چے گویرا کون تھا؟ ایک انقلابی ہیرو یا دہشت گرد؟ مکمل کہانی
موضوعات کی فہرست
اس تصویر کو دیکھیے! دنیا بھر کے نوجوان آج بھی اِس تصویر کے دیوانے ہیں۔ یہ تصویر کیوبا کے مشہورِ زمانہ انقلابی لیڈر چے گویرا کی ہے، جنہیں نوجوان نسل انقلاب کی علامت مانتی ہے، جبکہ امریکہ اور مغرب میں انہیں ایک دہشت گرد اور فاشسٹ سمجھا جاتا ہے۔ آخر چے گویرا کون تھا اور وہ تاریخ کا ایک لازوال کردار کیسے بنا؟ آئیے اس کی مکمل کہانی جانتے ہیں۔
ارنسٹو سے ‘چے’ تک: ایک انقلابی کا ابتدائی سفر
14 جون 1928 کو ارجنٹائن کے شہر روزاریو میں پیدا ہونے والے ارنسٹو گویرا کو بچپن سے ہی دمہ (Asthma) کی بیماری تھی۔ اسی وجہ سے ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ لیکن بیماری ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما میں رکاوٹ نہ بن سکی۔
وہ رگبی اور فٹبال کے بہترین کھلاڑی تھے، روزانہ کئی کلومیٹر سائیکل چلاتے، اور شطرنج کے شوقین تھے۔
پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہونے کے باوجود، ارنسٹو کی اصل دلچسپی کتابوں میں تھی۔ وہ اپنی خاندانی لائبریری میں گھنٹوں گزارتے اور کارل مارکس جیسے کمیونسٹ مفکرین کی تحریروں سے شدید متاثر ہوئے۔
اپنے سفر کے دوران، خاص طور پر جنوبی امریکہ کے غریب علاقوں میں، انہوں نے کسانوں اور مزدوروں کی حالتِ زار دیکھی، جس سے ان کے دل میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت نے جڑ پکڑ لی اور وہ کمیونزم کے نظریے کے قائل ہو گئے۔
کیوبا کا انقلاب اور چے گویرا کا عروج
چے گویرا کی زندگی کا سب سے اہم موڑ تب آیا جب ان کی ملاقات کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ہوئی۔ دونوں پہلی ہی ملاقات میں ایک دوسرے کے نظریات اور شخصیت کے گرویدہ ہو گئے۔
کاسترو نے ارنسٹو کو اپنا بہترین دوست مانتے ہوئے انہیں ‘چے’ کا نام دیا، اور یوں ارجنٹائن کا ارنسٹو گویرا، دنیا کے لیے چے گویرا بن گیا۔
کاسترو اور چے نے مل کر میکسیکو میں کیوبا کے خلاف ایک انقلابی لشکر تیار کیا۔
سانتا کلارا کی فتح: جب چے گویرا نے تاریخ رقم کی
1958 میں، کاسترو اور چے گویرا کی قیادت میں جنگجوؤں نے کیوبا کے شہروں پر حملے شروع کیے۔ 31 دسمبر 1958 کو، چے گویرا کی کمان میں باغیوں نے سانتا کلارا کے اہم شہر پر قبضہ کر لیا، جو کیوبا کے صدر بتستا کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔ اس فتح نے کیوبا پر کمیونزم کا پرچم لہرا دیا اور چے کو ایک عالمی انقلابی ہیرو بنا دیا۔
انقلابی سے حکومتی عہدیدار: چے گویرا کی زندگی میں ٹھہراؤ
انقلاب کے بعد چے گویرا کو کیوبا کی شہریت دے کر خزانے اور انڈسٹری کا وزیر بنا دیا گیا۔ لیکن اہم سرکاری عہدے پر ہونے کے باوجود، انہوں نے کوئی پروٹوکول قبول نہیں کیا۔
وہ عام شہریوں کی طرح بسوں میں سفر کرتے اور مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کرتے۔ یہ سادگی اس بات کا جواب دیتی ہے کہ چے گویرا کون تھا؛ وہ ایک ایسا لیڈر تھا جو عوام کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔
چے گویرا کا دورہِ پاکستان
اس دوران چے گویرا نے دنیا بھر کے دورے کیے۔ وہ 1959 اور 1965 میں دو بار پاکستان بھی آئے اور کراچی میں صدر ایوب خان سے ملاقات کی۔ چونکہ پاکستان اس وقت امریکی کیمپ میں تھا، اس لیے ان دوروں کو زیادہ کوریج نہیں ملی، لیکن یہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔
نظریات کا تصادم اور کاسترو سے دوری
کیوبا میں امریکی سی آئی اے کے حملے (Bay of Pigs Invasion) کے بعد چے گویرا امریکہ سے اس قدر نفرت کرنے لگے کہ انہوں نے سوویت یونین سے امریکہ پر ایٹمی حملے کی درخواست کر ڈالی۔
لیکن جب سوویت یونین نے عالمی جنگ سے بچنے کے لیے اپنے بحری جہاز واپس بلا لیے تو چے نے اسے دنیا بھر کے مزدوروں سے غداری قرار دیا۔
چے نے سوویت یونین سے مایوس ہو کر چین سے تعلقات بڑھائے، جو کاسترو اور سوویت قیادت کو ناگوار گزرا۔ الجزائر میں سوویت یونین پر کھلی تنقید کے بعد جب وہ کیوبا واپس آئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں تمام حکومتی عہدوں سے برطرف کر دیا گیا۔
آخری محاذ: بولیویا میں چے گویرا کا انجام
حکومتی ذمہ داریوں سے مایوس ہو کر چے گویرا ایک بار پھر انقلاب کی آگ جلانے افریقی ملک کانگو پہنچے، لیکن ناکام رہے۔ اس کے بعد انہوں نے بولیویا کا رخ کیا، مگر وہاں بھی مقامی باغیوں نے انہیں اپنا کمانڈر ماننے سے انکار کر دیا۔
اسی دوران بولیویا کی فوج نے امریکی سی آئی اے کی مدد سے انہیں ایک جنگل میں گھیر لیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں وہ زخمی ہوئے اور پکڑے گئے۔
بولیویا کے صدر کے حکم پر، 9 اکتوبر 1967 کو سارجنٹ ماریو ٹیران نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ ان کے آخری الفاظ تھے:
"گولی چلاؤ بزدلو، تم صرف ایک انسان کو مار رہے ہو۔”
موت کے بعد کی زندگی: چے گویرا کیسے ایک علامت بنے؟
چے گویرا کی لاش کو ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا تھا۔ 30 سال بعد، ان کی باقیات دریافت ہوئیں اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کیوبا واپس لائی گئیں، جہاں انہیں سانتا کلارا میں دفن کیا گیا۔
آج بھی کیوبا کے اسکولوں میں انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ کچھ کے لیے وہ ایک ظالم باغی ہیں، لیکن دنیا کی اکثریت کے لیے، خاص کر نوجوانوں کے لیے، چے گویرا ناانصافی کے خلاف بغاوت اور انقلاب کا سب سے بڑا استعارہ ہیں۔ ان کی زندگی اور موت آج بھی اس سوال کو زندہ رکھے ہوئے ہے کہ اصل میں چے گویرا کون تھا۔
کیا اب آپ کو اس سوال کا تسلی بخش جواب مل گیا کہ چے گویرا کون تھا۔ کمینٹ میں بتائیں