ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں | کا تنقیدی جائزہ

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں | کا تنقیدی جائزہ

یہ نظم علامہ محمد اقبال کی مشہور تخلیق "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں” ان کے شعری مجموعہ "بالِ جبریل” سے لی گئی ہے۔ یہ نظم ایک حوصلہ افزا اور فلسفیانہ پیغام دیتی ہے جس میں اقبال نے انسان کو اپنی حدود سے آگے بڑھنے اور نئی دنیاؤں کی تلاش کرنے کی تلقین کی ہے۔ نظم کا مکمل متن درج ذیل ہے:


ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سایۂ گُل، گُزار اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں


تشریح:

یہ نظم علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی اور انسانی عروج کے خواب کی عکاس ہے۔ اقبال انسان کو صرف موجودہ حالات پر قناعت نہ کرنے، بلکہ مسلسل آگے بڑھنے اور ترقی کے نئے امکانات تلاش کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

  1. پہلا شعر:
    اقبال کہتے ہیں کہ انسان کو کائنات میں محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ نئی دنیاؤں اور تجربات کی جستجو جاری رکھنی چاہیے۔
  2. عالمِ رنگ و بو پر قناعت نہ کرنے کا پیغام:
    اقبال دنیا کی ظاہری خوبصورتیوں پر اکتفا کرنے کے بجائے، زندگی کے گہرے رازوں اور نئی حقیقتوں کو دریافت کرنے کی بات کرتے ہیں۔
  3. مشکلوں اور رکاوٹوں سے نہ گھبرانا:
    اگر زندگی میں کوئی ٹھکانہ چھن جائے یا مشکل آئے تو انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ مواقع اور منزلیں بے شمار ہیں۔
  4. شاہین کی علامت:
    اقبال کا "شاہین” ایک آزاد، بلند پرواز اور خودمختار شخصیت کی علامت ہے، جسے فضاؤں کی وسعتوں سے ڈرنے کے بجائے اُنہیں تسخیر کرنا ہے۔
  5. محدود وقت و جگہ سے آگے بڑھنے کا فلسفہ:
    اقبال وقت اور جگہ کے قید میں محدود رہنے کے بجائے، انسان کو اپنے امکانات کو وسعت دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔

اقبال کا یہ کلام انسان میں عزم و حوصلہ پیدا کرتا ہے اور اسے زندگی میں نئی جہتیں تلاش کرنے کی تحریک دیتا ہے۔

اس غزل کی بحر (متقارب (فعولن )مثمن سالم )ہے ۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہے

تقطیع


اس شعر کی اگر تقطیع کی جائے تو یوں ہوگی۔
ستارو فعولن
سیا گے فعولن
جہا او فعولن
ربی ہے فعولن

ابی عش فعولن
قکے ام فعولن
تحا او فعولن
ربی ہے فعولن

*Title :*

"Beyond the Stars, There Are More Worlds: A Critical Review”

Abstract

This critical analysis explores Allama Muhammad Iqbal’s renowned Urdu poem, "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں” ("Beyond the Stars, There Are More Worlds”), from his poetry collection "بالِ جبریل” (Gabriel’s Wing). The poem presents a philosophical and inspirational message, urging individuals to transcend their limitations and explore new horizons. Iqbal’s central theme revolves around the concept of "Khudi” (self-awareness) and human aspiration.Key aspects of the analysis include:1. Iqbal’s philosophy of self-discovery and human progress2. Encouragement to seek beyond existing realities3. Importance of perseverance in the face of adversity4. Symbolism of the falcon (shahin) representing freedom and self empowerment5. Transcending temporal and spatial limitationsThis review provides an in-depth understanding of Iqbal’s vision for human potential and the pursuit of excellence.

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں