مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

نظریات کی بھینٹ چڑھتا خاندان: ناول آنگن میں بڑے چاچا کا کردار

نظریات کی بھینٹ چڑھتا خاندان: ناول آنگن میں بڑے چاچا کا کردار


آخری بار اپ ڈیٹ کیا گیا: 30 جولائی 2025

محقق کا تعارف: یہ بلاگ پوسٹ کاشف زبیر، سید مہر علی شاہ، اور وقاص احمد کے تحقیقی مقالے پر مبنی ہے، جو انہوں نے بی ایس اردو کی تکمیل کے لیے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، ہری پور میں پروفیسر ذوالفقار علی کی زیرِ نگرانی مکمل کیا۔


تعارف

سیاسی نظریات جب جنون کی حد تک پہنچ جائیں تو تلوار سے زیادہ مہلک ہتھیار بن جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف ملکوں کو تقسیم کرتے ہیں بلکہ گھروں، خاندانوں اور دلوں میں بھی ایسی دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں جنہیں عبور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ خدیجہ مستور کے لازوال ناول "آنگن” میں بڑے چاچا کا کردار اسی تلخ حقیقت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔

وہ ایک ایسے محبِ وطن ہیں جن کی حب الوطنی کا شعلہ اتنا بلند ہوتا ہے کہ اس کی تپش ان کے اپنے ہی گھر، ان کے اپنے ہی آنگن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ وہ ملک کی آزادی کے لیے لڑتے ہیں، لیکن اس جدوجہد میں اپنے خاندان کو غربت، محرومی اور جذباتی تنہائی کی قید میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ کردار اس المیے کی علامت ہے کہ عظیم مقاصد کے حصول کی جدوجہد میں اکثر سب سے بنیادی انسانی رشتے قربان ہو جاتے ہیں۔

کانگریس کا کٹر سپاہی: اصول یا انتہا پسندی؟

ناول "آنگن” میں بڑے چاچا کا کردار ایک ایسے کٹر کانگریسی کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے جو متحدہ ہندوستان کے نظریے پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہے۔ ان کے لیے کانگریس ہی حب الوطنی کا دوسرا نام ہے اور اس کے علاوہ ہر دوسری سیاسی جماعت، خاص طور پر مسلم لیگ، ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ ان کی نظریاتی شدت پسندی اس حد تک ہے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے پر بھی شکوک کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں تاکہ ان کی کانگریس سے وفاداری پر کوئی آنچ نہ آئے۔ تھیسس میں ان کی اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:

”وہ اس قدر کٹر کانگریسی تھے کہ خاص مسلمانوں کی کسی بھی جماعت کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔ انہیں اپنے مسلمان ہونے پر بھی شبہ رہتا۔ کانگریس کے سوا ہر جماعت کے لوگ ان کی نظر میں ملک کے غدار ہیں۔“

یہ کردار اس نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو قومی آزادی کو ذاتی اور خاندانی مفادات پر فوقیت دیتی تھی۔ ان کا اصول پرستی قابلِ ستائش ہو سکتی تھی، لیکن ان کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ اپنے نظریے کے علاوہ کسی دوسرے نقطہ نظر کو سننے یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کی یہی انتہا پسندی انہیں ایک قومی ہیرو بنانے کے بجائے اپنے ہی خاندان کے لیے ایک ظالم شخصیت بنا دیتی ہے۔

غافل باپ اور بے پرواہ شوہر: خاندان کی تباہی

بڑے چاچا کا کردار اس المیے کو مجسم کرتا ہے جہاں ایک شخص قومی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے اپنی ذاتی اور خاندانی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ وہ اپنی تمام تر توانائی، وقت اور وسائل سیاسی سرگرمیوں، جلسوں اور چندوں پر خرچ کر دیتے ہیں، جبکہ ان کا اپنا خاندان غربت اور محرومی کی چکی میں پستا رہتا ہے۔

ان کی لاپرواہی کی سب سے دردناک مثال ان کی اپنی بیٹی کی زندگی ہے۔ وہ اس کی شادی صرف اس لیے ایک غریب اور معمولی لڑکے سے کر دیتے ہیں کیونکہ وہ کانگریسی تھا۔ اس کے بعد وہ کبھی پلٹ کر اس کی خبر نہیں لیتے، چاہے وہ کتنی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہو۔ مصنفہ لکھتی ہیں:

”اپنی پہلوٹھی کی اکلوتی بیٹی کو ایک معمولی لڑکے سے بیاہ دیا تھا، وہ بھی صرف اس لیے کہ لڑکا کانگریسی تھا۔ اس وقت سے اب تک ان کی بیٹی چار عدد بچوں کے ساتھ اپنے آنگن میں گوبر تھاپ تھاپ کر زندگی گزار رہی تھی۔“

یہ منظر دل دہلا دینے والا ہے۔ ایک شخص جو پورے ملک کے عوام کی بھلائی کے لیے لڑ رہا ہے، اپنی بیٹی کو گوبر تھاپنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد کی وجہ سے ان کا کاروبار تباہ ہو جاتا ہے، گھر میں فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے، اور ان کی بیوی اور بچے جذباتی اور معاشی طور پر تنہا رہ جاتے ہیں۔ وہ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔

نظریاتی تصادم کا مرکز: جب آنگن اکھاڑہ بن جائے

بڑے چاچا کا گھر امن اور سکون کا گہوارہ ہونے کے بجائے سیاسی نظریات کا اکھاڑہ بن جاتا ہے۔ ان کی کٹر کانگریسی سوچ کا براہِ راست تصادم ان کے بیٹے جمیل اور بھتیجی چھمی کی مسلم لیگی ذہنیت سے ہوتا ہے۔

  • باپ بیٹے کا ٹکراؤ: ان کا بیٹا جمیل مسلم لیگ کا پرجوش حامی ہے اور پاکستان کے قیام کا خواب دیکھتا ہے۔ باپ اور بیٹے کے درمیان سیاسی اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ان کا رشتہ محبت کے بجائے نفرت اور بحث و تکرار کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ بڑے چاچا اپنے ہی بیٹے کو برداشت نہیں کر پاتے کیونکہ اس کا نظریہ ان سے مختلف ہے۔
  • اختلاف رائے کی عدم برداشت: وہ اپنے گھر میں کسی بھی قسم کی مخالف سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتے، جس کی وجہ سے گھر کا ماحول ہر وقت کشیدہ رہتا ہے۔ وہ اپنی بیوی پر بھی غصہ کرتے ہیں جب وہ گھر میں مسلم لیگ کے حامیوں کو آنے کی اجازت دیتی ہے۔ ان کا گھر دراصل اس وقت کے ہندوستان کی ایک چھوٹی سی تصویر ہے، جہاں سیاسی عدم برداشت نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا تھا۔

المیہ انجام: نظریات کی آگ میں جلتا وجود

بڑے چاچا کا کردار کا انجام بھی اتنا ہی المناک ہے جتنی ان کی زندگی۔ تقسیمِ ہند کے وقت جب ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑتے ہیں تو وہ انہی فسادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مصنفہ نے ان کی موت کو بڑے دکھ کے ساتھ بیان کیا ہے:

”آخر میں تقسیمِ ہند کے وقت ہندو مسلم فسادات میں انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔“

ان کی موت میں ایک گہرا المیہ پوشیدہ ہے۔ ایک شخص جس نے اپنی پوری زندگی متحدہ ہندوستان کے لیے وقف کر دی، آخرکار اسی ہندوستان کی مذہبی اور سیاسی تقسیم کی آگ میں جل کر مر جاتا ہے۔ ان کی موت کوئی بہادرانہ موت نہیں، بلکہ اس افراتفری اور تشدد کا نتیجہ ہے جسے روکنے میں ان جیسے نظریاتی انتہا پسند ناکام رہے۔ ان کا انجام اس بات کی علامت ہے کہ جب معاشرہ تشدد کی راہ پر چل نکلتا ہے تو اصول اور نظریات بے معنی ہو جاتے ہیں اور ہر کوئی اس آگ کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔

بڑے چاچا کے کردار کی علامتی اہمیت

بڑے چاچا کا کردار محض ایک شخص کی کہانی نہیں، بلکہ یہ کئی سطحوں پر علامتی اہمیت رکھتا ہے:

  • نظریاتی جنون کی علامت: وہ اس بات کی علامت ہیں کہ کس طرح عظیم نظریات بھی جب جنون کی شکل اختیار کر لیں تو تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
  • اس نسل کا المیہ: وہ اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو آزادی کے خواب میں اس قدر محو تھی کہ اسے اپنے پاؤں تلے جلتی ہوئی زمین نظر نہیں آئی۔
  • پدرشاہی کی ناکامی: وہ اس پدرشاہی نظام کی ناکامی کی بھی علامت ہیں جہاں گھر کا سربراہ اپنی انا اور نظریات کو خاندان کی فلاح و بہبود پر ترجیح دیتا ہے۔

خلاصہ

مختصر یہ کہ بڑے چاچا کا کردار خدیجہ مستور کے ناول "آنگن” کا ایک انتہائی پیچیدہ، کثیر الجہتی اور ناقابلِ فراموش کردار ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں قابلِ رحم بھی ہیں اور قابلِ نفرت بھی۔ وہ ایک ایسے محبِ وطن ہیں جن کی حب الوطنی ان کے اپنے خاندان کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔ ان کا کردار اردو ادب میں ایک طاقتور یاد دہانی ہے کہ سیاسی نظریات اور قومی مقاصد کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اگر ان کی قیمت خاندانوں کی تباہی اور انسانی رشتوں کی پامالی کی صورت میں ادا کی جائے تو ایسی آزادی اور ایسے نظریات پر سوال اٹھانا لازم ہو جاتا ہے۔


ماخذ اور حوالہ جات



ڈس کلیمر: کچھ جملوں میں SEO اور پڑھنے میں آسانی کے لیے معمولی ترمیم کی گئی ہے۔ مکمل اور اصل تحقیق کے لیے، براہِ کرم اوپر ‘ماخذ اور حوالہ جات’ کے سیکشن میں دیے گئے مکمل مقالے (PDF) کا مطالعہ کریں۔


بڑے چاچا کا کردار آپ کو ایک قومی ہیرو لگتا ہے یا ایک ناکام باپ؟ اپنی رائے سے ہمیں کمنٹس میں آگاہ کریں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں