میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات

میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات

کچھ اس تحریر کے بارے میں

یہ مضمون میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہے۔ 1800 میں پیدا ہونے والے میر انیس نے اپنی شاعری کے ذریعے خاص طور پر کربلا کے شہداء کی قربانیوں کو بیان کیا۔ انہوں نے مرثیہ کو ایک منفرد انداز میں پیش کیا، جس میں واقعہ نگاری، کردار نگاری، اور مبالغہ آرائی شامل ہیں۔ ان کی شاعری دل کو چھو لینے والی ہے اور آج بھی قارئین کے دلوں میں زندہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میر انیس کی مرثیہ نگاری | pdf

پس منظر

میر انیس سن 1800 کو ہندوستان فیز آباد میں پیدا ہوئے اور 1870 کو وفات پائی 70 برس کی اس عمر میں انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا شاعری کرتے ہوئے انہوں نے آغاز غزل سے کیا مگر جس صنف سخن میں انہوں نے نکتۂ عروج یا شہرت کی بلندیاں حاصل کی وہ مرثیہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میر انیس سوانحی حالات اور شاعری

مرثیہ کی تعریف

مرثیہ نظم کی اس ہیت کو کہا جاتا ہے جس میں مرنے والی کی تعریف اور اچھایہ بیان کر کے دکھ،درد، رنج و علم،غم و اندوہ اور افسوس کا اظہار کیا جائے۔
میر انیس نے خاص طور پر خاندان اہل بیت کی شہداء خصوصا شہدائے کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے رفقائے کار کے حالات و واقعات اس خوبصورتی سے بیان کیے ہیں کہ قارین کے دل میں اتر جاتے ہیں اور پڑھنے والا آنسو بہائے بغیر نہیں رہتا۔

یہ بھی پڑھیں: میر انیس کے مراثی میں نسائی کرداروں کا فنی و تاریخی تناظر مقالہ pdf

میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات

میر انیس کی مرثیہ نگاری کی بہت ساری خصوصیات ہیں مثلا واقعہ نگاری، کردار نگاری، جذبات نگاری، منظر نگاری، زبان و بیان، تشبیہ و استعارہ اور روز مرہ کے محاورات کا استعمال وغیرہ۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر جو میر انیس کی مرثیہ نگاری کی خصوصیت ہے وہ بڑا چڑھا کر پیش کرنا یعنی مبالغہ آرائی ہے میر انیس اپنی اس صلاحیت کے بارے میں خود اپنے ایک شعر میں کچھ یوں فرماتے ہیں،


گلدستۂ معنی کو عجب ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مظموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔
تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ میر انیس اپنی 70 سالہ زندگی میں کبھی کربلا نہیں گئے مگر کربلا کی جس طرح مبالغہ ارائی سے منظر کشی میر انیس نے کی ہے یہ انہی کا خاصہ ہے۔


کربلا ایک گرم ریتیلی زمین اور چھٹیل میدان ہے مگر میر انیس نے کربلا کو خوبصورت لہلہاتے سر سبز چمن لال زار یا باغ کی طرح پیش کیا ہے جہاں پر شبنم اپنے قطروں سے گلاب کے کٹورے بھرتےث ہیں حالانکہ کربلا میں بچہ بچہ بوند بوند کو ترستا تھا اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ پر آخری تین دن پانی بند کر دیا گیا تھا اور بہت سارے بچے پیاس سے بلک رہے تھے ان کی زبانیں باہر نکل آئیں تھیں۔


اگر کربلا سرسبز و شاداب لالزار چمن یا باغ ہوتا تو پھر ان کو پانی حاصل کرنے میں اتنی مشکل تو نہ ہوتی حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف اور صرف مبالغہ آرائی ہے جو میر انیس نے کربلا کے بارے میں کی ہے وہاں تو ریت ہی ریت ہے

پھول کا تو وہاں نام و نشان بھی نہیں مگر پھر بھی میر انیس کہتے ہیں کہ، اک گل فقط نہ کرتے تھے رب العلی کی مدحا
ہر خار کو بھی نوک زباں تھی خدا کی مدحا۔
الغرض یہ میر انیس کی مبالغہ ارائی پر مشتمل مرثیہ نگاری تھی جو کہ اس وقت کی اہم ضرورت تھی اور اس وقت اسی طرح کی شاعری کو پسند کیا جا1870 کو میر اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے مگر ان کی مرسیہ نگاری مدتوں یاد رکھی جائے گی۔

Title in English:

Characteristics of Mir Anees’s Elegy Writing

اظہار تشکر

ہماری واٹس ایپ کمیونٹی کے رکن، جناب نقیب اللہ، کا شکریہ کہ انہوں نے یہ متن دوسروں کے لیے لکھا، اور اردو کے چاہنے والوں کے لیے یہ معلومات فراہم کیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں