تہذیب کے عناصرِ تشکیلی

تہذیب کے عناصرِ تشکیلی | Constituent Elements of Civilization

تحریر: ڈاکٹر غلام فرید

اس تحریر کے اہم مقامات:

  1. تخلیقی فکر تہذیبی رفعت کی پہلی سیڑھی ہے۔۔۔
  2. کچھ بھی ہو جائے اپنی مٹی کو نہ چھوڑنا یہی ثقافت ہے۔۔۔
  3. ہم بلا خوف و تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب و فن تہذیب کے تشکیلی عناصر میں اہمیت کے حامل ہیں۔۔۔
  4. ایک تہذیب کے اندر کئی مذاہب ہوتے ہیں مثلاً عرب تہذیب میں یہودیت، عیسائیت، مجوسیت، بت پرستی، ابراہیمی، اور بعدمیں اسلام شامل ہیں۔۔۔۔
  5. کچھ بھی ہو جائے اپنی مٹی کو نہ چھوڑنا یہی ثقافت ہے۔۔۔۔

تہذیب کے عناصر

تخلیقی فکر تہذیبی رفعت کی پہلی سیڑھی ہے۔ وہ قومیں مہذب کہلاتی ہیں جن کے ادیب اور دانشور زندہ اور فعال تخلیقی فکر کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ وہ اصحاب ہیں جو قوم میں جمالیاتی ذوق کی آبیاری کرتے ہیں اور یوں ثقافتی زندگی میں ہم آہنگی اور رنگا رنگی لوٹ کر آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تہذیب کے اجزائے

فن

ہم بلا خوف و تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ ادب و فن تہذیب کے تشکیلی عناصر میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ثقافت بھی تہذیب کا عنصر ہے جو لفظ کلچر کا ہم معنی ہے۔ اس کو ایگری کلچر کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ یعنی انسان کی زمین کیساتھ جڑت ، وابستگی اور محبت ثقافت کے پرتو ہیں۔ کچھ بھی ہو جائے اپنی مٹی کو نہ چھوڑنا یہی ثقافت ہے۔

تہواریں

مختلف قسم کے تہوار مثلاً نو روز، بیساکھی ، میلاد، ہولی، دیوالی،دسہرا، ایسٹر وغیرہ ثقافت کے جز ہیں۔ ایک تہذیب کے اندر کئی مذاہب ہوتے ہیں مثلاً عرب تہذیب میں یہودیت، عیسائیت، مجوسیت، بت پرستی، ابراہیمی، اور بعدمیں اسلام شامل ہیں۔

مزید یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ثقافت ایک پرانی تہذیب

دوسری مثال ایک بڑی تہذیب ہندوستان کی ہے جس میں ایک شہر میں گوردوارہ، گرجا، مندر، مسجد شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے خطرہ نہیں محسوس کرتے یہ عنصر تہذیب کی تشکیل میں اہم ترین ہے۔ اس میں جب بھی انتشار آتا ہے تہذیب کی عمارت کو ملبے کا ڈھیر بنتے دیر نہیں لگتی ۔

فی زمانہ امریکہ کی تہذیب میں یہ عنصر بہت مضبوط ہے۔ رسوم و رواج، شادی بیاہ، کھانے بھوجن، تہذیبوں میں ثقافت اور مذہب دونوں میں ہوتے ہیں یا دونوں کا امتزاج بھی ہوتے ہیں۔

کھیل تماشے

کھیل تماشے ویسے تو تہواروں کے ذیل میں آتے ہیں اور قدیم تہذیبوں میں میلے ہی میں بہت سے آئٹمز شامل ہوتے تھے مثلاً مشاعرے، کہانیاں ، تھیٹر، منڈلیاں ، سرکس، کھیل، (گھڑ دوڑ سے کبڈی تک) اور مختلف بازار وغیرہ ۔ برِ صغیر میں تقریباً تحصیل کی سطح تک یہ میلے سجتے تھے اور کئی جگہوں پر آج بھی یہ میلے جاری ہیں یا جیسے عرب میں عکاظ کا میلہ۔

کھیل ایسی توانا سرگرمی ہے جو تہذیب کے چہرے کو تروتازگی بخشتی ہے۔ یونانی تہذیب اپنے ماضی کی عظمت پر بجا طور پر فخر کر سکتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بڑے بڑے میدان اور دریا اور نہریں متمدن ہونے کے لیے شرط نہیں ہیں اور یونان میں یہ سب نہیں تھا

وہاں اقلیدس، سقراط، ارسطو،افلاطون، ہیروڈوٹس اور ہومر کے ساتھ ساتھ اولمپک گیمز بھی تھے جو ۷۷۶ق م میں شروع ہوئے اور اس تہذیب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

کھیلوں میں شرکت تہذیبی یک جہتی کی علامت ہے۔ اور یہ تہذیب کا وہ عنصر ہے جس پر خود تہذیب اور اس کے فرزند یک گونا اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ ابنِ حنیف نے لکھا ہے:”ان کھیلوں (Olympics)اور ان کے بعد ہوتے رہنے والے اولمپک اور دوسرے میلوں ٹھیلوں میں شرکت کے لیے جو یونانی جمع ہوتے تھے ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ مشترکہ تمدن کے حامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلامی تہذیب و تمدن

موجودہ دور سائنسی دور ہے اور اس میں ہر فرد مشینی طرزِ زندگی سے دوچار ہے مگر اس کے باوجود آج بھی کھیل کو متمدن معاشروں میں وہی اہمیت حاصل ہے ۔ صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کا ضامن ہے والا مقولہ عام ہے۔ کھیل تہذیبوں کے مثبت رخ ہیں جن سے ان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔

تعلیم

شرح خواندگی یا تعلیم یافتہ ہونا بھی تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل ہے۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو وحشی پن سے مہذب بننے میں اور طاقت کی بجائے استدلال سے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مدد دیتا ہے۔ یونانی تہذیب سے مغرب کی موجود ہ تہذیب تک ہمیں یہ عنصر برابر ملتا ہے۔ تنظیم بھی تہذیب کا جزو اعظم ہے۔

منتشر خیالات ہوں یا معاشرے ، وہ انارکی اور تشدد کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ نظم و ضبط(Discipline)قوموں کی تشکیل میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں ۔ سیاسی تنظیم تہذیب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس میں ریاست کا کردار مرکزی ہے۔

ریاست

ریاست کے فرائض ، ریاست اور عوام کا باہمی تعلق اگر شانت ہوں تو تہذبیں آگے بڑھتی رہتی ہیں اور معاملہ برعکس ہو تو ان میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ریاست کا عدل عوام کو سکھی رکھتا ہے۔ اور اس کے بدلے شہری ریاست کے بارے میں اپنے فرائض دلجمعی سے ادا کرتے ہیں۔ اے ایل باشم نے اس حوالے سے کہا ہے:

’’قدیم دنیا کے کسی بھی حصے میں انسان اور انسان ، انسان اور ریاست کے درمیان تعلقات اتنے اچھے اور انسانیت دوستی پر مبنی نہیں رہے ہیں کسی بھی دوسرے ابتدائی تمدن میں غلامی کی تعداد اتنی کم نہیں رہی ہے اب کسی بھی کتابِ قانون میں ان کے حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے جتنا کہ ارتھ شاستر میں۔

کسی بھی قانون ساز نے جنگ میں عدل و انصاف کے اعلیٰ معیار کا دعویٰ نہ کیا جیسا کہ مَنو نے۔ ہندوستان کی تاریخ میں حرب و ضرب کاایک واقعہ بھی شہروں کو تہہ تیغ کرنے کا یا غیر متحارب عوام کے قتل کرنے کا نہیں ملتا۔ ‘‘(۲۸)

مندرجہ بالا اقتباس میں اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے مگر انسان اور انسان اور ریاست کے تعلقات واقعی مثالی تھے۔

چندر گپت سے شیر شاہ تک اور بابر سے شاہجہاں تک (اودھ اور دکن کے حکمران بھی شامل کیے جا سکتے ہیں) اس کے لیے بطورِ مثال پیش کیے جا سکتے ہیں حتیٰ کہ۱۸۵۷ء میں بہادر شاہ ظفر کی معزولی اور گرفتاری کے وقت عام ہندوستانی کی وفاداریاں اور ہمدردیاں مغل فرمانروا کیساتھ ہی رہیں۔

تہذیب کے اس عنصر کو ماضی کی تہذیب میں تلاش کیا جائے تو جہاں یہ عنصر جتنا مضبوط تھاوہ ریاستیں اتنی پائیدار تھیں ۔ بابل، مصر، یونان، روم، ایران ، ہندوستان، چین وغیرہ جہاں بھی سیاسی تنظیم اعلیٰ تھی عوام اور حکومت کے تعلقات عمدہ تھے وہ تہذیب درجہ کمال پر تھی۔

ہندوستان کی قدیم تہذیب میں اس کی مثال ہم مَنو کے شاستر سے پیش کرتے ہیں جو کہ تمدن ہند میں گستاؤلی بان نے نقل کیا ہیجو بادشاہ اپنی رعایا کی حفاظت کرتا ہے اسے رعایا کی عبادت کا چھٹا حصہ ملتا ہے اور ان کی حفاظت نہ کرے تو ان کے گناہوں کا چھٹا حصہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے۔(۲۹)

قوانین و ضوابط تہذیب کی بنت میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کتابی ش کل (Written Form) میں بھی ہو سکتے ہیں جیسے حمورابی اور روایت پر مبنی (Unwritten)بھی جیسے برطانیہ ۔ اس میں افراد کے حقوق و فرائض کی ذمہ داریاں بھی درج ہوتی ہیں کیونکہ مہذب اور وحشی میں بنیادی فرق در اصل یہی دستور ہے۔

زبان

زبان بھی تہذیب میں کم اہم نہیں ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ ایک حد تک انفرادی رائے سے تعلق رکھتا ہے کہ ثقافت کس نقطے پر پہنچ کر تہذیب بنتی ہے لیکن ما قبل تاریخ کے تاریخ میں منتقل ہونے کا مسئلہ بہت واضح اور سادہ ہے یعنی یہ معاملہ اس وقت پیش آیا جب انسانوں میں اپنی زبان کو کتابت کی شکل میں منتقل کیا اور تحریری دستاویزوں میں محفوظ کرنے لگے۔

مگر سوال پھر بھی موجود ہے کہ یہ کتابیں اور تحریر کب شروع ہوئی ۔ سنگی کتبے ، پتھر ، ظروف، ہڈیاں ، سکے اور مختلف اوزاروں سے ماہرینِ آثار قدیمہ نے صرف قیاسی باتیں کی ہیں۔

اور اس کی قدامت پانچ سے دس ہزار سال بتائی ہے۔ حتمی طور پر اس کا تعین مشکل ہے۔ معلوم تاریخ کی طرح تہذیب کی اپنی موجودگی بھی فقط پانچ ہزار سال قدیم ہے۔ ٹائن بی نے لکھا ہے :

"Civilization is only about five thousand years old.”(30)

اخلاقی روایات

تہذیب کو تشکیل دینے میں معاشرے کی اخلاقی روایات کو بھی دخل ہے۔ بحیثیت مجموعی ان کا نظریہ زندگی کیا ہے۔ خیر و شر کے اصول کیا ہیں، طرزِ زندگی میں اخلاقی روایات کا چلن کتنا مضبوط ہے۔ خاندانی نظام اور عائلی زندگی کیسی ہے۔

اخلاقیات بنیادی طور پر تعلیم کا موضوع ہیں۔ مگر پرانی تہذیبوں میں خواندگی سے ہٹ کر کچھ روایات بھی تھیں جن پر عمل ہوتا تھا مثلاً شادی کے بندھن کے بغیر مہذب معاشرے میں تعلقات رکھنا اخلاقی اصولوں کے منافی تھا۔ چوری اور ڈاکہ جیسے جرائم بھی اخلاقیات کے منافی تھے ۔

مرکزی حکومتوں کے علاوہ دیہات کی سطح پر پنچائت کا وجود تہذیبی اخلاق کاچہرہ ہے۔ یہ پنچائت معاشرے کے بگاڑ کو مناسب اخلاقی اصولوں کی روشنی میں سلجھاتی تا کہ مہذب طور طریقے وحشت میں نہ بدل جائیں کیونکہ لیاقتیں کیسی ہی اعلیٰ درجے کی ہوں جب تک ان کیساتھ اعلیٰ اخلاق نہ ہوں کچھ کام نہیں آ سکتیں۔

فنون لطیفہ

فنونِ لطیفہ بھی کسی تہذیب کے حسنِ تناسب کے نمائندہ تصور کیے جاتے ہیں شاعری کو ان فنون میں اولیت حاصل ہے۔ عام طور پر موسیقی اور شاعری کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ آواز و آہنگ کا رشتہ بھی شاید قدیم ہے۔ شاعری کے اوزان کو موسیقی کے سروں سے جوڑا جاتا ہے۔ انسان نے شاید یہ فن بھی فطرت کے غیر انسانی کرداروں سے سیکھا ہے۔ مثلاً پرندوں ، جھرنوں، دریاؤں اور ہواؤں سے ۔

یہ عنصر جس قدر ترقی پر ہوتا ہے وہ تہذیب بھی اس قدر بلند مرتبے پر فائز ہوتی ہے۔ ہندوستان میں تان سین، امیر خسرو اور عراق میں موصلی خاندان کا وجود اپنے زمانے کے شاندار ادوار مانے جاتے ہیں۔ یونان ہومر پر، ایران حافظ اور فردوسی ، عرب امراء القیس و اعشیٰ، برصغیر ٹیگور، غالب اور اقبال، انگلستان شیکسپیئر، جرمنی گوئٹے پر اس لیے نازاں ہے کہ یہ ان کی تہذیبوں کے فرزند ہیں جن کے فن کی بدولت دنیا میں ان تہذیبوں کی شان میں اضافے ہوئے ۔

جس معاشرے میں یہ عنصر پھل پھول نہ رہا ہو وہ دہشت و بربریت کی زد میں آ جاتے ہیں اور غیر مہذب کہلانے لگتے ہیں ۔ ہند مسلم تہذیب میں موسیقی اور شاعری کو بادشاہوں نے بھی اپنے درباروں میں فروغ دیا اور صوفیا نے بھی اپنے آستانوں پر اس فن کو پذیرائی بخشی۔ اکبرِ اعظم اور معین الدین چشتی اجمیری اس سلسلے میں بطور مثال موجود ہیں۔

امیر خسرو نے کئی راگ اور آلاتِ موسیقی بھی ایجاد کیے۔ یہ ثقافت میں اتنا اہم جزو ہے کہ اس کے بارے میں قاضی جاوید نے لکھا ہے کہ سید علی ہجویری کی تعلیمات کی بنا پر بھی ہندوستانی خانقاہیں موسیقی کا مرکز بن گئیں(۳۱)

فنِ مجسمہ سازی، فنِ معماری و سنگ تراشی اور مصوری تہذیب کا ایک اور فعال اور جاندار عنصر ہے۔ تہذیبوں کی عظمت کی پیمائش عمارتوں کے کلس اور میناروں کی اونچائی سے ناپی جاتی ہے۔ الحمرا سے لیکر تاج محل تک اور اہراموں سے قدیم قلعوں اور معبدوں ، مقبروں سے مندروں تک تمام عمارتیں تہذیبوں کی سطوت و شوکت کے نشان ہیں۔

جدید دور میں دریاؤں کے پل ، عجائب گھر ، ہوائی اڈے ، ریلوے اسٹیشن، اور علمی درسگاہیں تہذیبوں کے تشکیلی عناصر میں اہمیت کی حامل ہیں۔ یونانی سکول ، بد ھ یونیوسٹیاں ، بغداد کے مدرسے، جامعتہ الاظہر، آکسفورڈ وغیرہ ایک لمبی فہرست ہے جو تہذیبوں کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ تہذیب وہ معاشرتی تنظیم و ترتیب ہے جس میں کلچر پھلتا پھولتا ہے ۔

معاشی نظام ، اخلاقی قدریں۔ سیاسی وحدت اور علم وفن کی لگن مہذب سماج کی نشانیاں ہیں۔

بشکریہ: مقالہ انتطار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں