ناول چاندنی بیگم کا تنقیدی جائزہ | A Critical Analysis of the Novel "Chandni Begum”
تحریر : ڈاکٹر پروفیسر برکت علی
موضوعات کی فہرست
اس تحریر کے اہم مقامات:
- قرۃ العین حیدر نے چاندنی بیگم میں مسلم مڈل کلاس کے خاندانوں کے تقسیم ہونے اور پاکستان و بنگلہ دیش میں آباد ہونے پر ان کے نئے مسائل کی عکاسی کی ہے ۔۔۔۔
- لیکن ایسا نہیں ہے کہ بظاہر مطمئن و خوش حال ، نظر آنے والی زرینہ سلطان کی زندگی نارمل طور پر گزر رہی ہے۔۔۔۔
- اسکے علاوہ پاکستان کے بے جڑا اور بے کلچر مہاجر معاشرے میں دولت کی لوٹ مار اور نمائش نے مہاجرین کے ذہن و مزاج پر کس طرح اپنے منفی اثرات مرتب کئے۔۔۔
- اور پرانی اقدار کے کھنڈروں پر جدید روایات واقدار کی عمارتیں بلند ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔۔۔۔
ناول چاندنی بیگم کا تنقیدی جائزہ
ناول چاندنی بیگم کا تنقیدی جائزہ
قرة العین حیدر، پریم چند کے بعد اُردو کی سب سے معتبر مقبول اور ہر دلعزیز ناول نگار ہیں ۔
قرۃ العین ین حیدر نے اپنی ناول نگاری کا آغاز ۱۹۴۹ء میں میرے بھی صنم خانے کے ساتھ کیا۔
اس کے بعد انھوں نے ” آگ کا دریا” آخر شب کے ہم سفر”کار جہاں دراز ہے اور چاندنی بیگم’ وغیر کئی ناول اور ناولٹ لکھے۔
یوں تو قرۃ العین حیدر کا "شاہکار ناول ” آگ کا دریا ہے اور اسے ہی ان کا نمائندہ ناول بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن چونکہ آگ کا دریا پر بہت کچھ
لکھا جا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قرۃ العین کی افسانہ نگاری
اس لیے میں نے اس باب میں جس کا عنوان "خواتین کے نمائندہ ناول ہیں چاندنی بیگم کا جائزہ قرۃ العین حیدر کے نمائندہ ناول کے طور پر پیش کیا ہے۔
” چاندنی بیگم ” موضوع اور تکنیک کے نقطہ نظر سے ان کے پہلے ناولوں کا اگلا قدم ہے
یه ناول جدید معاشرہ میں سرحد کے دونوں طرف تیزی سے بدلتی ہوئی تہذیبی اور معاشرتی قدروں کو خاندانی زندگی کے توسط سے پیش کرتا ہے ۔
"موجوہ نسل کا بزنس کی طرف جھکاؤ ، پڑھی لکھی لڑکیوں کا گھر گھر کانونٹ کھولنا، ٹیچروں کا Exploitation یعنی زیادہ تنخواہ پر دستخط کروا کر کم تنخواہ دینا
مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے سبب ان کی زبوں حالی مندر مسجد کے لیے فساد، ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ کلچر اور شاگرد پیشہ زندگی کی ترجمانی چاندنی بیگم کا موضوع ہے۔ چاندنی بیگم یس (۱۵)
چاندنی بیگم میں قرۃ العین حیدر نے ناول کے قصہ کے طور پر جاگیرداروں کے ایک خوشحال خاندان کو بنیاد بتایا ہے ۔
جس کے ذریعہ انہوں نے تین نسلوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ ابتدا میں شیخ اطہر علی کے خاندان کے افراد کی ذہنی کیفیات اور ترقی پسند خیالات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
قرۃ العین حیدر کے حوالے سے جملہ مواد
یہ ناول بے سہارا عورتوں کے مسائل پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
جن کے شوہر یا والدین انہیں ہندوستان میں بے یار و مددگار چھوڑ گئے ہیں اور پاکستان میں شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا ہے۔
اس کے برعکس ان کی لڑکیوں کی شادی ہندوستان میں ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ چاندنی بیگم کی صفیہ کے بھائی سے شادی اس بات کی طرف اشارہ ہے ۔
دوسرا خاندان تین کٹوری ، راجہ انور حسین کا ہے جو قدیم وجدید تہذیب کا سنگم ہے۔
ناول میں اس خاندان کی تین نسلوں کی کہانی پیش کی گئی ہے۔
پہلا دور آزادی سے قبل راجہ صاحب کی رئیسانہ زندگی سے متعلق ہے۔
دوسرا دور ان کی اولادوں زرینہ سلطان عرف جینی ، پروین عرف پینی ، صفیہ اور بوبی وغیرہ کا ہے۔
تیسرا دور ان کے بچوں کا ہے۔ جن کا تعلق ہندوستان پاکستان اور امریکہ سے ہے۔ اس نسل کے ذریعہ ہی قرۃ العین حیدر نے ہندو پاک میں بدلتے ہوئے سماجی، تہذیبی اور معاشی حالات کی نشاندہی کی ہے
اور پرانی اقدار کے کھنڈروں پر جدید روایات واقدار کی عمارتیں بلند ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔
تیسرا خاندان صنوبر فلم کمپنی کے مالک یعنی پیلا رانی شوخ اور ان کے والدین کا ہے۔
یہ شاگرد پیشہ حلقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ لوگ جاگیردارانہ عہد کے رہن سہن اور رسم و رواج کے پروردہ ہیں۔
بیلا رانی شوخ اور ان کے والدین ممبئی کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے خاندانی حالات کو پیش کرتے ہیں۔
قرۃ العین حیدر نے تقسیم ملک کے حوالے سے خاندانوں کی بربادی کی جو داستان بیان کی ہے وہ کسی مخصوص خاندان کے دائرے سے نکل کر ایک عظیم انسانی ٹریجڈی بن جاتی ہے
جس کی وجہ سے ایک ایسی تہذیب، ایک ایسا تمدن اور ایک ایسی ثقافت ختم ہو گئی جو صدیوں کے اتحاد کی عظیم الشان روایت تھی۔
ان خاندانوں میں قیام پاکستان کی وجہ سے بحران اور بکھراؤ کی کیفیت پر بڑی بے با کی اور جرآت مندی کے ساتھ نہایت مفکرانہ اور فنکارانہ انداز سے روشنی ڈالتے ہوئے
اس سے پیدا شدہ کرب اور درد کو نمایاں کیا گیا ہے۔
تقسیم ملک کے بعد آبادی کے ایک بڑے حصے کا مغربی و مشرقی پاکستان ہجرت کرنا اور اس ہجرت سے پیدا شدہ نئی صورت حال
قرۃ العین حیدر کا محبوب موضوع ہے چاندنی بیگم میں انہوں نے اس موضوع کو دو طرح سے برتا ہے ۔
اول یہ کہ مغربی پاکستان جا کر آباد ہونے والے مردوں کے پیچھے ہندوستان میں ان کے متروکہ بچوں اور عورتوں پر کیا گزری ،
دوم مشرقی پاکستان میں ہجرت کر کے شہریت حاصل کرنے والوں کے ساتھ ۱۹۷۱ء میں قیام بنگہ دیش کے دوران بنگالی بنام غیر بنگالی کے حوالے سے قتل و غارت گری کے جو واقعات ہوئے ،
ایک بڑی آبادی کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکے علاوہ پاکستان کے بے جڑا اور بے کلچر مہاجر معاشرے میں دولت کی لوٹ مار اور نمائش نے مہاجرین کے ذہن و مزاج پر کس طرح اپنے منفی اثرات مرتب کئے۔
ان سب کی تصویر کشی ناول میں بڑی گہرائی سے کی گئی ہے۔
چاندنی بیگم اور اس کی معمولی تعلیم یافتہ ماں، باپ کے کراچی چلے جانے کے بعد حالات کے تھپڑے سہتی ہیں
اور بمشکل تعلیم حاصل کر کے مقامی سکولوں کی معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔
یہ اسکول زیادہ تر صفیہ سلطان کے اسکول کی قسم کے بوگس کانونٹ ہیں جن کو کاروباری ذہن کے لوگ بطور تجارت چلاتے ہیں ۔
تقسیم ملک کے فوراً بعد ایک طرف جہاں مترو که جائیدادوں اور کسٹوڈین کے قبضوں سے متعلق لاکھوں جھگڑے و مقدمے اٹھے
وہیں نان و نفقہ کی محتاج مطلقہ مسلمان عورتوں کی تعداد میں بھی زبردست اضافہ ہوا تھا۔
قنبر علی کے بیر سڑا باپ کی کوٹھی پر روز نظر آنے والا یہ ہجوم اس نئی انسانی ٹریجڈی کو ظاہر کرتا ہے جو تقسیم کے نتیجہ میں رونما ہوئی تھی۔
"اچانک سین بدلا۔ تعلقه داران و بیگمات مع کاروں پالکیوں اور بگھیوں کے غائب۔
بہت جلد تانگے اور یکے معدوم ہو گئے ۔ سائیکلوں اور رکشوں کا سیلاب امنڈ آیا۔
ان پر سوارا لیے موکل بہتے تھامے برساتی میں داخل ہوتے جن کی املاک کسی ایک عزیز کی پاکستان روانگی کے سبب متروکہ قرار دے دی گئی تھیں۔
ان میں بہت سے ایسے تھے جو قبل ازیں موٹروں پر آیا کرتے تھے۔ بیدخل کسانوں کے علاوہ کوٹھی پر نان و نفقہ کی محتاج مطابقہ برقعہ والیوں کا ہجوم بڑھا …..( چاندنی بیگم بس ۹۱)
غریب گھرانوں کی متروکہ بیٹیاں جہاں قصباتی اسکولوں میں اُستانیاں بن کر عمر گزار رہی تھیں و ہیں خوشحال خاندانوں کی مطلقہ عورتیں زمین اور زیورات بیچ بیچ کر گز راوقات کرتی رہیں۔
علیمہ بانو اور چاندنی بیگم اپنے پشتینی کھنڈر میں رہتیں اور ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھاتی تھیں۔
چاندنی بیگم کی دادی کی وفات کے بعد ان کی چچی کراچی سے ساس کے متروکہ زیورات میں سے حصہ وصول کرنے آجاتی ہیں۔
مظلوم چاندنی بیگم اور اس کی غریب ماں تیزی سے زوال کی طرف گامزن اپنے معاشی و سماجی حالات کو بے بسی کے ساتھ دیکھتی ہیں
اور کراچی میں ہمبسے ہوئے مہاجر عزیزوں کے طعن و تشنیع اور ذلت آمیز برتاؤ کو بلا احتجاج برداشت کرتی رہتی ہیں
اور آخر کار بے کسی کی موت مر جاتی ہیں ۔ ریاست کی بڑی بیٹی زرینہ سلطان ہے جو تقسیم ملک کے دنوں میں اپنے شوہر کھو چکی ہے۔
کیونکہ وہاں شوہر نے جا کر دوسری شادی رچالی ہے لیکن معاشی طور پر مستحکم اور محفوظ ہونے کے باعث وہ اپنی اور اپنی اولاد کی کفالت اور پرورش کر لیتی ہے۔
حالانکہ ریاست ضبط ہو چکی تھی تاہم ابھی اتنا اثاثہ باقی تھا کہ افلاس کے تھپیڑے سہنے کی نوبت نہیں آئی ۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ بظاہر مطمئن و خوش حال ، نظر آنے والی زرینہ سلطان کی زندگی نارمل طور پر گزر رہی ہے۔
اس کے دل میں شوہر کی بے رخی اور بچوں کے ٹھکرائے جانے کا دریا ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے۔
جو کبھی کبھی پھوٹ کر باہر نکل آتا ہے۔
"میاں آیا ، اماں دونوں مر گئے ۔ دونوں بھائی ایک دوسرے سے مسلسل مقدمے ہی لڑا کئے۔ تین بچوں کو پال پوس کر میں نے بڑا کیا "
ان کے باپ کا کوئی فرض نہ تھا ؟ طلاق تو مجھے دے دی تھی ۔ بچے تو انہیں کے تھے۔
تم اسی شہر میں رہتی ہو تم اُس شخص کو نہیں سمجھا سکتی تھیں کہ ان کو کبھی کبھار محمد بھی لکھ دیا کریں…
یہ بچے تو جانتے ہی نہیں باپ کیا ہوتا ہے۔ پیسہ کوڑی تو در کنار محط تک نہ بھیجا.
نہ ماموں آڑے آئے نہ خالہ ۔ اماں ، میاں ابا کے مرنے کے بعد میں نے اپنی زمین۔ گہنے بیچ بیچ کر ان تینوں کو پڑھایا اور تم ہو پروین سلطانہ کہ ہر بات کا الزام صرف مجھی پر ڈالتی ہو۔ ( چاندنی بیگم ۹۲ )
زرینہ سلطان کی چھوٹی بہن پروین سلطانہ ان خوش نصیبوں میں سے ہے۔ جو پاکستان جا کر مال دار ہو چکے ہیں۔
لیکن مادی آسائشوں اور دولت کی فراوانی نے پروین سلطانہ کو اس قدر مغرور اور ذہنی طور پر پست بنا دیا ہے کہ اس کی زندگی اول تا آخر نمائش اور تصنع کے علاوہ کچھ نہیں ہے:
"بھیڑ میں سے نکلتے وکی میاں ، ڈنکی اور پنکی آگے آگے جا رہے تھے۔ ڈنکی بھی فوراً الگ سے پہچان لئے جاتے ہیں۔
ماشااللہ اونچے،پورے کھائے پئے۔ پروین نے اپنی بیٹی سے کہا۔
امی فیروزہ نے محنت کے ساتھ آہستہ سے جواب دیا۔” آپ یہ بات یہاں کئی بار دہرا چکی ہیں ۔
کھائے پئے . کھائے پئے ۔ بار بار اس طرح نہ کہیں ۔ پنکی بھی فاقہ زدہ نہیں میں اور ڈنکی قومی لباس میں مختلف نہ معلوم ہوں گے؟
ذرا اس فون کو دیکھو۔ کالے کالے چھوٹے چھوٹے ، ٹیڑھے ٹیڑھے لوگ۔
امی ۔ پورب کے لوگ عام طور پر سانولے اور پست قد ہوتے ہیں ایسے نہ کہیں پلیز۔
آپ بنگالیوں کا بھی اسی طرح مذاق اڑاتی ہیں کیا آپ ماسٹر ریس ہیں؟”۔ ( چاندنی بیگم : ص ۲۸۶)
پاکستان میں پروین سلطانہ کے کردار کے اس گھٹیا پن اور نمائش پسندی کو مہاجر کمیونٹی کے خلاف مصنفہ کا حقارت آمیز تعصب پر مبنی رویہ قرار دیا گیا ۔
جس کی بنا پر چاندنی بیگم کی مخالفت بھی کی گئی۔ لیکن معترضین یہ فراموش کر بیٹھے کہ پروین کی اولاد کے یہاں یہ رویہ بالکل نہیں ملتا ۔
اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان نقل مکانی کرنے والے بھی مہاجرین کے ذہن پروین سلطانہ کی طرح عامیانہ پن اور محدودیت کے حامل ہیں۔
حالانکہ مہاجرین کی نمائش پسندی اور اصراف بیجا کو و کی میاں، کلچرل سرگرمیوں کا نعم البدل ، قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ پورا پاکستانی معاشرہ ۔ خواہ وہ اسلام آباد لاہور کا پنجابی طبقہ ہو یا کراچی و حیدر آباد کا مهاجر طبقہ، مشرق وسطی کے عربوں کی تقلید کے زیر اثر فضول خرچی اور نمائش پسندی کا عمومی طور پر شکار ہے۔
اس میں مہاجر یا غیر مہاجر کی تفریق نہیں ہے۔ اس طرح پاکستان کی خواتین کی نمائش پسند اور پر تصنع طرز زندگی بھی ایک عام کی بات ہے
جسے قرۃ العین حیدر نے اشاروں کنایوں میں بے نقاب کیا ہے۔
پاکستان میں خاندانوں کی اس تقسیم کے علاوہ ایک اور منقسم خاندان لکھنو کے معروف مچھی بھون کے شیخ زادوں کا بھی ہے
جس کے دو برادران بستے اُجڑتے مغربی بنگال پہنچ جاتے ہیں اور وہاں جا کر اونچے کاروبار قائم کر لیتے ہیں ۔
بڑے بھائی شیخ طاہر علی کا کاروبار آسام میں گور کھا گوریلوں کے ہاتھوں تباہ ہوتا ہے
لیکن ان کی کمر اس وقت ٹوٹتی ہے جب بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے دوران ہوئے نسلی قتل عام میں ان کا چھوٹا بھائی بنگالیوں کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے۔
اور اس کی بیٹیاں اغوا کر لی جاتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان کا ایک ہی جرم تھا کہ یہ بہاری کہلائے جانے والے مہاجر طبقے سے تعلق رکھتے تھے ۔
بھائی کی تباہی اور اپنے کاروبار کی بر بادی ایکا ایک شیخ ظاہر علی کو انتہائی خوفزدہ اور دروں میں بنادیتی ہے؟
"میرا چھوٹا بھائی مظہر علی اپنی مکمل بربادی کے بعد جابجا دھکے کھاتا پھرا تین ملک بن گئے۔
ایک پرانا دو نئے ۔ پھر بھی لوگوں کو چین نہیں۔۔( چاندنی بیگم ص ۳۷۰)
اس "بہاری پر ابلم” کی ایک شکل جو ہندوستان میں چل رہی ہے ، اس ریکٹ میں نظر آتی ہے جس کے تحت یہ طبقہ جو تقسیم کے بعد کے پچیس سالوں میں دو بار بے وطن ہو چکا ہے
اور مختلف طریقے استعمال کر کے ہندوستان ، پاکستان یا یورپ کے ممالک میں شہرت اور رہائش حاصل کر کیونکہ بقول مصنفہ قومیت کا دارو مدار جائے پیدائش کے علاوہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے
کہ کس کو جس سفید فام ملک کی شہریت زیادہ آسانی سے مل جاتی ہے۔
قرۃ العین حیدر نے چاندنی بیگم میں مسلم مڈل کلاس کے خاندانوں کے تقسیم ہونے اور پاکستان و بنگلہ دیش میں آباد ہونے پر ان کے نئے مسائل کی عکاسی کی ہے ۔
آوارہ وطن بنگلہ دیشیوں کی خانہ بربادی اور در بدری کو بھی انہوں نے خالصتا انسانی سطح پر برتا ہے
اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے ہندوستانی مہاجرین کی کرداری تبدیلیوں کو وہ آج بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتی ہیں۔
اور اسکی وجہ یہ ہے کہ قرۃ العین سیکولر اور متحدہ قومیت کی حامی ہیں۔
چاندنی بیگم زندگی کے اتار چڑھاؤ اور ر دو قبول کی کشمکش کی کہانی ہے۔ خود مصنفہ کے لفظوں میں:
"زمین اور اس کی ملکیت اس پہلو دار ناول کا بنیادی استعارہ ہے جو پہلے باب کے تعارفی پیرا گراف سے لے کر آخر تک موجود ہے۔
اس کے ساتھ ارتقا کا عمل پیہم تغیر تبدیلی تخریب و تجدید و تمیر اور فطرت سے انسان کے اٹوٹ سمبندھ کی اشاریت بھی خاصی واضح ہے۔” ( چاندنی بیگم : ص ۲۵۵)
پروفیسر قمر رئیس کے لفظوں میں استعاراتی اسلوب اور تلازماتی بیان میں پوشیدہ ناول کا یہ وہ معنیاتی نظام ہے
جو ماہرین کو تحقیق کی دعوت دیتا ہے ۔ ناول کا یہ مرکزی خیال جس کی طرف مصنفہ نے اشارہ کیا ہے ان کے نظریہ حیات اور نظریہ تاریخ کا ایک حصہ ہے
جس کے زنده نقوش آگ کا دریا گردش رنگ چمن آخر شب کے ہم سفر ، اور دوسری تحریروں میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہر چند کہ چاندنی بیگم ۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں آگ کا دریا” اور ” آخر شب کے ہم سفر کے معیار کا بڑا ناول نہیں ہے ۔
لیکن چونکہ یہ ناول بیسویں صدی کی آخری دہائی میں شائع ہوا اور اس وقت تک آکر نہ صرف ہندو پاک کا سماجی اور ثقافتی منظر نامہ بمبلندیوں اور پستیوں سے دو چار ہو چکا تھا
بلکہ ہندو پاک کے مسلمانوں ہجرت اور اپنوں سے دوری اور علحدگی کا کرب بھی نت نئی صورتیں اختیار کر کے ان کی سوچ اور فکر کو نئے عملی اور حقیقت پسندانہ سانچوں میں ڈھال چکا تھا۔
اس اعتبار سے چاندنی بیگم ۱۹۸۰ء کے بعد تشکیل پانے والی نئی سوچ نئی ذہینت کو نمایاں کرنے والا ایک اہم ترین ناول ثابت ہوتا ہے۔
ماخذ: اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ