کتاب کا نام: بنیادی اردو،
کوڈ:9001،
موضوع: داستان کے اجزائے ترکیبی،
صفحہ: 70 تا 73،
مرتب کردہ: محمد ہمایوں قائم خانی۔
موضوعات کی فہرست
داستان کے اجزائے ترکیبی
ایسی کہانی جس میں مافوق الفطرت عناصر ہوں داستان کہلاتی ہے۔ داستان در حقیقت کہانی سننے کی روایت سے تعلق رکھتی ہے، یہ صنف سخن زبانی روایت بھی کہلاتی ہے۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی نے لکھا ہے۔
"داستان کسی خیالی اور مثالی دنیا کی وہ کہانی ہے، جو محبت مہم جوئی اور سحر طلسم جیسے غیر معمولی واقعات پر مشتمل اور مصنف کے آزاد اور زرخیز تخیل کی تخلیق ہو۔”
(کشاف تنقیدی اصطلاحات، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ، ۱۹۸۵ء ص ۱۸۸)
یہ بھی پڑھیں: داستان کی خصوصیات
اردو کی مشہور داستانیں : قصہ حسن و دل، آرائش محفل، گل صنوبر ، فسانہ عجائب، باغ و بہار ، اور مجانب القصص وغیرہ ہیں۔ داستانوں کو قدیم عہد صنف کہا جاتا ہے، مگر ایسا درست نہیں۔ داستان سے آج بھی اتنا ہی گہرا رشتہ ہے جتنا قدیم زمانوں میں تھا۔ انسان کے فینٹیسی کے معیارات میں فرق آیا ہے ورنہ آج بھی انسان تخیل، خیال آرائی، ماورائیت و غیرہ سے دامن نہیں چھٹرا سکا۔
طاہر نواز لکھتے ہیں :
"یہ سوال کیا جائے کہ حقیقت پسندی کے اس دور میں ان کرداروں کی کیا اہمیت ہے تو جواب یقینا یہی ہوگا کہ یہ کردار آج بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل اور مقبول ہیں، کیونکہ اگر یہ کردار مقبول نہ ہوتے تو ہمارے قصے کہانیوں کے علاوہ عالمی ادب میں بھی یہ مافوق الفطرت کردار تخلیق نہ ہو رہے ہوتے، جیسا کہ ( ٹام اینڈ جیری، سپائیڈر مین، آئرن مین، ہیری پوٹر وغیرہ )۔ یہ کردار ہماری حقیقی زندگی سے تعلق نہ رکھتے ہوئے بھی، بہت قریب تر ہیں۔ ان کی اہمیت اور افادیت کے دلائل میں یہی کافی ہے کہ یہ کردار آج بھی ادب میں ملتے ہیں۔ قصہ یا کہانی میں مافوق الفطرت کرداروں کی موجودگی کے حوالے سے ضروری ہے کہ قصہ یا کہانی کے آغاز اور ارتقا کا عقلی اور تہذیبی ارتقا کیساتھ جائزہ لیا جائے۔ یہ کردار کیسے ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں اور ان پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔ کیا حقیقت میں ایسے کرداروں کا وجود ہے۔”
اردو داستانوں میں مافوق الفطرت کردار مشمول اردو ریسرچ جنرل ، شماره ۱۳، جنوری ۲۰۱۸ ص ۷۹
یہ بھی پڑھیں: داستان کی اہمیت اردو
داستان کے بنیادی اجزاء
داستان کا تخلیقی ڈھانچ فکشن ( ناول اور افسانہ ) سے مختلف ہوتا ہے۔ داستان کے تخلیقی اجزاء میں مافوق الفطرت عناصر اور کہانی میں غیر متوقع انجام سے حیرت کو تخلیق کیا جاتا۔ شین زاد نے اپنے مضمون داستان اردو، داستانوی ادب کا ابتدائی ڈھانچہ میں اس کے بنیادی اجزاء میں عشق و محبت کا قصہ بھی بتایا ہے،
یعنی داستان کی کہانی میں عشق کی مافوق الفطرت واقعات میں عشق کا تصور بھی ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ طوالت کی اہمیت بھی کہانی کی دیگر اقسام سے زیادہ ہے۔ داستانوں کا انجام ہمیشہ طربیہ ہوتا ہے۔ داستان میں المیہ عناصر تو شامل ہو سکتے ہیں، مگر انجام ہمیشہ طربیہ کیفیات پر ختم ہوتا ہے۔
طوالت
داستان کی کہانی میں طوالت ہوتی ہے جسے خوبی سمجھا جاتا ہے۔ ایک کہانی کے اندر سے کئی کہانیوں پر آمد ہوتی ہیں۔ جسے قاری سنتے ہوئے ایک جہان سے دوسرے جہان میں چلا جاتا ہے۔ مرکزی قصے میں طوالت دینے کے لیے داستان گو ذیلی قصے لاتا ہے جس سے مرکزی قصے کو توسیع ملتی ہے ۔
عشق و محبت
داستان کا ایک اہم عنصر عشق و محبت بھی ہے۔ داستانوں میں عشق و محبت کے قصوں میں خیر و شر کے مسائل بیان کیسے جاتے ہیں۔ عشق کی مہمات، جذبات کی فراوانی کشمش اور تصادم و بغیر محبت جیسے لطیف جذبے میں بیان کیے جاتے ہیں۔
داستان امیر حمزہ کا شمار طویل ترین داستانوں میں ہوتا ہے۔ داستان کو طوالت کے لیے قصہ در قصہ آگے بڑھایا جاتا ہے، جن کا بعض اوقات مرکزی قصے سے تعلق نہیں ہوتا۔
پلاٹ
ناول یا افسانے کی طرح داستان کا مربوط پلاٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی واقعات میں منطقی ربط ہوتا ہے۔ داستان کو مرکزی قصے کو پھیلانے کے لیے متعلقہ یا ذیلی قصوں کو بیان کرنے لگتا ہے۔
پھر ان کو مکمل کرنے کے لیے وہ مرکزی قصے سے دور ہٹ جاتا ہے۔ درمیان میں داستان گو مرکزی قصے کی طرف پلٹتا بھی رہتا ہے۔ اچھی داستان وہ ہوتی ہے، جو مرکزی قصے کے ساتھ مربوط رہے اور قاری کی دلچسپی کو کم نہ ہونے دے۔
کردار نگاری
افسانے یا ناول کی طرح داستان نگاری میں کردار جیتے جاگتے معاشرے کی بجائے مافوق الفطرت بھی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے داستانوں میں کردار نگاری سے زیادہ قصے پر توجہ دی جاتی ہے۔ داستانوں میں زیادہ تر کردار اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو دیکھنے میں انسانوں جیسے ہو سکتے ہیں لیکن اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے مثالی کردار بن جاتے ہیں،
جیسے ایک شہزادہ دیکھنے میں انسان لیکن غائب ہونے کی صلاحیت کی وجہ سے مثالی کردار میں ڈھل جاتا ہے۔ بہت طاقتور جنوں، پریوں، دیووں سے مقابلہ کرنے والے کردار جو عام زندگی میں نہیں پائے جاتے، وہ سب داستانوں میں ممکن ہوتا ہے۔ یہ بھی داستان کی ایک خصوصیت ہے۔
مافوق الفطری عناصر
داستان میں مرکزی کرداروں کے علاوہ فوق الفطری کردار و عناصر بھی ہوتے ہیں جیسے جن، پری، دیو، جل پری ، اڑنے والے گھوڑے، جادوئی ٹوپی نقش، تعویز، اڑنے والے قالین، جادوئی تلوار، وغیرہ وغیرہ جن کا ہماری تمام قطری زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ یہ غیر فطری عناصر ہی داستانوں کا اہم سرمایہ ہیں اور ان ہی سے ہماری داستانیں پہچانی جاتی ہیں۔ اس سے داستان کی حیرت انگیز دنیا آباد ہوتی ہے اور داستان کو دوسری اصناف سے ممیز کرتی ہے۔
منظر نگاری
منظر نگاری کے حوالے سے بھی داستان بہت زرخیز ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہماری داستانیں اردو ادب کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔ داستان نگاروں نے مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات، پہاڑ ریگزار، بندرگا ہیں، شادی بیاہ، عرس، موسم، میلے، دریا ایسے مناظر کا بڑی تفصیل اور سلیقے سے ذکر کیا ہے۔ اپنی داستانوں میں ان کے سارے مناظر آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں
تہذیب و معاشرے کی عکاس
داستان تہذیب و معاشرے کی عکاس ہوتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری داستانوں سے دکن و شمال لکھنؤ اور دہلی کی پوری تہذیبی اور معاشرتی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔ داستان نگار اپنی تہذیب اور معاشرت کی مکمل تصویر اپنی داستان میں پیش کرتا ہے۔ داستان میں رہن سہن کے آداب کھانے پینے کی اقسام، ملبوسات ، سواریاں ، ملازم ، زیورات، جانور، غرض ہر چیز کا ذکر تفصیل سے کیا جاتا ہے۔
اخلاق کا درس
داستان میں اخلاق کا درس لازمی ہونا چاہیے۔ اس میں حق کی فتح اور باطل کی شکست ہر جگہ بار بار دکھائی جاتی ہے اور اس میں ہمدردی ، نیکی ، وفاداری، شجاعت کا درس بھی لازمی شامل کیا جاتا ہے۔ اچھے اخلاق کی تبلیغ ، جرات اور محبت و بھائی چارے کی تلقین کی جاتی ہے۔
انجام
داستان کا انجام طربیہ ہوتا ہے ہمیشہ نیکی کی فتح ہوتی ہے اور بدی کو مات ہوتی ہے داستان کا ہیرو ہر مشکل سے گزر کر آخر فتح مند ہوتا ہے۔ داستان میں ہمیں زندگی کی امیدیں، امنگیں، حسرتیں اور آرزو میں پوری ہوتی نظر آتی ہیں۔
زبان و بیان
داستانوں میں دو طرح کے اسالیب کو برتا گیا ہے: ایک رنگین مجمع و مقفی فارسی آمیز اور دوسرا سادہ سلیس اور با محاورہ دونوں اسالیب میں داستان نگاروں نے اپنے اپنے فن کے کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔ داستان کا اسلوب تخلیق کار کے ذہن و مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ کوئی آج کے دور میں داستان لکھے تو کسی نئے جدید اسلوب کو بھی اپنا سکتا ہے۔
ان اجزائے ترکیبی کو سمجھ کر ہم اردو داستان کی صنفی حیثیت کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور ان کے برتاؤ سے بیانیہ کی جدید صورت گری بھی کر سکتے ہیں۔ ہماری داستانوں نے ہی آنے والے زمانے کے فکشن کی بنیاد فراہم کی ہے جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔