بین المتونیت تعریف و تفہیم

بین المتونیت (Intertextuality)

——-> مابعدجدید تنقید اور طریق ہائے مطالعہ کی وضاحت جس عمدگی سے بین المتونیت کرتی ہے، کوئی دوسری اصطلاح نہیں کرتی ۔

مابعد جدید تنقید اور مطالعاتی طریقے بین العلومی اور بین المتونی ہیں ۔

——-> مابعد جدیدیت ایک ایسا چوراہا ہے، جہاں پر چاروں طرف سے آنے والے علوم اور متون کے قافلے ایک دوسرے میں آمیز ہوتے اور مکالمہ کرتے ہیں۔

——–>بین المتونیت کی اصطلاح جولیا کر ستیوا نے ۱۹۶۶ء میں وضع کی ۔ Intertexuality کا لفظ اس نے لاطینی لفظ To interminglewhile*( "سے وضع کیا،
جس کا مطلب ہے بنتے ہوئے باہم ملانا *Intertexto weaving)*

اور اس سے جو اصطلاحی مفہوم اس نے نتھی کیا ، وہ اس نے سوسیئر کے لسانی فلسفے اور میخائل باختن کے مکالمیت (Dialogism) سے اخذ کیا ہے۔

—–>روی نقاد میخائل باختن* نے اپنی کتاب ”دوستوفسکی کی شعریات کے مسائل (۱۹۲۹ء) میں دوقسم کے متون ” خود کلامی (monologic) اور آزاد کلامیہ (dialogic) کا ذکر اور ان میں فرق کیا تھا۔

——-> اس کے مطابق وہ متن خود کلامیہ یا monologic ہے، جس کے کردار فقط مصنف کے نجی اور محدود نقطہ نظر کی ترسیل پر مامور ہوتے ہیں۔

یعنی کرداروں کی اپنی ، جدا گانہ شخصیت نہیں ہوتی ، وہ مصنف کی ذہنی دنیا کا مکس ہوتے ہیں ، ایسے متن میں دراصل مصنف خود کلامی کرتا ہے اور یہ متن واحد معنی کا حامل ہوتا ہے۔

جب کہ آزاد کلامیہ یا dialogic متن مصنف کے جبر اور اس کے نجی سوانحی حصار سے آزاد ہوتا ہے ، اس لیے اس میں مختلف اور متنوع نقطہ ہائے نظر کے اظہار کی گنجائش ہوتی ہے، اس کے کرداروں کی اپنی آزادانہ حیثیت اور شخصیت ہوتی ہے۔

وہ اپنے زاویے سے سوچ سکتے اور اپنی رضا سے عمل کر سکتے ہیں۔

——> باختن نے دستوفسکی کے ناولوں کو آزاد کلامیہ اور ٹالسٹائی کے ناولوں کو خود کلامیہ قرار دیا تھا۔

—–>اُردو میں نذیر احمد کے بعض ناول خود کلامیہ اور قراۃ العین حیدر کے بیشتر ناول ” آزاد کلامیہ” کہے جاسکتے ہیں ۔ آزاد کلامیہ، متن میں ظاہر ہونے والے ہر نقطہ کو ایک متن قرار دیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ dialogism کے نظریے میں بین المتونیت کے
ابتدائی خدو خال موجود تھے۔

———–>سوسئیر کے لسانی فلسفے کے مطابق زبان نشانات پر مشتمل ہے اور یہ نشانات ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہو کر زبان کا نظام تشکیل دیتے ہیں اور یوں زبان دراصل رشتوں کا ایک نظام ہے ( یعنی الفاظ یا نشانات کا مجموعہ نہیں ، زبان کے تمام عناصر ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں، اور اسی ربط و انحصار سے معنی پیدا ہوتے ہیں۔

بین المتونیت بھی رشتوں کے نظام اور متون کے ربط و انحصار کا تصور رکھتی ہے نیز وہ متن کو مصنف کے جبر سے آزاد بجھتی اور ایک متن کو مختلف متون کی رزم گاہ خیال کرتی ہے۔ اس کے مطابق ایک متن میں متعدد دوسرے متون شامل اور کار فرما ہوتے ہیں۔ لہذا کوئی متن خود مختار ہوتا ہے، نہ اپنے آپ میں قائم ہونے کی اہلیت رکھتا ہے ۔

جولیا کر ستیوا کے مطابق

ہر متن حوالہ جات کے موزیک کے طور پر وجود میں آتا ہے۔ ہر متن دوسرے متون کو جذب اور ان کی تقلیب کرتا ہے۔

———->نیا متن ، جن پرانے ، سابق یا دوسرے متون کو بروئے کار لاتا اور ان کے قلب ماہیت کرتا ہے-

وہ کئی قسم کے ہیں:

ادبی، ثقافتی، نشانیاتی ، روایاتی وغیرہ۔
جوناتھن کلر نے پانچ متون کی نشان دہی کی ہے سماجی متن جسے حقیقی دنیا سمجھا جاتا ہے؟

ثقافتی متن وہ اجتماعی اور مشتر کہ علم جسے ایک گروہ کے افرا دل کر تشکیل دیتے اور کام میں لاتے ہیں ۔ اور جو انھیں فطری لگتا ہے ، صنفی ضابطوں اور کنونشنز سے مرتب ہونے والا متن ، مصنوعی کی طرف قدرتی رویے سے عبارت متن ؛

جس پر نیا متن استوار ہوتا ہے۔ بنا بریں بین المتونیت محض ادبی متون کی آمیزش کا تصور نہیں دیتی، بلکہ ان تمام نشانیاتی ، ثقافتی ، علامتی ، روایاتی ، لسانی متون اور دینی وفکری رویوں کا مطالعہ بین المتونیت کرتی ہے جو کسی متن میں مضمر و فعال ہوتے ہیں۔

——-> بعض لوگ بین المتونیت سے ادبی متون کا تقابلی مطالعہ مراد لیتے ہیں، جو ہرگز درست نہیں ، اس لیے کہ کسی متن کی تشکیل میں جو دوسرے متون کام آئے ہیں ، وہ محض ادبی نہیں ہوتے ، نیز ان کی تقلیب ہو جاتی ہے یا وہ ڈی کنسٹرکٹ ہو جاتے ہیں۔ تقابلی مطالعہ تو اس وقت ممکن ہے جب متون اپنی وہ صورت قائم رکھ سکیں کسی متن میں جذب ہونے سے پہلے جس کے وہ حامل ہوتے ہیں۔

بین المتونیت کا زور تین باتوں پر ہے:

—–> اول یہ کہ کوئی متن خود اپنے آپ میں قائم اور خود مکتفی نہیں،

——> دوم یہ کہ متن میں دوسرے متون کے ٹکرانے سے معانی کی کثرت پیدا ہوتی ہے۔

——–> سوم یہ کہ متن کی طرح قرآت اور مصنف بھی بین المتونى حیثیت رکھتے ہیں۔

قرآت کئی حوالوں اور تناظرات کو بروے کار لاتی ہے اور مصنف بہ بقول بارت ، ایک ایسا ظرف ہے جس میں مختلف تحریریں با ہم آمیز اور ٹکرا رہی ہوتی ہیں، گویا مصنف نہیں تحریریں فعال ہوتی ہیں۔

حواشی:

(موضوع)،{بین المتونیت, }}،[کتاب کا نام]،{ادبی اصطلاحات}،{کوڈ کورس :—–> : 9015}،{صفحہ نمبر {180 تا182 }،{مرتب کرده…مسکان محمد زمان}

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں