زبان اور بولی میں فرق مکمل تفصیل

زبان اور بولی میں فرق مکمل تفصیل

The topic **”زبان اور بولی میں فرق مکمل تفصیل”** (Complete Explanation of the Difference Between Language and Dialect) was discussed in the WhatsApp group, where participants delved into the distinctions between the two concepts. Contributors including **نفیسہ نذیر**, **حسنہ**, **عشبہ پروین**, **تمثیلہ یوسف**, **ربیعہ نور**, **شاہ زیب**, **ملائکہ نوید**, **اسما تور**, **سید اعجاز حسین**, **فرہان احمد**, **سعدیہ شعیب**, **ثامیہ**, **اریبہ کلثوم**, **سارہ سحر فاروقی**, and **سیرت فاطمہ** shared their insights. This post compiles their detailed analyses and perspectives on the relationship and differences between language and dialect.

زبان ایک نظامِ ابلاغ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، احساسات، اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ لکھائی، بولنے، اور اشاروں کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ زبان کا بنیادی مقصد انسانی تعاملات کو آسان بنانا ہے۔

1. **زبان**: یہ ایک معیاری نظام ہے جو ایک خاص قوم یا ثقافت میں استعمال ہوتا ہے، جیسے اردو، انگریزی، عربی وغیرہ۔ زبان کے قواعد، لغت، اور ساخت ہوتی ہیں جو اس کی شناخت کرتی ہیں۔

2. **بولی**: یہ زبان کا ایک مقامی یا علاقائی ورژن ہوتا ہے۔ بولیاں عام طور پر زبان کے بنیادی اصولوں کی پیروی کرتی ہیں لیکن ان میں مخصوص لہجے، الفاظ، اور محاورے شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اردو زبان کی مختلف بولیاں جیسے دکنی، ہندی اور پنجابیدا ہیں۔

مزید یہ بھی پڑھیں: زبان کیا ہے؟

اس طرح، زبان اور بولی ایک ہی نظام کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ زبان معیاری ہوتی ہے، جبکہ بولی زیادہ مقامی اور غیر رسمی ہوتی ہے۔

 اردو ادب  میں زبان اور بولی میں ایک فرق پایا جاتا ہے مثلا زبان اصولوں، ضابطوں، قواعد، صوتیات، لغت، مخارج، تلفظ کی بناوٹ، فقروں ،جملوں کی ترتیب، رسم الخط کا نام ہے۔ جبکہ بولی علاقائی اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ بولی مقامی اور گھریلو زبان ہوتی ہے۔بولی پر علاقائی تلفظ، لہجے، اور عوامی بول چال کے علاقائی اثرات غالب ہوتے ہیں۔ زبان کا علاقہ لامحدود ہوتا ہے جبکہ بولی علاقائی حدود تک محدود رہتی ہے۔زبان ادب کی ترجمان ہوتی ہے جبکہ بولی عوام الناس کی ترجمانی کرتی ہے۔ زبان کی مثالیں۔۔۔اردو، ہندی، مراٹھی، وغیرہ ہیں بولی کی مثالیں۔۔۔اودھی، بندیلی، قنوجی، وغیرہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: زبان اور معاشرہ

ہر بڑی زبان کی بولیاں ہوتی ہیں۔جب کوئی زبان اپنے مرکز سے ہٹ کر دور دراز علاقوں میں بولی جاتی ہے، جب کوئی زبان دوسرے لسانی ماحول میں بولی جاتی ہے، جب کوئی زبان سماج کے مختلف طبقوں میں بولی جاتی ہے تو اس کی حسب ترتیب علاقائی، لسانی، اور سماجی بولیاں جنم لیتی ہیں۔۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس طرح بھی کہ سکتے ہیں کہ ایک زبان کے علاقے میں کئی بولیاں بولی جاسکتی ہیں، لیکن ایک بولی والے علاقے میں کئی زبانیں نہیں ہو، سکتی۔ وسیع تر معنوں میں یہ کہ سکتے ہیں کہ زبان سے ادبی تخلیق کا کام لیا جاسکتا ہے۔نیز تعلیمی، اتظامی، عدالتی، سیاسی، اور تہزیبی شعبوں میں زبان ہی مروج ہوتی ہے۔لیکن بولی میں یہ تاب و تواں نہیں ہوتی۔ بعض ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ زبان اور بولی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔بولی ہی ترقی کر کے زبان کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہے۔ امریکی ماہرِ لسانیات Whitey کا نظریہ ہے کہ زبان اور بولیوں کا تعلق ایک دائرے کی شکل میں رہتا ہے۔زبان کچھ عرصے بعد بولیوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔یہ بولیاں پھر زبان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔اس طرح یہ چکر برابر چلتا رہتا ہے۔لیب نیز(Libniz) نے اٹھارویں صدی کے شروع میں ہی یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ مختلف زبانیں الگ الگ بولیوں کی شکل میں آگے بڑھتی ہیں۔

زبان ایک ایسا ذریعہ ہے جس معلومات کا تبادلہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے انسانوں کے علاوہ دوسرے جاندار بھی آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں مگر زبان سے مراد عموماً وہ نظام لیا جاتا ہے جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے تبادلہ معلومات و خیالات کرتے ہیں اسی لیے زبان کو اظہار خودی اور تبادلہ معلومات بھی کہاجاتاہے

زبان خیالات کے اظہار کا وہ وسیلہ ہے جو ملفوظ آوازوں کی مدد سے انسان کے مطالب ومقاصد کو ایک دوسرے تک منتقل کرتا ہے

زبان اس کو کہا جاتاہے جو بہت بڑے پیمانے پر ادبی سرمایہ رکھتی ہو نظم میں بھی نثر میں بھی اور بولی اس کو کہا جاتاہے جو جو خیالات کے اظہار کا ذریعہ تو ہو لیکن ادبی سرمایہ نہ پایا جاتاہو

زبان وسیع پیمانے پہ شہری علاقوں میں بولی جاتی ہے جبکہ بولی مقامی ہوتی ہے جو چھوٹے چھوٹے علاقوں یعنی دیہات قصبے  یا گاؤں تک محدود ہوتی ہے  زبان کو اہمیت بولی سے زیادہ ہے زبان معیاری اور اعلیٰ ہوتی جو عموماً ہر جگہ بولی جاتی ہے ، بولی ہر علاقے کی ایک مخصوص اور دوسرے علاقے سے ملتی جلتی ہے جو روزمرہ گفتگو کے لئے استعمال ہوتی ہے

 کیا بولی سے زبان بن سکتی ہے ؟

 تاریخ ادبیات مسلماناں پاک و ہند

مکمل ایک ہی پی ڈی ایف میں چاہیے

 بولی اور زبان

موضوع ہے

جی اسکے بغیر زبان کا وجود نا ممکن ہے زبان انسانی معاشرے کو دیگر مخلوقات میں ممتاز اگر چہ بناتی ھے لیکن نامناسب اور تلخ موضوعات فرض کریں جسے ھم ناگفتہ بہ طریقہ بحث و تقرار کہیں بے ایسے میں انسان کی قدر پلک جھپکتے بے زبان جانوروں کی مانند ھو سکتی ھے۔

تو اردو زبان سے پہلے وہ کونسی بولی تھی جس سے اردو وجود میں آئی

 انسان کے احساسات و جذبات کو صوتی صورت میں اظہار کرنے کو زبان کہتے ہیں۔

جی ہاں، بولی سے زبان بن سکتی ہے، اور تاریخ میں ہمیں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ زبانوں کی ترقی اور ارتقاء کا عمل مسلسل اور پیچیدہ ہوتا ہے، اور بولی ایک ابتدائی شکل ہو سکتی ہے جو وقت کے ساتھ زبان میں بدل جاتی ہے۔ اس تبدیلی میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں:

1. سماجی اور سیاسی عوامل:

جب ایک بولی بولنے والا گروہ معاشرتی، سیاسی یا اقتصادی طور پر اہمیت حاصل کر لیتا ہے، تو اس بولی کو زیادہ لوگوں تک پہنچنے کا موقع ملتا ہے۔ وقت کے ساتھ، یہ بولی معیار کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ایک سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، لاطینی زبان کی کئی بولیاں تھیں، لیکن رومی سلطنت کے عروج کے ساتھ، لاطینی ایک معیار بنی اور بعد میں اس سے فرانسیسی، اطالوی، ہسپانوی اور دیگر زبانیں ابھریں۔

2. تحریری شکل اور علمی معیار:

جب کسی بولی کو لکھنے اور سیکھانے کے نظام میں شامل کیا جاتا ہے، تو وہ بولی ایک زبان کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ تحریری شکل میں قواعد، لغت، اور ادب کی موجودگی ایک بولی کو زیادہ مستند بناتی ہے۔ جب اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، تو وہ مزید ارتقا کرتی ہے۔

3. تعلیمی نظام میں شمولیت:

اگر کسی بولی کو تعلیم کے میدان میں شامل کیا جائے، جیسے اسے اسکولوں میں پڑھایا جائے، تو اس کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور لوگ اسے زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اس طرح، وہ بولی ایک مستند زبان کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اردو ایک وقت پر دہلی اور اس کے ارد گرد کی بولی تھی، لیکن برصغیر میں سیاسی اور تعلیمی اہمیت کی وجہ سے اردو زبان بن گئی۔

4. ادبی اور ثقافتی ترقی:

کسی بولی کا ادب اور ثقافت میں استعمال بھی اسے زبان بننے میں مدد دیتا ہے۔ جب کسی بولی میں شاعری، نثر یا علمی مواد پیدا کیا جاتا ہے، تو وہ اپنی حیثیت کو مستحکم کرتی ہے اور ایک زبان کی شکل میں ڈھلتی ہے۔ فارسی، جو ایران میں ایک بولی کے طور پر شروع ہوئی، بعد میں ادب اور علمی کاموں کی بدولت ایک مکمل زبان بنی۔

5. معاشرتی قبولیت:

کسی بولی کو زبان بنانے میں معاشرتی قبولیت ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ جب لوگ اسے روزمرہ زندگی میں زیادہ استعمال کرنے لگتے ہیں اور دوسرے گروہ بھی اسے سیکھنے اور اپنانے لگتے ہیں، تو بولی زبان بن جاتی ہے۔ یہی عمل آج بھی کئی زبانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، خاص طور پر ڈیجیٹل دور میں۔

نتیجہ:

بولی زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اس کے لیے سماجی، سیاسی، اور علمی عوامل کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ بولی ایک زبان کی ابتدائی شکل ہو سکتی ہے، اور جب اسے سماجی طور پر اپنایا جاتا ہے، تحریری شکل دی جاتی ہے، اور اسے تعلیم و ادب میں استعمال کیا جاتا ہے، تو وہ ایک مکمل زبان کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔

زبان کے زریعہ سے ادب وجود میں آتا ہے اور کوئی بھی  انسان اپنے جزبات اور احساسات کو زبان کے زریعہ ہی ادب میں پیش کرسکتے ہیں زبان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے یہ ہر موضوعات کو اپنے اندر سمو سکتی ہے انسانی زندگی ترقی  میں زبان کافی اہم رول ادا کرتی ہے

زبان کے اصول وقواعد ھوتے ہیں

جبکے بولی کی کو ی اصولوں وقواعد نہیں ہوتی ہے بولی کو صرف اپنی مافی الضمیر ادا کرنے کے لے استعمال کیا جاسکتاہے اس سے کوئی ادبی کام انجام نہی دیا جاسکتاہے

بولی ایک علاقہ یا خطہ تک محدود ہوتی ہے ،بولی تہذیب سے عاری ہوتی ہے

اردو زبان کی بنیاد مختلف بولیوں اور زبانوں کے ملاپ سے پڑی، لیکن اس کی اصل تشکیل ہندی اور کھڑی بولی سے ہوئی۔ کھڑی بولی شمالی ہندوستان کی ایک مقامی بولی تھی، جو دہلی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ، کھڑی بولی اور ہندی زبانوں میں فارسی، ترکی، عربی اور دیگر زبانوں کے الفاظ شامل ہوئے، جس سے اردو کی تشکیل ہوئی۔

اردو کے ارتقاء کی داستان بہت دلچسپ ہے، جو مختلف ثقافتوں، زبانوں، اور معاشرتی عوامل کا نتیجہ ہے۔ جب مسلم حکمران برصغیر میں آئے، تو ان کے دربار میں فارسی زبان کا راج تھا، جبکہ فوج اور عوامی سطح پر مختلف بولیوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ مسلم فوجی دستوں میں مختلف قومیتوں کے لوگ شامل تھے، جن میں ترک، ایرانی، افغانی، اور مقامی ہندوستانی شامل تھے۔ اس ماحول میں مختلف زبانیں اور بولیاں باہم ملنے لگیں۔

اردو کے ارتقاء کے مراحل:

1. کھڑی بولی کی بنیاد: کھڑی بولی، جو دہلی اور مغربی اتر پردیش کے علاقوں میں بولی جاتی تھی، اردو کا ابتدائی بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتی ہے۔ اس میں مقامی الفاظ اور گرامر موجود تھے جو آگے چل کر اردو زبان کی بنیاد بنے۔

2. فارسی، عربی اور ترکی اثرات: مسلم حکمرانوں کی آمد کے بعد، فارسی زبان نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ سرکاری زبان فارسی تھی، لیکن عوام میں بول چال کی زبان کھڑی بولی یا ہندی تھی۔ اس وقت کھڑی بولی میں فارسی، عربی، اور ترکی زبان کے الفاظ شامل ہونا شروع ہوئے۔ اس ملاپ نے اردو کو ایک منفرد شناخت فراہم کی۔

3. لشکری زبان کا کردار: اردو کا ایک اور نام "لشکری زبان” بھی ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ زبان مختلف فوجی دستوں کی مخلوط بولیوں سے وجود میں آئی۔ فوجی دستوں میں مختلف قوموں کے لوگ شامل تھے، اور وہ مختلف بولیوں کو ملا کر آپس میں گفتگو کرتے تھے، جو بعد میں ایک مشترکہ زبان کی شکل اختیار کرتی گئی۔

4. دہلی اور جنوبی ہندوستان کا کردار: دہلی کے ساتھ ساتھ اردو کی ترقی میں جنوبی ہندوستان خصوصاً دکن کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ دکن کے مسلم حکمرانوں نے اردو کو سرکاری اور ادبی زبان کے طور پر فروغ دیا، اور اس کے نتیجے میں اردو ادب نے بھی اپنی جگہ بنائی۔

5. ریختہ کا ظہور: اردو کے ابتدائی دور میں اسے ریختہ بھی کہا جاتا تھا، جس کا مطلب ہے "ملی جلی زبان”۔ اس زمانے میں اردو میں فارسی، عربی، ترکی اور مقامی ہندی کے الفاظ کے ملاپ سے ایک نئی زبان وجود میں آئی، جسے ریختہ کہا گیا۔

نتیجہ:

اردو کی جڑیں شمالی ہندوستان کی کھڑی بولی میں پیوست ہیں، لیکن اس کے ارتقاء میں فارسی، عربی، ترکی اور دیگر زبانوں کے الفاظ اور ثقافتوں کا بڑا دخل ہے۔ یہ ایک ایسی زبان بنی جس نے مختلف تہذیبوں اور زبانوں کو اپنے اندر سمو لیا، اور اس نے برصغیر کی تہذیبی اور ادبی زندگی میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔

 زبان:

ایک وسیع نظام ہے جو انسانی اظہار و ابلاغ کا ذریعہ ہے، اور اس میں قواعد، صوتیات، الفاظ، اور معنی کا ایک منظم ڈھانچہ شامل ہوتا ہے۔ زبان تحریری اور زبانی دونوں صورتوں میں ہو سکتی ہے، اور یہ ایک پوری قوم یا معاشرتی گروہ کی مشترکہ شناخت اور ابلاغ کا اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ مثلاً اردو، عربی، انگریزی، چینی وغیرہ۔

بولی:

 (یا "لہجہ”) زبان کی ایک مقامی یا علاقائی قسم ہے، جو کسی خاص علاقے یا گروہ کے لوگ بولتے ہیں۔ بولی زبان کے اندر موجود مختلف صوتی اور قواعدی اختلافات کو ظاہر کرتی ہے، لیکن اسے سمجھنے کے قابل وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو اصل زبان بولتے ہیں۔ بولی عام طور پر ایک ہی زبان کے اندر مختلف ہوتی ہے، جیسے اردو کی مختلف بولیاں ہیں: لاہوری، کراچی کی، یا پٹھانی اردو وغیرہ۔

فرق:

1. زبان: ایک مکمل نظام ہوتا ہے جو قواعد اور ساخت کے لحاظ سے منظم ہوتا ہے، جبکہ

2. بولی: ایک خاص زبان کے مختلف لہجوں یا ورائٹیوں میں سے ایک ہوتی ہے۔

2. زبان کو زیادہ وسیع اور معیاری سمجھا جاتا ہے، جبکہ بولی کو عام طور پر مقامی یا غیر رسمی سمجھا جاتا ہے۔

3. زبان کی سرکاری یا ادبی حیثیت ہوتی ہے، جبکہ بولی عام

شکریہ اچھا موقع فراہم۔کیا کتابیں بسا اوقات ہمارے کورس سے متعلق بھی مل۔جاتی ہیں آپ کے توسط سے

زبان اصل میں ہماری ساخت کا وہ حصہ ہے جس سے ہم بولتے ہیں اپنی آبائی مخصوص زبان  اور دیگر زبانیں بھی۔۔۔۔یہ رابطے کا باہم۔ذریعہ ہے

زبان کے ذریعے سے ہم اپنی بات سوچ کو دوسرے تک پہنچاتے ہیں۔ہمارے جذبات احساسات اور خیالات کی ترجمانی زبان کے ذریعے سے ممکن ہوتی ہے

*زبان کی تعریف*

*زبان* ایک نظام ہے جو لوگوں کے درمیان خیالات، احساسات، اور معلومات کی ترسیل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک خاص علامتوں کا مجموعہ ہے جو الفاظ، جملوں، اور قواعد کی مدد سے تشکیل پاتا ہے۔

*زبان کی اقسام*

1. *بولی جانے والی زبانیں*: یہ وہ زبانیں ہیں جو گفتگو کے ذریعے منتقل کی جاتی ہیں، جیسے اردو، انگریزی، ہندی وغیرہ۔

2. *لکھائی جانے والی زبانیں*: یہ زبانیں تحریری شکل میں موجود ہوتی ہیں، جیسے کہ کتابیں، مقالات، اور مضامین۔

3. *اشاری زبانیں*: یہ زبانیں جسمانی حرکات یا اشاروں کے ذریعے بات چیت کرتی ہیں، جیسے کہ اشاروں کی زبان۔

*زبان کا مقصد*

زبان کا بنیادی مقصد *رابطہ* ہے۔ یہ انسانوں کو آپس میں جڑنے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اور معلومات کا اشتراک کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ زبان کی مدد سے ہم اپنی ثقافت، تاریخ، اور تجربات کو بھی منتقل کر سکتے ہیں۔

بولی تو مختلف زبانوں کے بولنے اور الفاظ کے مخصوص استعمال کا نام ہے

زبان اللہ تعالٰی کی بیش بہا نعمت ہے زبان کی بدولت انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے یعنی وہ  زبان (بھاشا) کا استعمال کرتا ہے۔قران مجید میں ارشاد ہے

"اور ہم نے آدم علیہم السلام کو چیزوں کے نام سکھائے ۔”

زبان کثیر آبادی اور بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے جبکہ بولی مقامی ہوتی ہے جو ایک چھوٹےعلاقے تک محدود ہوتی ہے۔ زبان معیاری اور اعلیٰ ہوتی جو ادب ، صحافت،حکومتی اور دیگر دفتروں اور عدلیہ وغیرہ میں استعمال ہوتی ہے اور بولی روزمرہ گفتگوکے لئے استعمال ہوتی ہے

زبان میں تحریری ادب موجود ہوتا ہے بولی صرف بولنے کی حد تک اور اکثر اس کے حروف تہجی بھی نہیں ہوتے ہیں جبکہ زبان مختلف اصول وضوابط کی حامل ہوتی ہے

زبان کی مثالیں: اردو ،پشتو ،سندھی، بلوچی وغیرہ۔

بولی کی مثالیں: کھڑی بولی،ہریانوی وغیرہ بولیاں ہیں ۔

بہت شکریہ سوال: ٭زبان اور بولی میں فرق٭ جواب: علاقائی سطح پر استعمال ہونے والی زبان کو بالی کہتے ہیں بولی کے حروف تہجی نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کا کوئی گرائمر ہوتا ہے ۔ بولی کو صدیوں بعد جاکر کہیں زبان کا درجہ ملتا ہے زبام حروف تہجی پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر زبان کا ایک خاص گرائمر ہوتا ہے اور ایک زبان میں بہت سی زبانوں کے الفاظ شامل بھی ہو سکتے ہیں

 *بولی*

انسان کے منہ سے جو آواز نکلے اور اسے تحریری شکل میں نہ  ڈھالا جا سکے اسے بولی کہتے ہیں!

*زبان*

 اسے کہتے ہیں جس کے ذریعہ انسان اپنے جذبات و احساسات اور اپنے خیالات کو ظاہر کرتا ہے, خواہ وہ تقریری شکل میں ہو یا تحریری شکل میں یا اشارہ کے ذریعہ

زبان وسیلہ ترسیل ہے انسان اپنے مافی الضمیر کی دوسروں پر وضاحت کیلئے زبان کا استعمال کرتا ہے ۔

جبکہ بولی موروثی نہیں ہوتی۔یہ ماحول کی دین ہوتی ہے بولیوں کی تخلیق نہیں کی جاتی یہ بدلتی رہتی ہے۔

 زبان کل ہے اور بولی جز ہے۔بولی جب کسی مخصوص علاقے سے آگے بڑھ کر وسیع پیمانے پر پھیل جائے تو اسے زبان کہتے ہیں۔یہ کہنا کہ بولی میں ادب نہیں ہوتا۔۔۔مکمل درست نہیں ہے۔کیوں کہ بولی میں سینہ بہ سینہ اشعار،لوک کہانیاں،ضرب الامثال چلتی رہتی ہیں۔زبان کی صورت،جب کوئی بولی اختیار کرتی ہے تو اس کے قواعد،ادب سب کچھ تحریری صورت میں آجاتا ہے۔

 کوئی بھی آواز جسے تحریر نہ کیا جائے بولی کہلائی جاتی ہے۔

زبان وسیع اور خاص طور پر تحریری شکل میں موجود ہوتی ہے۔

زبان کے اغاز کے بارے میں نظریات کیا ہے

بولی بول چال کی زبان ہوتی ہے اسے تحریر  نہیں کیا  جاتا  جبکہ زبان میں  ادب تخلیق کیا  جا تا ہے زبان  خیالات  کا ذریعہ  اظہار  ہے

 *زبان اور بولی میں فرق*

*زبان (Language)* ایک وسیع تر نظام ہے جو کسی خاص قوم، ملک، یا علاقے کے افراد استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک مکمل قواعدی نظام کے تحت ہوتی ہے اور لکھنے، پڑھنے، اور بات چیت کرنے کے لیے رسمی طور پر استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اردو، انگریزی، عربی، اور چینی زبانیں ہیں۔

*بولی (Dialect)* کسی خاص زبان کا ایک ذیلی ورژن ہے جو مخصوص علاقے یا گروہ کے افراد کے درمیان بولا جاتا ہے۔ بولی میں زبان کی اصل قواعد اور الفاظ میں تھوڑے بہت فرق ہو سکتے ہیں، لیکن وہ ایک ہی زبان کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، اردو زبان میں مختلف علاقوں کی بولیاں جیسے سرائیکی، پنجابی اردو، یا لکھنوی اردو شامل ہیں۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ زبان ایک بڑا نظام ہے، جبکہ بولی اس زبان کے اندر مختلف علاقائی یا گروہی ورژن ہیں۔

اردو زبان بولی ہی کے خمیر سےتیار ہوئ ہے کیوں کہ جب بولی نے ہی نے(کھڑی بولی) اپنے پیر پسا رے تو اردو زبان ادب کا وجود ہوا۔

 زبان اور بولی میں فرق ایک اہم لسانی موضوع ہے جو زبان کے تنوع اور ارتقا کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

زبان ایک وسیع اور منظم نظام ہے جس کے ذریعے لوگ اپنے خیالات، احساسات اور معلومات کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ زبان میں مخصوص قواعد، اصول اور الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے جو بولنے، لکھنے اور سمجھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ یہ کسی قوم یا خطے کی شناخت کی بنیاد بنتی ہے اور معاشرتی و علمی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اردو، انگریزی، عربی اور پنجابی زبانیں ہیں جو مختلف خطوں میں باقاعدہ طور پر استعمال ہوتی ہیں۔

بولی ایک زبان کی چھوٹی شکل ہوتی ہے جو کسی خاص علاقے، طبقے یا گروہ کے افراد کے درمیان استعمال ہوتی ہے۔ بولی میں زبان کی طرح اصول نہیں ہوتے بلکہ یہ زیادہ تر غیر رسمی اور علاقائی ہوتی ہے۔ ایک ہی زبان کے اندر مختلف بولیاں ہو سکتی ہیں، جیسے اردو زبان میں کراچی کی اردو، لاہوری اردو، اور پشاوری اردو مختلف انداز اور لہجے میں بولی جاتی ہیں۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ زبان ایک مکمل اور جامع نظام ہے، جبکہ بولی اس زبان کی ایک علاقائی یا مخصوص شکل ہے جو لوگوں کے روزمرہ کے رابطوں میں استعمال ہوتی ہے۔

زبان اور بولی کے فرق کو ایک عمدہ مثال کے ذریعے یوں سمجھا جا سکتا ہے:

زبان: اردو کو ایک مکمل زبان مانا جاتا ہے، جو پاکستان اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس میں الفاظ، جملے بنانے کے اصول اور گرامر کا ایک منظم ڈھانچہ موجود ہے جو لکھنے اور بولنے میں مدد دیتا ہے۔ اردو زبان کو تعلیمی اداروں، سرکاری دفتروں اور عدالتی نظام میں باقاعدہ طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

بولی: پنجابی ایک زبان ہے جو مختلف علاقوں میں مختلف بولیوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، پنجاب کے جنوبی علاقوں میں سرائیکی بولی جاتی ہے جبکہ مرکزی پنجاب میں ماجھی بولی عام ہے۔ سرائیکی اور ماجھی دونوں پنجابی زبان کی بولیاں ہیں، لیکن ان کا لہجہ، الفاظ کا استعمال اور تلفظ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح، سندھی زبان میں بھی مختلف بولیاں پائی جاتی ہیں جیسے تھری اور لاڑی۔

یہ فرق یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ اگر ایک شخص سرائیکی بولی بولتا ہے، تو وہ پنجابی زبان کے دائرے میں رہ کر بات کر رہا ہے، لیکن اس کی بولی خاص اس کے علاقے کی ہوگی جو پنجابی کی مختلف بولیوں میں سے ایک ہے۔

 قرآن مجید کی روشنی میں

 *بولی*

محض رابطے اور پیغام رسانی کی عمومی گفتگو بولی کہلائی یہاں تک کہ قرآن مجید میں پرندوں کی بولی سکھائے جانے کا ذکر ہے جسے عربی میں *منطق الطیر* یعنی پرندوں کی بولی سے تعبیر کیا گیا ہے

سورہ النمل آیت نمبر 16

وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ وَ اُوۡتِیۡنَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ؕ اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡفَضۡلُ  الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۶﴾

ترجمہ:

اور سلیمان کو داؤد کی وراثت ملی (٧) اور انہوں نے کہا : اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے، (٨) اور ہمیں ہر (ضرورت کی) چیز عطا کی گئی ہے۔ یقینا یہ (اللہ تعالیٰ کا) کھلا ہوا فضل ہے۔

جب کہ زبان کے لیے لسان کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن مجید کے بارے فرمایا گیا

سورہ الشعراء آیت نمبر 195

بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۹۵﴾ؕ

ترجمہ:

ایسی عربی زبان میں اترا ہے جو پیغام کو واضح کردینے والی ہے۔

بولی اور زبان میں جتنے فرق بیان کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں بولی سے مراد عام بول چال اور زبان اس کی منظم و مہذب صورت ہے!!!

 زبان کثیر آبادی اور بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے جبکہ بولی مقامی ہوتی ہے جو ایک چھوٹے علاقے تک محدود ہوتی ہے

زبان اعلی اور معیاری ہوتی ہے جو حکومتی سطح ادب کے نصاب عدلیہ نظام وغیرہ میں استمعال کی جاتی ہے بولی کو روزمرہ گفتگو میں استمعال کرتے ہیں

مثال کے طور پر اردو ہماری قومی زبان ہے

سرائیکی پہلے علاقوں میں بولی کی حثیت رکھتی تھی مگر اب اس کو زبان کی حثیت حاصل ہوگی ہے

اردو ادب urdu adab میں زبان اور بولی میں ایک فرق پایا جاتا ہے مثلا زبان اصولوں، ضابطوں، قواعد، صوتیات، لغت، مخارج، تلفظ کی بناوٹ، فقروں ،جملوں کی ترتیب، رسم الخط کا نام ہے۔ جبکہ بولی علاقائی اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ بولی مقامی اور گھریلو زبان ہوتی ہے۔بولی پر علاقائی تلفظ، لہجے، اور عوامی بول چال کے علاقائی اثرات غالب ہوتے ہیں۔ زبان کا علاقہ لامحدود ہوتا ہے جبکہ بولی علاقائی حدود تک محدود رہتی ہے۔زبان ادب کی ترجمان ہوتی ہے جبکہ بولی عوام الناس کی ترجمانی کرتی ہے۔ زبان کی مثالیں۔۔۔اردو، ہندی، مراٹھی، وغیرہ ہیں بولی کی مثالیں۔۔۔اودھی، بندیلی، قنوجی، وغیرہ ہیں۔

ہر بڑی زبان کی بولیاں ہوتی ہیں۔جب کوئی زبان اپنے مرکز سے ہٹ کر دور دراز علاقوں میں بولی جاتی ہے، جب کوئی زبان دوسرے لسانی ماحول میں بولی جاتی ہے، جب کوئی زبان سماج کے مختلف طبقوں میں بولی جاتی ہے تو اس کی حسب ترتیب علاقائی، لسانی، اور سماجی بولیاں جنم لیتی ہیں۔۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس طرح بھی کہ سکتے ہیں کہ ایک زبان کے علاقے میں کئی بولیاں بولی جاسکتی ہیں، لیکن ایک بولی والے علاقے میں کئی زبانیں نہیں ہو، سکتی۔ وسیع تر معنوں میں یہ کہ سکتے ہیں کہ زبان سے ادبی تخلیق کا کام لیا جاسکتا ہے۔نیز تعلیمی، اتظامی، عدالتی، سیاسی، اور تہزیبی شعبوں میں زبان ہی مروج ہوتی ہے۔لیکن بولی میں یہ تاب و تواں نہیں ہوتی۔ بعض ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ زبان اور بولی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔بولی ہی ترقی کر کے زبان کا مرتبہ حاصل کر لیتی ہے۔ امریکی ماہرِ لسانیات Whitey کا نظریہ ہے کہ زبان اور بولیوں کا تعلق ایک دائرے کی شکل میں رہتا ہے۔زبان کچھ عرصے بعد بولیوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔یہ بولیاں پھر زبان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔اس طرح یہ چکر برابر چلتا رہتا ہے۔لیب نیز(Libniz) نے اٹھارویں صدی کے شروع میں ہی یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ مختلف زبانیں الگ الگ بولیوں کی شکل میں آگے بڑھتی ہیں۔

منقول سوال

زبان کیا ہے؟

جواب

زبان ایک منظم نظام ہے جس کے ذریعے لوگ خیالات، احساسات، اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ مختلف شکلوں میں موجود ہو سکتی ہے، جیسے بولی، تحریر، یا اشارے۔ زبان کے ذریعے انسانی ثقافت، روایات، اور علم منتقل ہوتے ہیں.

سوال

زبان اور بولی میں فرق

جواب

زبان اور بولی میں فرق یہ ہے کہ زبان ایک وسیع نظام ہے جو قواعد، الفاظ، اور اظہار کے مختلف طریقوں پر مشتمل ہوتی ہے، جبکہ بولی کسی خاص زبان کی مخصوص شکل یا لہجہ ہے۔ مثلاً، اردو زبان میں مختلف بولیاں جیسے دہلی کی اردو، لکھنؤ کی اردو وغیرہ موجود ہیں، جو زبان کے مختلف لہجوں اور تلفظات کی نمائندگی کرتی ہیں۔

موضوع : زُبان کیا ہے ؟ زُبان اور بولی میں فرق کیا ہے ؟؟

زُبان چونکہ مختلف بولیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ بولیاں مختلف علاقوں کی مختلف ہوتی ہے۔ لیکن زُبان جو بولیوں پر مشتمل ہوتا ہے اس میں ادب کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ہمارے بلوچستان میں ہر 40 میل کے بعد بولیاں بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن جب ہم لکھنا یا پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اس میں ہم اپنا مادری زبان استعمال کرتے ہیں جو اسٹنڈرائزڈ ہے جس میں لٹریچر کا خاصا رول ہے۔

زبان اور بولی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ:

1. **زبان**: زبان ایک منظم اور وسیع نظام ہوتا ہے جس کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ زبان میں گرامر، الفاظ، جملے، اور اصول شامل ہوتے ہیں جو ایک مخصوص قوم یا علاقے کے لوگوں میں عام ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اردو، انگریزی، اور چینی زبانیں ہیں۔

2. **بولی**: بولی کسی زبان کی علاقائی یا مقامی شکل ہوتی ہے۔ بولی میں مختلف الفاظ، تلفظ، اور گرامر کے انداز ہوسکتے ہیں، لیکن یہ زبان کی ہی ایک شکل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں اردو کی مختلف بولیاں ہیں، جیسے پنجابی اردو یا پٹھانی اردو۔

بولی عام طور پر زبان کے اندر ایک محدود اور مقامی اختلاف کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ زبان ایک وسیع تر نظام ہے جس میں مختلف بولیاں شامل ہوسکتی ہیں۔

زبان اور بولی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زبان ایک منظم اور باقاعدہ نظام ہوتا ہے جو وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اور جسے عام طور پر لکھا بھی جاتا ہے، جبکہ بولی زبان کی ایک غیر رسمی شکل ہوتی ہے جو مخصوص علاقوں یا گروہوں میں بولی جاتی ہے۔

زبان کے اپنے اصول، گرامر اور لفظیات ہوتے ہیں جو زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں، جبکہ بولی مقامی یا علاقائی ہوتی ہے اور اس میں اختلافات ہوسکتے ہیں، جیسے تلفظ، الفاظ یا جملے کا استعمال۔

بولی عموماً کسی بڑی زبان کی ذیلی شکل ہوتی ہے، لیکن زبان ایک مکمل اور خودمختار نظام ہوتا ہے۔

زبان اور بولی میں یہ فرق بھی ہو سکتا ہے کہ سب لوگ ایک ہی انداز میں بات نہیں کرسکتے مختلف علاقے کے لوگ مختلف انداز میں بولتے ہیں اس سے بولی سمجھی جاسکتی زبان وہ واحد آلہ ہے جس کی مدد سے ہم اپنے علمی تجربات اور معلومات ایک دوسرے کو منتقل کرسکتے ہیں ۔

 بو لی زبان کی ایک ایسی فطر ی شکل ہے جو علاقاتی،لسانی، سماجی ،شخصیاور پیشہ ورانہ اثرات کا نتیجہ ہے ۔

زبان ایک وسیع علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے

بولی ایک مخصوص علاقے میں بولی جاتی ہے

زبان ہمارے احساسات ،جذبات و خیالات كو فنی خوبیوں کے ساتھ پیش کرنا زبان کہلاتا ہے

*زبان کا دائرہ وسیع اور بولی کا دائرہ محدود ہے

*زبان کے بولنے والوں کی تعداد دور تک پہلی رہتی ہے جب کے بولی کم لوگوں کی زبان کو کہہ سکتے ہیں

زبا ن سے ادب تخیلق کیا جا سکتا ہے جبکہ بولی سے ادب تخیلق نہیں کیا جا سکتا ۔

زبا ن کا دائراہ کار محدود نہیں ہوتا جبکہ بولی کا دئراہ محدود ہوتا ہے .اگر زبان کو سائنسی نظریہ سے دیکھیں تو قدیم انسان دوسروں کو خطرے سے خبردار کرنے کے لیے مختلف آوازیں نکالتا تھا۔۔۔۔۔۔ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کے رابطے کے طریقہ میں بھی ترقی ہوئی اور پھر زبان کی ابتدائی صورت وجود میں آئی۔۔۔۔

اس بات پر تنقید کی جاسکتی ہے

زبان بولی کی ترقی یافتہ صورت ہوتی ہے اور زیادہ معیاری ہوتی ہے

بولی غیر ترقی یافتہ اور غیر معیاری ئ ہے

.2

زبان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور یہ ملکی سرحدوں سے نکل کر بھی  بولی  جاتی ہے

بولی محدود علاقے میں بولی جاتی ہے

 زبان بولیوں ہی سے توانائی حاصل کرتی ہے

بولی زبان کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے

زبان مختلف دفاتر وغیرہ میں بولی جاتی ہے جبکہ بولی ایک علاقے تک اور وہاں کے لوگوں تک محدود ہوتی ہیں   جیسا کہ انگلش جو ایک بڑی زبان ہے اور پاکستان کی دفتری زبان ہے

یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بولی بھی ترقی کرکے ایک زبان کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔۔۔۔

اس پر تنقید کی جاسکتی ہے دراصل یہ ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ بولی بتدریج ارتقا کے مراحل طے کرتے ہوئے بالاخر ایک زبان بننے پر منتج ہوتی ہے اور پھر دوبارہ اس زبان کے بولیوں میں تبدیل ہونے اور بٹنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ پھر ان بولیوں میں سے جس بولی میں زیادہ جان ہوتی ہے اور جو زیادہ بولی جاتی ہے اس کے قواعد و ضوابط ترتیب دیے جاتے ہیں اور یہ بولی کے قواعد و ضوابت ترتیب دیے جائیں اور ان کو باقاعدہ لکھ لیا جائے وہ پھر ایک نئی زبان کے روپ میں سامنے آ جاتی ہے

 یہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے کہ ایک زبان بیک وقت زبان کے طور پر بھی بولی جا رہی ہوتی ہے لکھی جا رہی ہوتی ہے قواعد و ضوابط ترتیب دیے جا رہے ہوتے ہیں اس میں ارتقا کے مراحل جاری ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف چھوٹے چھوٹے علاقوں میں اس کے کچھ حصے بولیوں کی شکل بھی اختیار کر رہے ہوتے ہیں۔

 زبا ن میں لوگ خود سے کو ئی الفاظ شامل نہیں کر سکتے مگر بولی میں خود سے الفاظ شامل کیے جا سکتے ہیں ۔

زبان کو بہت کم لوگوں آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں مگر بولی چوں کہ بچپن سے سب بولتے ہیں اسی لیے وہ سب کی زباں پر با آسانی آجاتی ہے ۔

 ایک زبان کو  وجود میں  آنے کےلیے صدیاں لگ جاتی ہیں کیونکہ ایک زبان کئی بولیوں سے تشکیل پاتی ہے اور بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتی ہے اور یہ مختلف علاقوں سے مل کر وجود میں آتی ہے

اس کی مثال اردو زبان ہے جس کو پہلے کئی نام دیے گئے اور انھوں مختلف علاقوں میں مختلف نام حاصلِ کیے ان میں دکن میں دکنی اور گجرات میں گجری وغیرہ شامل ہیں

کیا آپ لوگ بتا سکتے کہ اس وقت کس کس شہر یا کالج میں بہ طور اردو استاد اپنے فراٸض منصبی نبھا رہے ?

 زبان میں ایک ترتیب اور گرامر کو مد نظر رکھا جاتا ہے

جبکہ ولی میں کوئی شرط کی  قید نہیں ہوتی ہے

 زبان انسانی خیالات ، احساسات کی پیدا کی ہوئی ان تمام  عضوعی اور جسمانی حرکتوں اور اشاروں کا نام ہے

 معذرت کے ساتھ، زبان میں بھی الفاظ شامل کیے جا سکتے ہیں۔ قواعد و ضوابط ترتیب ہی اس لیے دیے جاتے ہیں کہ جو بھی نئے الفاظ سامنے آئیں ان کو ایک معیار پر پرکھ کر زبان کا حصہ بنایا جائے یا رد کر دیا جائے

زبان ایک وسیع علاقے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ بولی ایک مخصوص علاقے میں بولی جاتی ہے زبان کا دارومدار بولی پر ہوتا ہے

اور بولیوں ہی سے زبان تشکیل پاتی ہ  بولی اور زبان دونو ں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ دونوں انسان کی تہزیب معاشرت کو ظاہر کرتی ہے۔

ریسرچ اسکالر، کشمیر یونی ورسٹی۔

لفظ “تحقیق” عربی زبان کا  مصدر ہے  جس کا مادہ ‘حقّق، یُحَقّقُ،  تَحقیقاً سے  ماخوذ ہے  جو باطل کی ضد ہے۔حق کا مطلب ْثابت کرنا،  ثبوت فراہم کرناہے۔

تحقیق کا کام حال کو بہتر بنانا،  مستقبل کو سنوارنا،  اور ماضی کی تاریکیوں کو روشنی عطا کرنا ہے۔تحقیق کا ایک اہم کام گمشدہ دفینوں کو دریافت کرنا اور ماضی  کی تاریکیوں کو دور کرکے  اسے  روشنی عطا کرنا ہے۔بقول ِ سید عبداللہ:

“تحقیق کے  لغوی معنی کسی شے  کی حقیقت کا اثبات ہے۔اصطلاحاً یہ ایک ایسے  طرز مطالعہ کا نام ہے  جس میں موجود مواد کے  صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔تاریخی تحقیق میں کسی امر واقعہ کے  وقوع کے  امکان و انکار کی چھان بین مد نظر ہوتی ہے۔”)1(

تحقیق ماضی کی گمشدہ کڑیاں دریافت کرتی ہے  اور تاریخی تسلسل کا فریضہ انجام دیتی ہے  اور ادب کو اس کے  ارتقا کی صورت میں مربوط کرتی ہے۔تحقیق موجود مواد کو مرتب  کرتی ہے، اس کا تجزیہ کرتی ہے،  اس پر تنقید کرتی ہے  اور پھر اس سے  ہونے  والے  نتائج سے  آگاہ کرتی ہے۔مالک رام ادبی تحقیق کے  حوالے  سے  رقمطراز ہیں  :

“تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا مادہ  ‘ح’۔ق۔ق’ جس کے  معنی ہیں کھرے  اور کھوٹے  کی چھان بین یا بات کی تصدیق کرنا۔دوسرے  الفاظ میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے  کہ ہم اپنے  علم و ادب میں کھرے  کو کھوٹے  سے،  مغز کو چھلکے  سے،  حق کو باطل سے  الگ کریں۔ انگریزی لفظ” ریسرچ “کے  بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں۔ “(2)

اردو میں خالص ادبی تحقیق کا آغازبیسوی صدی کے  اوائل میں ہوتا ہے۔اس سلسلے  میں مولوی عبدالحق،  حافظ محمود شیروانی،  قاضی عبدالودود،  امتیاز علی عرشی،  وغیرہ بزرگوں نے  اپنی زندگی کا بڑا حصہ اردو زبان و ادب میں صرف کیا اور اردو تحقیق کا معیار بلند کیا۔

بیسویں صدی میں تحقیقی روایت میں توسیع کرنے  والے  ایک اہم بزرگ مولوی عبدالحق ہیں۔ مولوی عبدالحق کو یہ اہمیت حاصل ہے  کہ انہوں نے  تحقیق ِ ادب کو ایک قومی نصب العین کی طرح قبول کیا اور اسے  عمر بھر جاری رکھا۔قدیم دکنی مخطوطوں کی تلاش وصحت ان کے  بنیادی کاموں میں سے  ہیں۔ دکن کے  غیر دریافت ادب کو منظر عام پر لاکر انہوں نے  معلوم ادبی تاریخ کی دنیا کی کایا پلٹ دی۔(3) نو دریافت کتابوں میں ان کے  مبسوط مقدمے ،  حاشیے  اور صحتِ متن سے  مستقبل کی تنقید کی راہ ہموار ہوئی۔”معراج العاشقین”،  “سب رس”،  “قطب مشتری”اور “علی نامہ” وغیرہ اسی سلسلے  کی کتابیں ہیں۔ ان کا مختصر وقیع مقالہ ” اردو کی نشونما میں علمائے  کرام کا کام” بنیادی  مأٔخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اردو میں تحقیق کی باضابطہ ابتدا ء حافظ محمود شیرانی سے  ہوتی ہے۔ وہ پہلے  محقق ہیں جنہوں نے  تحقیق کے  اصول پائیدار بنیادوں پر قائم کیے  اور جدید مغربی اصولوں کو رواج دیا۔انہوں نے  حوالے  درج کرنے  میں ذمہ داری سے  کام لیا اور مختلف مأٔخذ اور ذرائع سے  اخذ ہونے  والی معلومات پر جرح و تعدیل اور احتساب کی صحت مند روایت قائم کی۔ساتھ ہی منطقی اصولوں پر مبنی استدلال اور مغالطوں سے  گریز تحقیق کار کے  لیے ضروری ٹھہرایا۔

“پنجاب میں اردو”،  “تنقید آب حیات”، “تنقید شعرالعجم”  اور ” پرتھوی راج رسوا” جیسی کتابوں کے  علاوہ بیشمار مقالات میں ان کی تحقیقی ژرف نگاہی اور بصیرت کی اعلیٰ ترین مثالیں موجود ہیں۔ داخلی اور خارجی شہادتوں کی یکساں اہمیت دینے  والے  اس اہم محقق کو بجاطور پر تحقیق و تدوین کو معلم اول شمار کرکے  شائع کئے۔

آزادی سے  پہلے  اردو کی اس تحقیقی روایت کو درجہ بالا بزرگوں کے  علاوہ  بعض دیگر علمائے  ادب و تحقیق نے  بھی تقویت پہنچائی اور اپنے  تحقیقی کا رناموں سے  اس کی روایت کو مستحکم کیا۔محی الدین قادری زور، مولوی محمد شفیع،  برج موہن دتاتر کیفی،  شیخ چاند حسن،  حامد حسن قادری،  مولانا امتیاز علی عرشی،  شیخ محمد اکرام،  نصیرالدین ہاشمی،  مالک رام اور مسعود حسین خان رضوی ادیب وغیرہ چند ایسے  ہی نام ہیں جنہوں نے  اپنے  اپنے  دائرہ کار میں تحقیق کی ذمہ داری نبھاتے  ہوئے  زبان  وادب کے  بے  شمار مخفی گوشوں کے  بے  نقاب کیا اور اردو تحقیق کی  ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔ان علمائے  ادب  کی تحقیقات کا اندازہ اس بات سے  لگایا جاسکتا ہے  ہے  کہ آزادی سے  قبل کی ربع صدی کو ادبی تحقیق کے  ارتقاء میں زرین دور شمار کیا گیا۔اس عہد میں اردو ادب کی تاریخ میں بعض بنیادی اضافے  ہوئے  اورہمارے  چوٹی کے  محققین نے  اردو تحقیق کو اعتبار بخشا۔ ان میں سے  اکثر محققین کی تحقیق کا دائرہ کار آزادی  کے  بعد تک جاری رہا۔

ڈاکٹر محی الدین قادری زور| نے  ترتیب متن اور مخطوطات شناسی کے  فن کو خاص رواج دیا اور قلمی کتابوں کی فہرست سازی سے  زیادہ مخطوطات کی توضیحات پر توجہ دی۔مخطوطات شناسی ایک مشکل اور دقت طلب فن ہے۔ترقیمے  پڑھنا،  داخلی اور خارجی شواہد سے  نتائج اخذ کرنا اور حوالوں سے  تصنیف اور صاحب تصنیف کے  نام اور عہد کی باذیافت ایسا عمل ہے  جس میں محققانہ ذہن کی کارفرمائی ہوتی ہے۔بقول ِ آفتاب احمد آفاقی :

“زور ؔنے  مغربی ادب و تنقید اور اصول تحقیق سے  استفادہ کیا ہے  اور اردو میں قدیم مخطوطات کی ترتیب و تدوین اور ادباء و شعراء کے  حالات کی بازیافت میں ان اصولوں کو برتا ہے۔”(4)

ڈاکٹر زور کی کتابوں میں  ” اردو شہ پارے ” اور “کلیات قلی کتب شاہ “کی ترتیب بڑی اہم ہیں۔

اردو تحقیق کی دنیا میں قاضی عبدالودود  سب سے  زیادہ محتاط محقق تسلیم کئے  جاتے  ہیں اور ان کے  کاموں کو ‘خالص تحقیق’ کے  زمرے  میں رکھا جاتا ہے بقولِ آفتاب احمد آفاقی :

“واقعہ یہ ہے  کہ اردو تحقیق میں احتیاط پسندی اور مضبوط دلیلوں اور دعوؤں کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنے  کی روش قاضی صاحب کی تحقیق کا وصفِ خاص ہے۔ان اوصاف کی بناپر گیان چند جین انہیں بت شکن محقق اور رشید حسن خان’معلم ثانی’ کہتے  ہیں۔ “(5)

ہر چند کہ قاضی عبدالودو کا بیشتر تحقیقی کام آزادی کے  بعد وجود میں  آیا۔لیکن اپنے  ابتدائی کاموں سے  ہی وہ اردو تحقیق میں اعتبار حاصل کرچکے  تھے۔رسالہ معاصر،  نوائے  ادب اور معیار وغیرہ میں ان کے  متعدد تحقیقی مضامین شائع ہوئے۔یہ درست ہے  کہ تحقیقی مبادیات پر کوئی مستقل کتاب انہوں نے نہیں  لکھی۔لیکن ان کے  مضامین تحقیق کے  رہنما اصول کا درجہ رکھتے  ہیں۔ ان کا ” مثنوی مہاراجہ کلیان سنگھ عاشق” کے  عنوان سے  لکھا ہوا مضمون بلا مبالغہ تحقیق کے  بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔بعد ازاں ایک طویل اور قسط وار تحقیقی مقالہ بہ عنوان”شاہ کمال دیوروی عظیم آبادی” شائع ہوا  جوکئی شماروں پر محیط ہے  اور اپنی تاریخی اور تحقیقی حیثیت کے  اعتبار  سے  بڑا اہم ہے۔

قاضی عبدالودود نے  چار کتابیں ترتیب دیں ان میں تذکرۂ شعرا مصنفہ ابن طوفان،  دیوان جوشش،  قاطع برہان و رسائل متعلقہ اور شہر آشوب قلق شامل ہیں۔ ان  کے مضامین پر مشتمل دو مجموعے  عیارستان اور اشتروسوزن بھی ان کے  تحقیقی کا رنامے  ہیں۔

امتیاز علی عرشی ماہر غالبیات کی حیثیت سے  اردو تحقیق کی دنیا میں معروف ہیں۔ ان کے  کاموں میں  “مکاتیب غالب” ترتیب متن کی عمدہ مثال ہے۔جس میں غالب کے  خطوط کو سائینٹفک انداز میں پوری احتیاط کے  ساتھ مرتب کیا گیا۔امتیاز عرشی نے  واحد یکتا کی دستورالفصاحت” اور شاہ عالم آفتاب کا کلام نادراتِ شاہی” کی ترتیب و تدوین بھی کی ہیں۔ تحقیق متن ایک محقق کی حیثیت سے  ان کا نمایاں مقام ہے۔

تقسیم ہند کے  بعد سے اب تک کے  عرصے  میں اردو تحقیق کی روایت کو ثروت مند بنانے  میں جن محققین نے  اہم کردار ادا کیا ہے  ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ،  داکٹر غلام مصطفیٰ خان،  ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر سہیل بخاری،  ڈاکٹر جمیل جالبی،  رشید حسن خان،  مشفق خواجہ،  ڈاکٹر گیان چند جین،  ڈاکٹر تنویر احمد علوی، ڈاکٹر یوسف حسین خان،  ڈاکٹر مسعود حسین خان،  ڈاکٹر خلیق انجم وغیرہ چند  ایسے  نام ہیں جو اردو تحقیق کی عمارت میں اہم ستونوں کا درجہ رکھتے  ہیں۔  ان کے  تحقیقی کارناموں کا احاطہ اس مختصر تذکرے  میں کسی طرح ممکن نہیں۔

حوالہ جات:

1۔       “تحقیق و تنقید” مشمولہ” اردو میں ادبی تحقیق “جلد اول،  مرتبہ ڈاکٹر سلطانہ بخش، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، 1986ء، ص:29

2۔       “اردو میں تحقیق “مشمولہ “رہبرِ تحقیق” اردو سوسائٹی، لکھنو،  1976ء، ص :55

3۔       انور سدید، ڈاکٹر “اردو ادب کی مختصر تاریخ ” عزیز بک ڈپو، لاہور، (طبع سوم)1998ء، ص:385

4۔       “آزادی سے  قبل اردو تحقیق”، مشمولہ”تحقیق و تدوین”، مرتبہ پرفیسر ابن کنول، کتابی دنیا، ترکمان گیٹ، دہلی، 1955ءص:277

 جب کسی زبان میں نئے الفاظ شامل نہ ہو رہے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زبان وسعت اختیار نہیں کر رہی اور جمود کا شکار ہو گئی ہے۔ اور جب کوئی زبان جمود کا شکار ہو جائے تو پھر واپسی وہ بولیوں میں بٹنا شروع ہو جاتی ہے اور بالاخر وہ زبان ختم اور نئی بولیوں میں سے نئی زبانیں جنم لینے لگتی ہیں

جذبات و احساسات اور کیفیات و مطالبات کے اظہار کے لیے، رواج کی حدود تک پہنچے ہوئے بامعنی الفاظ کو بامعنی طور پر استعمال کرنے کا نام "زبان” ہے۔

 زبان کی ایک گرائمر ہوتی ہے زبان ایک بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے جبکہ زبان میں اور الفاظ سمونے کی بھی گنجائش ہوتی ہے

بولی کی اپنی کوئی گرائمر نہیں ہوتی یہ چھوٹے علاقوں میں میں جاتی ہے اس میں اور الفاظ سمونے کی گنجائش نہیں ہوتیزبان بولی کی ترقی یافتہ شکل ہے جب کہ بولی زبان کی بگڑی ہوئی صورت ہے

زبان تغیر پذیر ہوتی ہے اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہتیں ہیں

 زبان ایک نظامِ ابلاغ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، احساسات، اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ لکھائی، بولنے، اور اشاروں کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ زبان کا بنیادی مقصد انسانی تعاملات کو آسان بنانا ہے۔

زبان اور بولی میں بنیادی فرق یہ ہے:

1. **زبان**: یہ ایک معیاری نظام ہے جو ایک خاص قوم یا ثقافت میں استعمال ہوتا ہے، جیسے اردو، انگریزی، عربی وغیرہ۔ زبان کے قواعد، لغت، اور ساخت ہوتی ہیں جو اس کی شناخت کرتی ہیں۔

2. **بولی**: یہ زبان کا ایک مقامی یا علاقائی ورژن ہوتا ہے۔ بولیاں عام طور پر زبان کے بنیادی اصولوں کی پیروی کرتی ہیں لیکن ان میں مخصوص لہجے، الفاظ، اور محاورے شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اردو زبان کی مختلف بولیاں جیسے دکنی، ہندی اور پنجابیدا ہیں۔

اس طرح، زبان اور بولی ایک ہی نظام کی دو مختلف شکلیں ہیں۔ زبان معیاری ہوتی ہے، جبکہ بولی زیادہ مقامی اور غیر رسمی ہوتی ہے۔

زبان جذبات اور احساسات کی ترسیل کا ذریعہ ہے۔جبکہ بولی سے مراد وہ زبان ہے جو کسی ایک علاقے تک محدود ہو اور جسکے کوئی اصول و ضوابط مقرر نہ ہو ۔

 با معنی الفاظ کا وہ مجموعہ جس کا ہم تقریری، تحریری اور اشاراتی طریقے سے دوسروں سے اظہار کرتے ہیں زبان کہلاتی ہے

 زبان لغت و قواعد اور اصولوں و ضوابط کی پابندی میں جکڑی ہوتی ہے جبکہ بولی ان اصولوں کی گرفت سے آزاد ہوتی ہے

زبان سے نکلے ہوئے الفاظ انسان کو عرش سے فرش تک پہنچا سکتے ہیں.

 زبان انسانی ذہن کے ارتقا کی جدید شکل ہے

بولی کے تنوع کا مقابلہ زبان نہیں کر سکتی کیونکہ یہ زبان کے قواعد کی لچک کو ختم کر دیتی ہے

بولی اس لفظی اظہار کو کہتے ہیں جو صرف عام بول چال کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ جب کسی بولی میں ادب تخلیق ہونا شروع ہو جائے تو اسے زبان کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔یہی بولی اور زبان میں فرق ہے

زبان دو صورتوں میں استعمال ہوتا ہے ایک اعضاء کی صورت میں اور دوسری وہ چیز جس کے ذریعے خیالات،جزبات اور احساسات کا لفظوں کے ذریعے اظہار کرنا زبان کہلاتا ہے ۔

(زبان اور بولی میں فرق)

زبان اور بولی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ زبان میں ادب پایا جاتا ہے یا ادب تخلیق ہوتی ہے جبکہ بولی میں ادب کی تخلیق نہیں ہوتی ہے ۔

زبان کثیر اور بڑے علاقے کے لیے محدود ہوتی ہے جبکہ بولی چھوٹے علاقوں میں سب کی الگ الگ ہوتی ہے

زبان کثیر علاقے میں بولی جاتی ہیں جبکہ بولی مقامی ہوتی ہیں اور زبان کا رسم الخط ہوتا ہے اور بولی کا رسم الخط نہیں ہوتازبان کیا ہے؟

زبان قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہے،جس کے ذریعہ انسان اپنے خیالات ،جذبات،احساسات دوسرے انسانوں کو منتقل کرنا ہے۔

زبان اور بولی میں فرق ؟

زبان انسان کو کسی سے رابطہ کرنے کا طریقہ بتاتی ہے جبکہ بولی سے انسان ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں ۔

 یہاں تمام لوگ اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب لوگ ہیں۔

یہ تمام اصول آپ لوگوں کے لیے ہی بنائے گئے ہیں ۔ براہ کرم آپ سب سے درخواست ہے کہ موضوع تک محدود رہے، لینک شیر کرنے سے پرہیز کریں اور کسی سے کسی قسم مواد کا ڈیمانڈ نہ کریں۔

سنجیدہ رویہ اپنائے اور سنجیدہ لوگوں کو گروپ چھوڑنے پر مجبور نہ کریں۔ ہمارے تمام گرپس دوسروں کے برعکس تعمیری کام کے لیے بنائے گئے۔ ایڈمن ہر دن آپ کے لیے 2 3 گھنٹے محنت کرتا ہے۔ اور  باقاعدہ طور پر تنخواہ لیتا ہے۔

اس لیے بات کو سمجھیں اور فروغ اردو میں  پروفیسر آف اردو کے ساتھ دے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں