کتاب کا نام۔۔۔۔ تاریخ ادب اردو 2
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5602
موضوع : دہلی کالج کا تعارف
صفحہ نمبر۔ 105 تا 106
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
اگر چہ زبان کی ترقی تخلیقی فن کاروں، محققین ، ناقدین اور شعراء کی انفرادی مسائی سے مشروط ہوتی ہے تاہم زبان کی نشود نما نترقی اور مقبولیت میں علمی اداروں کا کردار بھی خاصہ اہم ہوتا ہے بالخصوص اردو جیسی زبان کے سلسلہ میں تو ایسے ادارے مزید اہمیت حاصل کر لیتے ہیں کہ اردو کی عمر بہت زیادہ نہیں
انگریز حکمرانوں نے بھی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اردو زبان کی ترویج کے لئے بعض ایسے ادارے قائم کئے جواب ہماری ادبی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ فورٹ ولیم کالج اگر چہ تدریسی مقاصد کے لئے قائم کیا گیا مگر بالواسطہ طور پر اردو نثر میں سلامت کے فروغ کا باعث بھی بنا اسی طرح دہلی کالج بھی درس و تدریس کے لئے تھا
لیکن اس نے اردو زبان کے سلسلہ میں بھی خاصی خدمات انجام دیں اگر چہ دہلی کالج کا تذکرہ کسی نہ کسی حیثیت میں اولی تواریخ میں ہو تا رہا ہے تاہم مولوی عبدالحق کی تالیف ” مرحوم دہلی کالج ” (نئی دہلی : طبع سوم 1988ء) اس ضمن میں مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی کتاب سے دہلی کالج کے بارے میں اخذ معلومات کے بعد دہلی کالج کے بارے میں لکھا جا رہا ہے۔
دہلی کالج
1792ء میں مدرسہ غازی الدین کی بنیادر کھی گئی اور 1825ء میں اسے دہلی کالج کانام دیا گیا۔ مسٹر ہے انی ٹیلر کو پونے دو سو روپے ماہوار پر دہلی کالج کا پر نسپل مایا گیا۔ مشرقی زبانوں کے اساتذہ مولوی کہلاتے تھے ان کی ستخواد چکھیں تمہیں اور پچاس روپے ماہوار تھی۔ ہیڈ مولوی یعنی صدر شعبہ ایک سو ایس روپے ما ہو رہا تا تھا۔
1828ء میں انگریزی کی تدریس کا آغاز ہوا۔ دراصل اس سے کالج نے متنازعہ حیثیت اختیار کر لی کیونکہ مقامی آبادی کا خیال تھا کہ یہ ہمارے چوں کو عیسائی بنانے کی ایک کوشش ہے۔ دراصل ابتدا میں مدرسہ غازی الدین عربی وفارسی کی تدریس کے لئے ہا تھا تا ہم ابتدائی مخالفت کے بعد حالات بتدریج انگریزی تعلیم کے حق میں ہوتے گئے۔آج کالج کی اہمیت اس بنا پر زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ تمام نصاب اردو میں پڑھایا جاتا تھا زیر تعلیم طلبہ کو وظائف ملتے تھے۔
عربی اور سنسکرت میں کتابوں کے تراجم کرائے جاتے تھے تا ہم بعض انگریز حکام ان سب باتوں کے مخالف تھے اور اسے روپے پیسے کا زیاں گردانتے تھے چنانچہ 1835ء زادہ میں لارڈ پینٹنگ گورنر جنرل نے یہ حکم صادر کیا کہ مشرقی زبانوں میں کتابوں کے تراجم پیر کر کے تمام توجہ انگریزی زبان کی تعلیم پر مرکوز کی جائے۔
مگر اگلے ہی درس نئے گورنر جنرل لارڈ آئلینڈ نے مشرقی زبانوں کی اہمیت اور ان کی تدریس کی ضرورت کو تسلیم کر لیا۔ لیکن حالات ایسے ہو چکے تھے کہ ریاضی فلسفہ نبیت اور دیگر سائنسی علوم کو اردو کے جائے انگریزی میں پڑھانے کا رجحان تقویت پکڑتا جارہا تھالیکن دہلی کالج کی سالانہ رپورٹوں میں کئی مرتبہ
اس امر پر زور دیا گیا کہ وہ طلبہ جوار دو میں سائنس ریاضی و غیرہ پڑھتے تھے ان کی ذہنی استعداد انگریزی میں پڑھنے والے طلبہ کے مقابلہ میں کہیں بہتر ہے۔دہلی کالج کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ طلبہ کو اردو میں ریاضی سائنس اور فلسفہ وادب کی تعلیم دی جائے اور اس لحاظ سے یہ کالج کامیاب رہا۔ 1857ء میں کا لج کو خاصہ نقصان پہنچا اور کتب خانہ تلف ہو گیا۔
عارضی طور پر کالج بند ہو گیا اور پھر مئی
1884ء میں دوبارہ کھولا گیا اور پھر مزید 13 درس زندہ رہا۔ دہلی کالج کے اساتذہ اور طلبہ کے ناموں پر نگاہ ڈالیں تو بعض معروف نام نظر آتے ہیں جیسے مولوی امام بخش صہبائی ماسٹر رام چندر ماسٹر پیارے لال ” مولوی ذکاء اللہ دلچسپ بات یہ ہے
کہ دہلی کالج میں فارسی کی تدریس کے لیے پہلے غالب اور پھر مومن سے درخواست کی گئی۔ غالب نے اس لئے ملازمت قبول نہ کی کہ جب دو ملاقات کے لئے آئے تو مسٹر نا محسن نے باہر آکر ان کا خیر مقدم نہ کیا۔ چنانچہ مرزا غالب ملے بغیر واپس آگئے ۔ مومن نے چالیس روپے ماہوار کے بجائے سو روپے تنخواہ طلب کی جو نہ ملی۔ دہلی کالج کے طلبہ میں ایسے نام نظر آتے ہیں۔
نذیر احمد محمد حسین آزاد ارام چندر محمد ذکا اللہ ضیاء الدین پیارے لال پیر زادہ محمد حسین میر ناصر علی کریم الدین اور آخر میں مولوی عبدالحق کی رائے : اردو زبان وادب کے سنوارنے اور بنانے میں جو خدمت اس نے کی ہے وہ کبھی فراموش نہیں ہو سکتی ہم اپنی زبان کو اس وقت جو ترقی یافتہ صورت میں دیکھتے ہیں اس پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کا بہت کچھ اثر ہے۔ یہ پہلی درس گاہ تھی جہاں مشرقی علوم کی تعلیم اردو زبان کے ذریعے سے دی جاتی تھی ایک صدی پہلے اس کا خیال آتا اور اس پر عمل کرنا غیر معمولی ہمت کا کام تھا ” (مرحوم دہلی کالج 187)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں