دکنی اردو

کتاب کانام ۔۔ تاریخ اردو ادب1
صفحہ نمبر ۔۔۔۔۔۔ 91 تا 93
موضوع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دکنی اردو
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔۔ عارفہ راز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دکنی اردو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دکنی اردو

اردو زبان کے آغاز اور صورت پذیری کے ضمن میں دکن کے حوالے سے یہ امر اجاگر کیا گیا تھا۔ کہ عرب تاجروں کی آمد مسلمانوں کی آباد کاری اور صوفیاء کرام کی آمد کے نتیجہ میں اس خطہ کی مقامی پولیوں اور عربی فارسی کے امتزاج سے اردو کی تشکیل ہوئی۔ موجودہ یونٹ میں دکنی زبان و ادب کے بہمنی دور کا تعارف پیش کیا جاتا ہے تا کہ طلبہ دکنی ادب کے تخلیقی نقوش سے واقفیت حاصل کر سکیں۔

جس طرح گذشتہ یونٹ میں گجری سے مراد اردو تھی اسی طرح موجودہ یونٹ میں بھی دکنی سے مراد اردو ہی ہے۔ اس ضمن میں عبد القادر سروری کا یہ کہنا قابل توجہ ہے :

و کئی قدیم اردو کاوہ روپ ہے جس کی اولی نشود نما ابتدائی میں دکن اور گجرات میں چودھویں صدی عیسوی کے نصف آخر سے لے کر سترھویں صدی کے اواخر کے دوران میں ہوئی۔ یہ زبان بھی جدید ہند آریائی کی ایک شاخ ہے اور اس کا آغاز

بھی جدید ہند آریائی زبانوں پنجائی، سندھی، مغربی ہندی راجستھانی، گجراتی، مرہٹی

آریادار اور آسامی کے ساتھ ساتھ ہوا لیکن ادبی نشو و نما کے اعتبار سے یہ لودھی کی معاصر ہے۔ دکنی کا سارا سرمایہ الفاظ ہند آریائی ماخذوں پر مبنی ہے اور قواعد کا ڈھانچہ

بھی ہند آریائی بولیوں سے مطابقت رکھتا ہے "ا مقالہ مشمولہ کر دو زبان کی تاریخ میں ص : 177)

اس کے ساتھ مسعود حسین خان کی یہ رائے بھی شامل کر لیں (مقالہ بعنوان دکن یا اردو قدیم) تو دکن کا

مناظر مزید وسیع ہو جاتا ہے :

اس زبان کا دکنی نام بہت زیادہ قدیم نہیں عہد بہمنی کے کسی مصنف نے اپنی زبان کو دکنی کے نام سے نہیں پکارا ہے "۔

یونٹ نمبر 7 میں شاہ برہان الدین جانم کا احوال دیکھئے جنہوں نے اپنی زبان کو گجری کہا تھا) اس کے ہندی ہندوی اور گجری نام بھی زیادہ قدیم نہیں قطب شاہی اور عادل شاہی

ریاستوں کے قائم کے بعد ہی اس کا نام رکن پڑا ہے۔” (اردو زبان کی تاریخ مص : 210)
بهمنی سلطنت

یونٹ نمبر 1 اور 2 میں ذہلی کے مسلمان بادشاہوں کے دکن کی فتح اور اس کے نتیجہ میں سیاسی سماجی اند ہیں اور لسانی تبدیلیوں کا مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا جا چکا ہے بالخصوص جب 1327ء میں محمد تغلق نے دہلی کے جائے وکن کے شہر دیوگری ( دولت آباد) کو پایہ تخت بنا کر تمام دہلی کو کوچ کا حکم دیا۔ لیکن جلد ہی دہلی مراجعت کی بادشاہ تو گیا مگر خاصی تعداد میں دہلی کے باشندے دکن سے نہ گئے ۔ اور نئی دھرتی میں اپنی جزمیں پیوست کر لیں اور یوں اس لسانی عمل کا آغاز ہوتا ہے جو دکن کے جدا گانہ تشخص کا باعث بنا۔

1347ء میں دہلی کے خلاف دکن میں علم بغاوت بلند ہوا جس کے نتیجہ میں حسن خان المخاطب ظفر خاں علاء الدین ( بہمن شاہ کا خطاب تھا) بادشاہ – یہ بہمنی سلطنت (1347ء 1495ء ) تھی جس کا پایہ تخت گلبر گہ (بعد میں بیدر) تھا اس خاندان کے اٹھارہ بادشاہ تھے۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد دکن پانچ خود مختار حکومتوں میں تقسیم ہو گیا عادل شاہی (پایه تخت بیجاپور 1490ء تا 1888ء)

قطب شاہی (پایه تخت : گول کنده 1518ء تا 1687ء برید شاه (پایه تخت : بیدر – (1487ء تا 1619ء) عماد شاہی (پایه تخت : برار 1419ء تا 1595ء ) نظام شاہی (پایه تخت : احمد نگر 1490ء تا 1633ء) – اورنگ زیب نے 1686ء میں عادل شاہی اور 1687ء میں قطب شاہی حکومتوں کو ختم کر دیا جبکہ ان سے قبل 1633 ء میں نظام شاہی کی حکومت بھی مغل ختم کر چکے تھے۔ یوں اور نگ زیب نے 1707ء میں انتقال تک تمام دکن پر مغل پر چم لہرا دیا تھا مگر عظیم مغل سلطنت کے انتشار کا عمل بھی اتنا تیز تھا کہ مورخ حیرت زدہ رہ جاتا ہے لیکن اس تذکرہ کا یہ موقع نہیں۔

3- بہمنی دور حکومت کی اہمیت

جہاں تک دکن میں بہمنی حکومت کا تعلق ہے تو دو وجوہ کی بنا پر اسے تاریخ میں اہمیت حاصل ہے ایک تو اس لئے کہ اگر چہ بہمنی خاندان اور ان کے بعد قائم ہونے والی پانچ حکومتوں ) باد شاہ مسلمان تھے مگر شمالی ہند کے باشندے نہ تھے ہارے مقامی تھے اور دوسرے اس زمانہ سے دکنی زبان کے تخلیقی خدو خال پر صحیح معنوں میں نکھار
آتا ہے ۔ آنے والے زمانوں میں متعدد ایسی شخصیات کے اسماء ملتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری اور نثر نگاری سے دکنی زبان کے تخلیقی سرمایہ میں اضافہ کیا۔

جہاں تک اس عہد کی رکن زبان کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے اس نے تخلیقی لحاظ سے مجری جتنی ترقی نہ کی ہو لیکن مجری کے مقابلے میں اصناف کا تنوع کہیں زیادہ ہے چنانچہ مثنوی غزل مرثیہ قطعہ قصیدہ رباعی کے ساتھ ساتھ ہندی اصناف جیسے گیت وغیرہ کا چلن عام تھا اگر چہ قطب شاہی اور عادل شاہی دور جیسی تخلیقی شخصیات بہمنی دور میں نہیں ملتیں تاہم اس عہد سے متعلق شخصیات پیش رو ہونے کی بنا پر آنے والے اصحاب کے لئے راهنما ستارہ جیسی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔

بہمنی خاندان کے بیشتر بادشاہ علم پرور اور علم دوست تھے۔ دربار کی زبان دکنی تھی۔ انہوں نے مدرسے قائم کئے اور اہم علم و فضل پر دربار کے دروازے کھول دیئے اس ضمن میں فیروز شاہ خصوصی تذکرہ چاہتا ہے اس کا عہد حکومت (1397ء تا 1422ء ) سیاسی عروج کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی لحاظ سے بھی زرخیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ مشہور صوفی سید محمد حسین خواجہ بندہ نواز گیسو دراز اسی برس کی عمر میں اسی بادشاہ کے عہد حکومت میں گلبر گہ

وارد ہوئے اور پھر عمر یہیں گزار دی۔ 825ھ / 1421ء میں وفات پائی اور گلبرگہ ہی میں دفن ہوئے۔ جہاں تک بہمنی دور حکومت بلکہ سارے رکن ہی میں تصنیف و تالیف کا تعلق ہے تو نصیر الدین ہاشمی

نثر اور شاعری دونوں میں ان کی اولیت تسلیم کرتے ہیں مگر ڈاکٹر جمیل جالبی اس کی تردید کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بموجب معراج العاشقین بھی جو جمیل اب تک اردو کی پہلی نثری تصنیف مانی جاتی رہی ہے نہ صرف یہ کہ اس دور کی تصنیف نہیں ہے۔ بلکہ اس کے مصنف خواجہ گیسو دراز کے جائے مخدوم شاہ حسینی بجا پوری ہیں جنہوں نے گیارہویں صدی ہجری کے نصف آخر یا بارہویں صدی کے اوائل میں تلاوۃ الوجود” کے نام سے ایک رسالہ لکھا تھا۔ ( تاریخ ادب اردوم : 60-159)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں