہ جاتے۔

اسکا ناک نقشہ ہی کچھ ایسا تھا کہ جدھر سے گزری قافلے ٹھٹھک کر رک گئے۔ گلی کوچے میں نکلی تو راہ چلتے اپنی گفتگو میں محتاط ہوئے، دوکانوں اور مارکیٹوں میں گئی تو حساب کتاب میں رکھ رکھاؤ آگیا، محلے کٹٹری میں ٹھہری تو رواداری نے رواج پایا۔ جامعہ اور مدرسے میں پہنچی تو شستگی اور شائستگی نے راہ پکڑی، مساجد میں گئی تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہا ڈالے، قلعہ معلی میں پہنچی تو قصائد کے انبار لگادیے، رزمگاہ میں اتری تو جوش وخروش کے طبل بج اٹھے، بزم میں جلوہ آراء ہوئی تو تمیز و تہذیب کی سرپرست ٹھہری، خوشی کی گھڑی آئی تو محفلوں کو نغمہ بار کرڈالا، غموں نے دستک دی تو نوحہ ومرثیہ کے سیاہ علم لہرا دئے۔ اسکی برنائی کے ڈنکے چاردانگ عالم میں کچھ اس طرح بجے کہ اگر کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں فرنگی اسکے عشق میں مبتلا تھے تو لال قلعہ دہلی میں مغل شہزادے بھی اسکی یاد میں محو فغاں تھے۔

چنانچہ ایک چاہنے والے نے اعلان کیا کہ
ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں

تو دوسرے نے دعوی کیا کہ
سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر
جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو

اور اساتذہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ
اپنےمحبوب کی خاطرتھی خدا کومنظور
ورنہ قرآں بھی اترتا بہ زبان اردو……..
سبھی جانتے ہیں کہ یہ تو لوح ازل پہ تحریر کر دیا گیا ہے کہ جہاں حسن ہوگا وہاں حسد بھی ہوگا- پس جب مقبولیت کا عالم یہ ہوا تو لازم ٹھہرا کہ اسکی سوتیلی بہن ” ہندی” بھی اس سے حسد میں مبتلا ہو۔ سو تاریخ کے اس دوراہے پہ ہندی اردو تنازعے نے جنم لے لیا۔ بھاشا بولنے والوں نے کوشش کی کہ اسے درباروں، دفتروں اور مدرسوں سے نکال دیا جائے، تاہم اس مشکل گھڑی میں برصغیر کے مسلمان خم ٹھونک کر نکلے اور اپنی لاڈلی زبان کے حفاظت کے لئے کھڑے ہوگئے-

وہ وقت تو کسی نہ کسی طرح ٹل گیا لیکن جب برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت ملی تو اردو زبان کے حصہ میں بھی ہجرت ہی آئی۔ اسے بھی سرحد پار دھکیل دیا گیا۔ یہاں تک بھی خیریت تھی لیکن جب یہ زبان اپنے ہی بچوں کے گھر پہنچی تو اس پہ جو بیتی وہ ناقابل روداد بیان ہے۔ اس نے بچپن سے جوانی تک در در کی ٹھوکریں کھائی تھیں لیکن اپنی اولاد کو تمیز و تہذیب سکھانے میں کچھ کوتاہی نہ برتی تھی لیکن دولت کی ہوس نے اور حصول زر کے آسان اور جلد راستوں کی تلاش نے اسکے بچوں کو اپنے گھر کے سارے اصول اور سارے راستے بھلا دیے تھے –

اس بے سہارا ماں بولی کو انگریزی نے دفتروں سے بے دخل کیا اور عربی نے مدرسوں سے نکال باہر کیا۔ علاقائی بولیوں نے گھروں سے دھکے دے کے باہر کیا تو گلیوں بازاروں میں آوارہ لہجوں (slang) نے اس پہ آواز کسے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے عام آدمی کے ہاتھ میں موبائل تھمایا تو اسکے بجائے رومن اردو دل اور در کی مالکن بن بیٹھی۔
آج اگر اردو اپنے ہی گھر میں بن باس کاٹ رہی ہے تو اسکی بددعا سے بچے بھی سب خوشیوں سے محروم ہیں۔ زندگی کبھی کندھوں کا بوجھ ہوتی تھی اب دل کا بوجھ ہوگئی ہے
سب ترے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں اردوکی طرح رہتا ہوں۔
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ اس کے نام سے ظاہر ہےکہ یہ مختلف زبانوں سے مل کر بنا ہے یہ جس علاقے سے گزرتی گٸی اسے اس نام سے پکارا جانے لگا جیسے ہندی،ہندوی، ریختہ ،اردو معلی اور گجراتی وغیرہ ۔
اس کے حوالے سے مختلف نظریات بھی پیش کیے گٸے ہیں ۔
سارہ سحر فاروقی

آج جسے ہم "اردو” کے نام سے
جانتے ہیں اس کا یہ نام پہلے سے یہ نہی تھا۔ پہلے اس کو مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا
ابتدا میں اس کو "اردومعلیٰ ” کے نام سے جاناجاتا تھا اس کے بعد اس کے مختلف نام وقت کے ساتھ بدلتے گئے جن میں "لشکر "پہلے پہل پھر
1۔ ہندی / ہندوی
2۔ ہندو ستانی
3۔دہلوی ،
4۔ گوجری ،دکنی
5۔ ریختہ

اور پھر "اردو "کہا جانے لگا

اردوکی وجہ تسمیہ

اردو کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کے یہ سارے نام علاقوں کی نسبت سے پڑے اور یوں اس نے وقت ساتھ بندل کر آخر میں "اردو ” رہ گیا اردو کے یہ سارے نام اپنے اپنے وقتوں میں خاص مقام رکھتے تھے اور یو ں اردو نے ترقی کی اور اپنا ایک خاص مقام بنا لیا اس پر
داغ دہلوی نے کیا خوب کہا ہے

؂اردو ہے جس کانام ہمیں جانتے ہیں داغ ؁
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو کے مختلف ناموں کے پس پردہ تاریخی، سماجی، اور لسانی عوامل کارفرما ہیں۔ چونکہ یہ زبان مختلف ثقافتوں اور زبانوں کے میل جول کا نتیجہ تھی، اس لیے اسے کبھی لشکر کی زبان (اردو)، کبھی مخلوط زبان (ریختہ)، اور کبھی ہندوستان کی عمومی زبان (ہندوستانی) کے طور پر پہچانا گیا۔

اردو زبان مختلف زبانوں کا مرکب ہے ۔ مختلف زبانوں کے اختلاط سے یہ زبان تشکیل پائی ۔ اور مختلف ادوار میں اس کا نام تبدیل ہوتا رہا ۔ اس کی ابتدا کا سہرا امیر خسرو کے سر جاتا ہے ۔ جن کا کلام

زحالِ مسکیں مکن تغافل ۔۔۔۔۔

وقت کے ساتھ ساتھ اس کے نام تبدیل ہوتے رہے ۔ کبھی ہندی ، ہندوی ، گوجری ، دکنی ، اردوئے معلٰی ، ریختہ اور آخر میں ا کر یہ نام اردو پڑا ۔
اردو کے مختلف نام اور وجہ تسمیہ

داغ دہلوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے

اردو ترکی زبان کا لفظ جس کے معنی لشکر کے ہیں اسے بہت سے ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ سب سے پہلے اسے ہندوستان کی نسبت سے اسے ہندوی یا ہندی کیا گیا۔

ہندوی کے بعد دوسرا نام ریختہ مقبول ہوا جس کے معنی گری پڑی چیز وغیرہ کے ہیں
اردو کو دکنی بھی کیا جاتا رہا ہے دکن کی نسبت سے دکنی
دکنی کے بعد گوجری
اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو مقبول ہوا ابتدا میں یہ زبان اردوئے معلی کہلائی رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہو گیا اور اردوئے معلی بچا۔ کچھ عرصے بعد معلی بھی خارج ہو گیا اور صرف اردو باقی رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمس الر حمن فاروقی لکھتے ہیں کہ……….
’’جس زبان کو آج ہم اردو کہتے ہیں پرانے زمانے میں اسی زبان کو ہندوی، ہندی، دہلوی، گجری، دکنی اور پھر ریختہ کہا گیا۔ اور یہ نام تقریباً اسی ترتیب سے استعمال میں آئے جس ترتیب سے میں نے انھیں درج کیا”
اردو زبان کے مختلف نام اور ان کی وجہ کچھ یوں ہیں:

اردو


یہ لفظ ترکی زبان سے آیا ہے اور اس کا مطلب "فوج” ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ مختلف قوموں کے لوگوں کی بولی تھی، جو فوج میں شامل تھے۔

ریختہ


اس کا مطلب "ملی جلی” ہے، کیونکہ اس زبان میں فارسی، عربی اور ہندی کے الفاظ ملے ہوئے ہیں۔

ہندوستانی


اس زبان کو پورے ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی تھی، اس لیے اسے "ہندوستانی” بھی کہا جاتا تھا۔

دہلوی

:
اردو کا ایک نام "دہلوی” ہے، کیونکہ دہلی میں یہ زبان زیادہ بولی جاتی تھی۔

لشکری زبان

:

یہ سب نام اردو کی تاریخ اور اس کی ترقی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
شاہ جہان کے عہد میں۔ اردوئے معلی کی اصلاح وجود پزیر ہوئی
اور پھر اس کے بعد اردو نام وجود میں آیا
اسی طرح غالب نے ریختہ نام کے بارے میں لکھا ہے
ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اردو لٹریچر میں اردو زبان کے مختلف نام اور ان کی وجوہات کو ادب کے تاریخی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ آسان الفاظ میں، اردو لٹریچر کے مطابق اردو کے ناموں کی وضاحت کچھ یوں ہے:

اردو:
اردو ادب میں یہ نام بہت عام ہے۔ اس کا مطلب فوج یا لشکر سے لیا گیا ہے۔ تاریخی طور پر، یہ زبان ہندوستان میں مختلف زبان بولنے والے فوجیوں کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر سامنے آئی، اس لیے اسے "اردو” کہا گیا۔

ریختہ:
اردو شاعری میں "ریختہ” کا لفظ کافی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے "ملی جلی زبان”۔ یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اردو میں کئی زبانوں جیسے فارسی، عربی، ترکی، اور مقامی ہندوستانی بولیوں کے الفاظ شامل ہیں۔

ہندوستانی:
اردو ادب میں بعض اوقات اسے "ہندوستانی” بھی کہا گیا ہے، کیونکہ یہ پورے ہندوستان میں سمجھی اور بولی جاتی تھی اور لوگوں کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ تھی۔

دہلوی:
اردو کا ایک اور نام "دہلوی” ہے، جو دہلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اردو ادب کے ابتدائی دور میں دہلی کو اردو زبان اور ادب کا مرکز مانا جاتا تھا۔

لشکری زبان:
اردو لٹریچر میں کبھی کبھی اردو کو "لشکری زبان” بھی کہا گیا ہے کیونکہ یہ زبان لشکر کے لوگوں میں پیدا ہوئی اور ان کے ذریعہ پھیلتی رہی۔

ان تمام ناموں کو اردو لٹریچر میں زبان کے تاریخی پس منظر اور تہذیبی اثرات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اردو مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے۔
اج جو ہم زبان کو اردو کے نام سے یاد کرتے ہیں آس کا نام ہمیشہ سے یہ نہیں ہے زبان اردو کے لیے لفظ اردو مستعمل ہونے میں بہت وقت لگا پہلے اسے زبان اردوے معلی کہا جاتا تھا وقت کے ساتھ ساتھ آس میں تبدیلی آتی گئی اور یہ نام مختصر ہوتا گیا آور اخر میں اردو رائج ہوا اور ہماری زبان اردو آج رائج ہے آس سے پہلے بھی آس کے کئی نام رہے ہیں ان میں ہندی ہندوی ہندوستانی دہلوی گوجری ریختہ کے سوا اردو کے تمام نام علاقوں کی نسبت سے ہی موسوم رہے ہیں اردو کا ایک قدیم نام گوجری بھی رہا ہے شیخ محمد اسے گجراتی بولی کہتے ہیں
جیوں دل عرب عجم کی بات
سن بولی ، بولی گجرات۔
ریختہ فارسی زبان کے مصدر ریختن سے اخز کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں بنانا ،ایجاد کرنا ،نئے سانچے میں ڈھالنا وغیرہ کے ہیں
اس کے بارے میں میر تقی میر لکھتے ہیں
٫٫ ریختہ کی بہت سے قسمیں ہیں ان میں سے جو کچھ فقیر کو معلوم ہیں لکھی جاتی ہیں۔ اول وہ قسم ہے جس کا ایک مصرع فارسی کا ہوتا ہے اور دوسرا مصرع ہندی کا ہوتا ہے دوسری قسم وہ ہے جس میں نصف مصرع ہندی اور نصف فارسی کا ہوتا ہے۔
اردو زبان کا سب سے زیادہ استعمال شاعروں نے کیا۔ مثلاً:

میر تقی میر: اردو کے ابتدائی اور عظیم شاعروں میں سے تھے، جنہوں نے زبان کو ترقی دی۔

غالب: اردو غزل کے مشہور شاعر، جنہوں نے اردو شاعری کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔

اقبال: انہوں نے اردو میں فلسفیانہ اور قومی موضوعات پر شاعری کی اور قوم کو بیدار کیا۔

  1. اردو زبان: یہ نام فارسی کے لفظ "اردو” سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب "لشکر” یا "فوج” ہے، کیونکہ یہ زبان فوجی کیمپوں میں بولی جاتی تھی.
  2. ریختہ: یہ نام فارسی کے لفظ "ریختہ” سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب "مکسّر” یا "ملے جُلے” ہے، کیونکہ اردو میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہیں.
  3. ہندوستانی: یہ نام اس زبان کے ہندوستان میں بولی جانے کی وجہ سے دیا گیا.
    صوفی بزرگوں نے اردو زبان کو اپنے پیغامات پہنچانے کے لیے استعمال کیا:

خواجہ میر درد: ایک عظیم صوفی شاعر تھے، جنہوں نے اپنے خیالات کو سادہ اردو میں پیش کیا۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی اور بلھے شاہ جیسے صوفی بزرگوں نے بھی اپنی تعلیمات کو اردو کے قریب دیسی زبانوں میں پہنچایا۔

لشکری اور عوام:
اردو کی ابتدا فوجی اور عوامی زبان کے طور پر ہوئی، اور اسے سپاہیوں، تاجروں، اور عام لوگوں نے رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کیا۔
مذہبی رہنماؤں اور علماء نے بھی اردو کو اپنے پیغامات پھیلانے کے لیے استعمال کیا:

مولانا اشرف علی تھانوی: جنہوں نے "بہشتی زیور” جیسی کتاب لکھی تاکہ عام مسلمانوں کو دینی تعلیمات آسان اردو میں دی جا سکیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد: انہوں نے اردو میں علمی اور مذہبی مواد تخلیق کیا۔

سیاسی رہنما:
اردو سیاسی جدوجہد اور تحریکات کا بھی حصہ رہی۔

محمد علی جناح: انہوں نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا اور اس کو قوم کو متحد کرنے کا ذریعہ بنایا۔
سب سے پہلے ہندوستان کی نسبت سے اردو زبان کو ہندی اور ہندوی کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔ حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر سنیی کمار چٹرجی تک لسانی محققین اس بات پر متفق ہیں۔قاضی خاں بدر‘سے لے کر ۱۷۴۲میں’ سراج الدین خاں آرزو‘تک سبھی قدیم لغات نویسیوں نے ہندوستان کی زبان کو’ ہندی‘ یا’ہندوی‘ لکھا ہے بعض صوفیا ء کرام کی تحریریں یا اقوال میں بھی اسے ’ہندی‘ یا ’ہندوی‘ کہا گیا ہے۔
قاضی خان بدر سے لے کر خان آرزو تک سبھی نے ہندوستان کی زبان کو ہندی ہندوی کا نام دیا چنانچہ مختلف زبا نوں اور بولیوں کے امتزاج کی بناء پر استعارہ اردو کہلائی زبان کے لے ریختے غالبا شہنشاہ اکبر کے عہد میں استعمال کیا گیا بعد میں صرف شاعری کے لے مخصوص ہو کر رہے گیا ہندی راگوں اور فارسی کو ملا کر ہندوستانی موسیقی میں نئ چیز پیدا کی گی اس ریختے کا نام دیا گیا۔
ہندوی کے بعداردو کا دوسرامقبول نام ’ریختہ ‘ ہے ۔یہ لفظ فارسی زبان کے لفظ ریختن سے نکلا ہے۔جس کے معنی ہے تعمیر کرناچوں کہ اردو مختلف زبانوں کے ملاپ سے وجود میں آئی اس لئے اسے ریختہ کہا جانے لگا۔
ہندی راگوں اور فارسی کو ملا کر ہندوستانی موسیقی میں جو اختراع وجود میں آئی اسے بھی ریختہ کہا گیا ہے۔
زبان کے لئے ریختہ کا لفظ پہلی بار شہنشاہ اکبر کے عہد میں مستعمل ہوا۔لیکن بعدازاں بولی جانے والی زبان یا نثری کاوشوں کے لئے نہیں بلکہ صرف شاعری کے لئے مخصوص ہو کر رہ گیا۔
غالب کا شعر ملاحظہ ہو:
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا۔
تزکِ بابری میں ایک راجا کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کشمیری اور ہندی دونوں زبانیں جانتا ہے۔
امیر خسرو۔م۷۲۵ھ[غرۃ الکمال] کے دیباچے میںاپنے اُردو کلام کو ہندوی کہتے ہیں
اردو کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں : ’’اردو نام کچھ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ پچھلے دو سو سال سے ہماری زبان اس نام سے موسوم ہے۔ ابتدا میں لفظ اردو بصورت ترکیب اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ زبان اردوئے معلی کہلاتی تھی یعنی شاہی لشکر کی زباں۔ رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہو گیا اور اردوئے معلی بچا رہا۔ کچھ عرصہ بعد ازراہِ اختصار معلی بھی ساقط ہو گیا اورصرف اردو باقی رہ گیا۔ اردو کے چند قدیم نام یہ ہیں۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، زبان ہندوستان، دکنی اور ریختہ۔ ‘‘لفظ اردو کے ہم آواز الفاظ ترکی، سندھی اور قدیم آریائی زبانوں میں بھی ملتے ہیں۔ عام طور پر اسے ماہرین لسانیات، ترکی الفاظ سے ہی جوڑتے ہیں، ترکی میں اس کی مختلف شکلیں ہیں، جیسے اورد، اوردہ، اوردو اور اردو جس کے معنی فرودگاہ، لشکر اور پڑاؤ جبکہ اس کا استعمال خیمہ، بازار، لشکر، حرم گاہ، محل و محل سرائے شاہی اور قلعہ پر بھی بولا جاتا ہے۔ جابر علی سید کے مطابق ترکی لفظ ارد ترکی منگول، کشور کشاؤں کے ہمراہ جب پولینٹر (لبنان فارسی) پہنچا تو پولسن زبان کے مزاج میں ڈھل کر Horde بن گیا جس کی جمع Hoardes ہے اور hordes moggol منگولی عساکر/فوج کے معنی میں انگریزی میں متداول ہے۔
امیر خسرو نے اپنے پیشرو مسعود سعد سلمان م ۵۱۵ء کے عربی اور فارسی دیوان کے ساتھ اس کے ہندوی دیوان کا ذکر بھی کیا ہے۔
اردو کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے موسوم کیا جاچکا ہے۔کوئی دوسو سال سے ہماری زبان اردو نام سے موسوم ہے ۔اردو زبان سب سے پہلے زبان اردوئے معلیٰ کہلاتی تھی یعنی "شاہی لشکر کی زبان” رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہوگیا اور اردوئے معلیٰ بچ گیا ،کچھ عرصہ بعد معلیٰ بھی ساقط ہوگیا اور صرف اردو باقی رہ گیا ۔
اردو کے چند قدیم نام یہ ہیں ۔
ہندی یا ہندوی/ ہندوستانی
ریختہ
دکنی
گوجری

ہندی یا ہندوی/ ہندوستانی*
سب سے پہلے ہندوستان کی نسبت سے اسے ہندوی کہا گیا۔مسلمان جب ہندوستان آئے تو یہاں کی ہر بولی کو ہندی یا ہندوی کہا گیا ہند کی نسبت ہندی اور ہندو کی نسبت ہندوی اس لیے اردو کو بھی ہندی ،ہندوی اور ہندوستانی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
بقول اثر
فارسی سوں ہے ہندی سوں ہے
باقی اشعار مثنوی سوں ہے

ریختہ*
ہندی کے بعد اردو کا دوسرا مقبول نام ریختہ ہے لفظ ریختہ کے معنی ہے گری پڑی چیز ۔مختلف بولیوں اور زبانوں کے امتزاج کی بنا پر استعارۃ” اردو بھی ریختہ کہلائی۔
بقول غالب
ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

دکنی *
دکن کا کردار اردو زبان وادب میں انتہائی اہم چنانچہ دکن میں یہ دکنی کہلائی۔
بقول نصرت
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکنی کا کیا شعر یوں فارسی

گوجری *
اردو زبان جب گجرات پہنچی تو یہ گجری کے نام سے موسوم ہوئی وغیرہ۔
جیوں دل عرب عجم کی بات
سن بولی ، بولی گجرات۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں