موضوعات کی فہرست
اردو افسانے میں تبدیلی اور نیا رجحان (1980 کے بعد)
۱۹۸۰ تک کا سفر کرتے کرتے اردو افسانے کا پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا اور یہ بدلاؤ یقیناً افسانوی ادب کے لیے نہایت خوشگوار تھا۔ ۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانے نے نئی کروٹ لی اور تجربے کے عہد سے گزرنے کے بعد نئی تعمیر کا خیر مقدم کیا۔ افسانہ نگاروں نے ایک بار پھر حقیقت نگاری کی جانب توجہ دی اور بدلتے وقت و حالات کے ساتھ افسانوں میں ماجرا، پلاٹ، کردار، کہانی پن کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشرتی رشتوں کی تلاش کرنے لگے۔
خواتین افسانہ نگاروں کی از سر نو دریافت
۱۹۸۰ سے ۲۰۰۰ تک کی دہائیوں پر محیط بیسویں صدی کے اس عہد میں کئی خواتین کی تحریریں منظر عام پر آئیں جن کو پڑھ کر ایک نئی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ تحریریں خود خواتین افسانہ نگاروں کی از سر نو دریافت کی طرف ایک واضح اشارہ ہیں جس سے تاریخ اور سماج پر خواتین کے ایک نئے تجزیے کا اندازہ ہوتا ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں کے حوالے سے اس عہد میں اردو افسانے کے منظر نامے کو روشن کہا جاسکتا ہے۔
فکری و فنی بصیرتوں سے لبریز کئی باشعور خواتین افسانہ نگاروں کے افسانے اردو کے ادبی افق پر نمودار ہوئے۔ جن میں ثروت خان، ترنم ریاض، شمیم نکہت، نگار عظیم ، غزال ضیغم تبسم فاطمہ، اشرف جہاں، کوثر پروین، فریدہ رحمت اللہ ، صادقہ نواب سحر، ہاجرہ مشکور وغیرہ کے اسمائے گرامی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان خواتین کی کہانیوں کا دائرہ مختلف موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ان کہانیوں میں عورت کے دکھ درد ہی نہیں بلکہ عصری مسائل کا خوبصورت اور فنکارانہ بیان بھی ہوا ہے۔
موضوعات میں تنوع اور فنی رجحانات
۱۹۸۰ کے بعد افسانوں کی خاصیت موضوعات کی سطح پر تنوع ہے۔ سائنسی و صنعتی کشمکش، زندگی کی لایعنیت ، مذہبی انتشار، بغاوت کا جذبہ احتجاج و خارجی جبریت ، سیاست اور رشتوں میں نفرت و دوری جیسے موضوعات نے افسانوں میں جگہ پائی۔ اس عہد کا افسانہ روایتی پیش رو افسانے سے قدرے مختلف ہے اس میں نہ تو روایتی افسانے کی طرح منطقی اصول سختی سے مروج ہیں اور نہ ہی جدید افسانے کی طرح افسانے کے فنی تراکیبوں سے گریز ملتا ہے۔
افسانہ نگاروں نے افسانے کو ذات کے حصار سے نکال کر اس کو پھر سے اپنے گردو پیش کے حالات و ماحول سے واقف کرایا، جس سے قاری اور افسانے کے بیچ پھر سے رشتہ استوار ہوا۔
خواتین افسانہ نگاروں کا بیدار ذہن اور نسائی نقطہ نظر
۱۹۸۰ کے بعد کی خواتین افسانہ نگار نسبتاً زیادہ بیدار ذہن اور عالمی حالات و واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ آج کی تیز رفتار زندگی میں جو سماجی تبدیلیاں آرہی ہیں اور رشتے کا جو نیا منظر نامہ سامنے آیا ہے اس پر بھی ان کی صاف نظر ہے۔ مگر یہ بھی واضح ہے کہ خواتین نے فوقیت عورتوں کے مسائل کو ہی دی ہے۔ عورتوں کی نفسیات اور سماجی نا انصافیوں کو عورت کے نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ ہر افسانہ نگار کے یہاں عورت کی سماجی حیثیت کے تعلق سے ایک احتجاج ضرور ملتا ہے۔ خواہ وہ احتجاج خاموش ہو یا با آواز بلند ۔ اس عہد میں خواتین افسانہ نگاروں نے عصری آگہی اور سماجی معنویت کو خود اپنے تجربے اور غور و فکر کا حصہ بنا کر زندگی کی حقیقتوں اور مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے۔
زبان و بیان اور تخلیقی بیانیہ
بیسویں صدی کی اس آخری دو دہائی میں زبان و بیان کی سطح پر کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ خواتین نے اپنے افسانوں میں سیدھی اور شفاف زبان کا استعمال کیا۔ ان کا طرز اسلوب وضاحتی اور افسانوی ہے۔ اس دور کے افسانوں میں کہانی پن کو اپنا مقام ملا اور ایک نیا تخلیقی بیانیہ معرض وجود میں آیا۔ بیانیہ کی طرف رجوع کرنے کے ساتھ ہی خواتین افسانہ نگاروں نے بے جا علامت نگاری، غیر ضروری پیکر تراشی اور مبہم اشاریت سے پر ہیز کیا۔ ابہام اور علامتی بیانیہ سے انحراف کی شعوری کوشش کی اور معاشرہ کے نشیب و فراز سے رشتہ استوار کیا۔
ان خواتین کے افسانوں میں عام، سادہ اور ماورائی رنگ و آہنگ کا استعمال ہوا ہے۔ کہانیاں، بیانیہ واضح اور راست انداز میں لکھی گئیں ۔ اس عہد کی خواتین افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں زندگی کی حقیقتوں اور جیتے جاگتے کرداروں کو پیش کیا ہے۔ آج کا افسانہ کسی بھی دباؤ کو قبول کیے بغیر آزاد فضا میں سانس لے رہا ہے اور افسانہ نگار اپنے تخلیقی اظہار کے لیے نئے نئے وسیلے تلاش کر رہے ہیں ۔