بہمنی دور کے اہم شعراء

کتاب کا نام۔۔۔تاریخ اردو ادب1
کوڈ نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔ 5601
صحفہ نمبر ۔۔۔۔۔۔۔ 95 تا 97
موضوع۔۔۔۔بہمنی دورکے شعراء
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔۔۔ عارفہ راز
۔۔۔۔۔۔ بہمنی دور کے شعراء ۔۔۔۔۔۔

بہمنی دور کے اہم شعراء

پیشتر اس کے کہ بہمنی دور کے اہم شعراء کے کلام سے کچھ نمونے پیش کئے جائیں اس امر پر زور دیتا لازم ہے کہ اس عہد کے بیشتر اہم شعراء صوفی بھی تھے لہذا ان کی شاعری یا نثری تصانیف دنیا داری اور تفریح طبع کے لئے نہ تھیں وہ تبلیغ اسلام کے لئے وقف بھی تھے لہذا ان کی شاعرانہ کاوشیں بھی اس مقصد کی توسیع تھیں۔ ان کی شاعری اور تصانیف کے مخاطب ان کے ارادت مند اور مریدین ہوتے تھے اس لئے اس عہد کے صوفی شعراء نے روحانی ہدایت نامے اور اچھا مسلمان ملنے کے لئے پند نامے شاعرانہ اسلوب میں بیان کئے ۔

آج کے مروج مفہوم میں ادب کی خدمت نہیں کر رہے تھے لیکن ہوا یہ کہ ان کی تخلیقی کاوشیں اردو لسانیات میں اب اساسی حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں آج کے ماہر لسانیات محقق یا اولی مورخ کے لئے ان کی مذ ہبی اہمیت یا متصوفانہ مرتبہ ثانوی ہے جبکہ

ان کی لسانی حیثیت اساسی اہمیت کی حامل ہے۔

ذیل میں بہمنی دور کی رکنی کے چند نمونے پیش ہیں : مولوی عبدالحق نے اردو کی ابتدائی نشود نما میں صوفیائے کرام کا کام میں خواجہ گیسو دراز بندہ نواز کی

معراج العاشقین ” ( سنه کتابت 906ء) سے یہ اقتباس درج کیا ہے : اے عزیز : اللہ بند و بنا یہاں بچھان کو جاتا نہیں تو شرح جاتا ہے اول اپنی پچھانت بعد از خدا کی بچھانت ہے۔ انسان کے پوجنے کوں پانچ تن’ ہر ایک تن کوں پانچ دروازے ہیں ہو ر پانچ دربان ہیں۔ پہلا تن واجب الوجود مقام اس کا شیطان نفس اس کا امارہ یعنی واجب کی ایک سوں غیر نہ دیکھا سو حرص کے کان سوں غیر نہ سننا ہو جسد یک سوں بد جوئی نہ لینا سو ان کی زبان سوں بد گوئی نہ کرنا سو کینا کی شمونت کوں غیر جاگا خریتا ہو ، پیر طبیب کامل ہوتا نبض پہچان کوں دواد یتا”۔

شاعرانہ کلام کا اسلوب یہ ہے

اردو کی ابتدائی نشود نما میں صوفیائے کرام کا کردار، ص (23)

میں عاشق اس پہیو کا بنے مجھے جیو دیا ہے او پیو میرے جیو کا برما لیا ہے
جو کوئی عاشق اس پیو کے اسی جیویں جانے اسی دیکھت کم ہو رہے جیسی میں دیوانے شکل بازی عشق کے چھوٹے جیو کوانا

99/112

(دکن میں اردو اس : 54-53)

موتو قبل ان تمو تو شاہد ہے معنا

شاہ میراں جی شمش العشاق کی شاعری کا یہ انداز ہے :

خوش خوش حالوں خوش خوشیاں خوشی رہے بھر پور یہ خوشی خوشیاں اللہ کرا نوراً على نور کھنڈیا خوشی خوش نامه تمت ہوا تمام خوش سب کوئی دایم قائم جیتا خود حسن عوام جے ہماری ارادت کی ان کا یہ احکام نماز تسبیح نیاں ذکر اللہ یک نام

<>

وکن میں اردو اص : 69)

شاہ صدر الدین کی تصوف پر ایک تصنیف کسب محویت (876ھ) سے چند اشعار پیش ہیں :

ہاؤں نے اللہ محمد کا اول

کب کا سب کو کیوں در ہر محل

گوش جاں سوں اب سنو صاحب یقین

کیا کہتا ہے نظم میں شہ صدر الدین

اولا بانفس و دل قطب مثال

کامیاب کوں یہاں تے ہے راہ وصل

خواهش دانائی کا تو بوج حال

راه الاتصال ذو الفضل

دکن میں اردو اس (62)

بہمنی دور کی تخلیقات اور زبان کے مطالعہ کے سلسلہ میں یہ امر ملحوظ رہے کہ اگر ایک طرف یہ اردو کا

قدیم ادب ہے تو دوسری طرف دکنی ادبیات کی ابتدائی صورت بھی ہے لہذا اس عہد کی ادبی تخلیقات میں اسلوب کی

اس جمالیات کو تلاش کرنا بے سود ہے جس کے ہم عادی ہیں۔ اسی طرح ان تخلیقات کا مطالعہ آج کے تنقیدی
معیارات کے مطابق نہیں ہونا چاہیے ۔ آج ان کا مطالعہ لسانیات کے ضمن میں ہوتا ہے اور میں درست رویہ بھی

ہے۔ بہمنی دور کا ادب ادب تو ہے مگر ایسا ادب نہیں ہے جس سے ہم مانوس ہیں۔

دکن کے جو نمونے درج کئے گئے ہیں ان میں یقینا نامانوس الفاظ موجود ہیں اور انہی کی وجہ سے مفہوم تک رسائی مشکل ہے۔ اس سلسلہ میں ان دو لغت سے استفادہ کا مشور و دیا جاتا ہے۔

-1 جمیل جالبی ڈاکٹر قدیم اردو کی لغت – مرکزی اردوپورڈ لاہور 1972ء

-2 جاوید وششٹ ڈاکٹر” بحر المعانی : دکنی اردو کا لغت ” . – فرید آباد 1987ء

بہمنی دور یا اس کے بعد کے ادوار سے متعلق تخلیقات و تصانیف کا یہ سوچ کر مطالعہ کریں کہ ہم اردو زبان کے ماضی کے کھنڈرات کی سیر کر رہے ہیں تب یہ نکتہ روشن ہو گا۔

کھنڈر بتا رہے ہیں۔ عمارت عظیم تھی۔ "

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں